صدابصحرا…..تعلیم و تربیت اور کرپشن

……..ڈاکٹرعنایت اللہ فیضیؔ…….

آج وطن عزیز میں کرپشن یعنی بد عنوانی کا اتنا ذکر ہو رہا ہے کہ گویا ملک میں کرپشن کے سوا کوئی کام ہی نہیں۔ 100سال پہلے یہاں چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں۔ اوپر انگریز کی حکومت تھی۔ مقامی ریاستوں کے ہندو اور مسلمان منشی نیم خواندہ تھے۔ انگریز پڑھے لکھے لوگ تھے۔ کرپشن یا بد عنوانی کا نام کسی نے نہیں سنا تھا۔ 100سال بعد کرپشن کس طرح ناسور بن کر پھیلا؟ اس کی بنیاد کہاں رکھی گئی؟ میرا خیا ل ہے اور تجربہ بھی اس پر دلالت کرتا ہے، مشاہدہ اسکی شہادت دیتا ہے کہ کرپشن کی بنیاد سکولوں ، کالجوں، مدرسوں، یونیورسٹیوں اور سروس اکیڈمیوں کے اندر رکھی جاتی ہے۔ ہمارے کسی بھی نظام کے تحت چلنے والے تعلیمی ادارے سے دیانت دار شہری باہر نہیں آتا۔ گھر پر جس کو دیانت داری کا سبق دیا گیا ہے وہ بھی یونیورسٹی ، مدرسہ اور اکیڈمی سے بددیانت بن کر نکلتا ہے۔
100سال پہلے ہمارے لیڈروں، افسروں اور اساتذہ کرام کے جو حالات لکھے گئے ان میں صراحت کے ساتھ تعلیم اور تربیت کا ذکر ہوتا ہے۔ انگریزی میں تعلیم کو Educationاور تربیت کو Trainingکہا جاتا ہے۔ 100سال پہلے تعلیم و تربیت کی اصطلاح بہت عام تھی۔ اب یہ اصطلاح متروک ہو چکی ہے۔ صرف تعلیم رہ گئی ہے۔ تربیت کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اور خرابی کی جڑ یہی ہے۔ تربیت میں رول ماڈل یا مثالی کردار لوگوں کے سامنے ہوتا تھا۔ نبی کریم ﷺ کا کردار دکھا یاجاتاتھا۔ خلفائے راشدین کا کردار دکھایا جاتا تھا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز ، حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؒ ، حضرت مجدد الف ثانی ؒ کا کردار دکھا یا جاتا تھا۔ انگریزوں اور ہندوؤں کے بھی ایسے ہی رول ماڈل تھے۔ 100سال بعد انگریزوں اور ہندوؤں کا تعلیمی نظامی بہتر ہوا ہے۔ ان کے ہاں رول ماڈلز اور کردار سازی پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ یہاں تک کہ تبت کے بدھوں کا روحانی پیشوا دلائی لامہ بھی ہمارے نبی کریم محمد ﷺ کو اپنا رول ماڈل مانتا ہے۔ جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ بقول اقبال :
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ
یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں انٹی کرپشن کے نام سے جو محکمہ بن گیا وہ سب سے زیادہ کرپٹ ثابت ہوا۔ احتساب کے نام پر جو ادارہ بنا۔ اس میں احتساب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملا۔ دوربین میں بھی کسی نے نہیں دیکھا۔ کیونکہ بنیادی تعلیم غلط ہے۔ تربیت ہی غلط ہے۔ یونیورسٹی والوں نے کرپشن کے ذریعے بنائے گئے پلازوں پر باپ دادا کے ناموں کی تختی لگائی تو مدرسہ والوں نے کرپشن کے کرشمات سے تعمیر کی گئی عمارتوں پر قرآن پاک کی آیت “ہٰذا من فضل ربی”کی تختی نصب فرمائی۔ اور یہی لوگ زیر تعلیم نوجوانوں کے رول ماڈل بن گئے۔ تعلیمی نظام سے تربیت کو الگ کر کے نکال باہر کرنے کا یہ نتیجہ نکلا کہ آج ہمارے ہاں کوئی سیاستدان کرپشن میں پکڑا جاتا ہے تو وہ پلی بارگین کے ذریعے لوٹی ہوئی دولت کا 10فیصد ادا کر کے وکٹری کا نشان انگلیوں پر سجا کر گلے میں پھولوں کا ہار ڈال کر جیل سے باہر آتا ہے۔ اگلے الیکشن میں پھر بڑے عہدے پر فائز ہوتا ہے۔ تعلیم و تربیت میں خرابی کا یہ نتیجہ نکلا کہ فوج کے جرنیلوں کو کرپشن کے جرم میں پکڑ کر جیل بھیجنے کی جگہ گھر بھیجا جاتا ہے۔ تعلیم سے تربیت کا حصہ نکال باہر کرنے کا یہ شاخسانہ ہے کہ انجینئرنگ یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات اپنے شعبے کے سب سے بڑے کرپٹ اور بد عنوان شخص کی دولت اور عزت کو رول ماڈل بناتے ہیں۔ میڈیکل کالج کے طلبہ و طالبات اپنے شعبے کی سب سے بڑی کرپٹ شخصیت کی طرح بننے کا خواب لے کر باہر آجاتے ہیں۔ مدرسوں کے طلبہ اس مولوی کو رول ماڈل بناتے ہیں جس کی 10، 12سنہری گاڑیاں ہوں اور جس کے آگے پیچھے بہت سے سیکیورٹی گارڈ ہوں۔ تعلیم و تربیت کے فقدان نے یہ نتیجہ بھی دکھایا ہے کہ سول سروس اکیڈمی والٹن اور فوجی اکیڈمی کاکول سے لے کر نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اور سینئر مینجمنٹ کورس تک ہر جگہ “کارکردگی”(Performance) کو دیانت داری (Honesty) پر فوقیت دی گئی ہے۔ پرفارمنس کا جو معیار مقرر ہے اس میں دیانت داری ، صداقت اور امانت کے تین اصول شامل نہیں ہیں۔ ہماری یونیورسٹیوں، ہمارے ٹریننگ اکیڈمیز اور ہمارے مدرسوں کے اندر اساتذہ اور طلبہ، انسٹرکٹرز اور کیڈٹس یا ٹرینر کا سروے کیا جائے تو ان کے پسندیدہ موضوعات بحریہ ٹاؤن میں گھر، ڈی ایچ اے میں پلاٹ، ویگو، ٹیوٹا کرولا، ہنڈا سِوک اور مرسڈیز کے مختلف ماڈل ہیں۔ لائف سٹائل کا ٹف مقابلہ ہے اور یہ مقابلہ سیاسی لیڈروں، ججوں، جرنیلوں، آفیسروں سے زیادہ ان کی بیگمات اور اولاد کے درمیان ہے۔ یہ آرمز ریس اور سٹار وار کی طرح خطرناک مقابلہ ہے۔ اگر اس کی بیگم عید کی شاپنگ کے لئے پیرس جاتی ہے۔ تو اُس کی بیگم کو عید کی شاپنگ دبئی، ہانگ کانگ یا سنگا پور میں ضرور کرنی ہو گی۔ اس نے اگر بنی گالہ میں فارم ہاؤس بنایا ہے تو اس کو چک شہزاد میں فارم ہاؤس بنانا ہو گا۔ یہ فضا پہلے سے بنائی جاتی ہے۔ اس کے لئے زمین ہموار کی جاتی ہے ۔ اہداف مقرر کئے جاتے ہیں تب جا کر قومی اسمبلی کی ایک سیٹ کے لئے 90کروڑ روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔ سینٹ کی ایک نشست پر 80کروڑ روپے کی بولی لگائی جاتی ہے۔ کابینہ میں وزیر بننے کے لئے 50کروڑ کا چندہ پارٹی فنڈ میں جمع کیا جاتا ہے۔ یہ تعلیم اور تربیت میں پائے جانے والے نقائص کا نتیجہ ہے کہ آڈٹ کرنے والے کو تنخواہ اور سفر خرچ دینے کی بجائے یہ تربیت دی جاتی ہے کہ ایکسن، ڈی ایف او، ڈی ایف سی اور ایس پی یا ڈی سی کے دفتر سے 7، 7لاکھ روپے لے لو۔ ہیڈماسٹر، پرنسپل اور پوسٹ ماسٹر سے بھی 30ہزار روپے لے کر آڈٹ کرو۔ آڈٹ کا یہ خرچہ جعلی رسیدوں کے ذریعے سرکاری خزانے سے نکالا جاتا ہے۔ یہ تعلیم و تربیت کی خامی کا شاخسانہ ہے کہ پلی بارگین کے نام پر کرپٹ سیاستدان کو دوبارہ وزارت دی جاتی ہے اور یہ غلط تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہے کہ جرنیل اور جج کرپشن کرے تو اس کو جیل کی جگہ گھر بھیجا جاتا ہے۔ ایک استاد کی حیثیت سے میرے پاس کرپشن کو ختم کرنے کے دو نسخے ہیں۔ شارٹ ٹرم نسخہ یہ ہے کہ سب سے بڑے استاد ماؤزے تنگ، دوسرے استاد شی گویرا اور تیسرے استاد خمینی کی طرح میجر سرجری کی جائے۔ اس سرجری میں ہاتھ پاؤں، ناک، کان بھی کاٹ کر پھینکے جاتے ہیں۔ سروں کو بھی اڑایا جاتا ہے۔ یہ وقتی علاج ہے۔ مستقل علاج کا مرحلہ آگے آئے گا۔ میجر سرجری کے بعد تعلیم اور تربیت کے پورے ڈھانچے کو بدلنا پڑے گا۔ تعلیم اور تربیت کے نظام کا ڈھانچہ بدل جائے تب معاشرے میں جھوٹ، منافقت، بد دیانتی، ریا کاری ، چوری، رشوت خوری، چائے پانی اور کمیشن وغیرہ کے مکروہ سلسلے ختم ہو ں گے۔ پلی بارگین کا نام مٹ جائے گا ۔اور کرپشن سے پاک معاشرہ قائم ہو گا۔ 16دسمبر 1971سے 9 جون2016تک 45سال 5 مہینے اور 23دن گزر گئے ، گویا نصف صدی سے کچھ کم عرصہ لگا ہے۔ اس عرصے میں ہماری آبادی 12کروڑ سے 20کروڑ تک پہنچ گئی ۔ 20کروڑ کی آبادی میں عبد الستا رایدھی، جسٹس بھگوان داس اور عبد اللہ کے علاوہ کوئی رول ماڈل نظر نہیں آتا۔ آپ غور کریں کسی بھی شعبے میں چوتھا رول ماڈل نظر نہیں آتا۔ مقررین ملیں گے، فن خطابت کے ماہرین ملیں گے۔ لیکن اختیارات اور وسائل ہاتھ آنے کے بعد کرپشن سے دامن بچانے والا چوتھا پاکستانی آپ کو نہیں ملے گا اور یہ تعلیم و تربیت کے غلط ڈھانچے کا نتیجہ ہے۔
ہیں اپنے بھی خفا مجھ سے بیگانے بھی ناخوش
کہ میں زہر ہلال کو بھی کہہ نہ سکا قند

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔