داد بیداد…..ہرات کا سلمیٰ ڈیم

……ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی ؔ ……..

افغانستان کے مغربی شہر ہرات میں ہری رُود نامی دریا پر سلمیٰ ڈیم کا افتتاح ہوا ہے۔ یہ تربیلا سے بڑا مگر کالا باغ سے چھوٹا ڈیم ہے۔ بجلی کی پیداوار کے ساتھ ساتھ آبپاشی کا پانی بھی ڈیم سے حاصل ہو گا۔ ڈیم کی خبر میں ہماری دلچسپی کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ ہری رود کے بعد شرقی افغانستان کے صوبہ جات کنڑ اور ننگر ہار میں دریائے چترال پر بھی اس طرح کے ڈیم بنائے جا رہے ہیں۔ ان ڈیموں کی تعمیر کے بعد ورسک ڈیم متاثر ہو گا اور وادی پشاور کی زمینوں کے لئے پانی دستیاب نہیں ہوگا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہرات کے ڈیم کا افتتاح بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کیا ہے۔ بھارت نے اس ڈیم کی تعمیر کے لئے افغانستان کو 29کروڑ ڈالر کی امداد دی ہے۔5جون کے اخبارات میں ڈیم کی افتتاح کی خبر کے ساتھ نریندر مودی کی تقریر کے اہم نکات بھی دئے گئے ہی۔ اپنی تقریری میں بھارتی وزیر اعظم نے افغانستان کو اپنا دوسرا گھر قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت انفرا سٹرکچر کے منصوبوں میں افغان حکومت کی مدد کرتا رہے گا۔ افتتاحی تقریب میں افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے جنگ سے تباہ حال افغانستان میں انفراسٹرکچر کی بحالی لئے بھارتی امداد کو سراہا اور بھارت کو افغانستان کا سٹریٹیجک پارٹنرقرار دیا۔ اس موقع پر بھارتی وزیر اعظم کو افغانستان کا سب سے بڑا اعزاز بھی دیا گیا۔ سٹریٹیجک پارٹنر شپ کا نام پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں محض خانہ پری کے لئے آتاہے ۔ امریکہ نے گزشتہ 68سالوں میں کسی بھی منصوبے کے لئے پاکستان کی امداد نہیں کی۔ پاکستان میں امریکی امداد سے بننے والا کوئی سکول، کوئی ہسپتال، کوئی پل آپ کو نظر نہیں آئے گا۔ کسی ایک کلومیٹر سڑک کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سڑک امریکی امداد سے بنی ہے۔ پاکستان کے ساتھ سٹریٹیجک پارٹنر شپ کا اعلان کرنے کے بعد امریکیوں نے افغانستان اور بھارت کو اپنا معاون بنایا اور انسٹیٹیوشنل ارینجمنٹ اس طرح کیا کہ جہاں سے امریکہ اپنی فوج یا اپنے ٹھیکہ دار کو واپس بلائے گا وہاں بھارت امریکہ کی جگہ لینے کے لئے تیار ہوگا۔ 2002ء سے اب تک 14سالوں میں جن لوگوں نے افغانستان کا دورہ کیا ہے ان کو معلوم ہے کہ افغانستان میں امریکیوں کے بعد بھارتی شہری بڑی تعدا دمیں نظر آتے ہیں۔ افغانستان کی سڑکوں پر بھارت کی سینکڑوں بسیں چلتی ہیں۔ ہسپتال میں بھارتی ڈاکٹر اور نرسیں ہیں۔ بڑے بڑے ہسپتال بھارت کے بنائے ہوئے ہیں۔ افغان پارلیمنٹ کی عمارت بھارت نے تعمیر کر کے دی ہے۔ افغانستان کی بڑی بڑی شاہراہیں بھارت کی بنائی ہوئی ہیں۔ اس میں نہ افغانیوں کا قصور ہے نہ بھارت کا قصور ہے۔ بات یہ ہے کہ ہر کوئی اپنا مفاد دیکھتا ہے۔ بھارت کو اپنا مفاد عزیز ہے۔ امریکہ کو اس کا مفاد عزیز ہے۔ اپنے مفادات کے لئے کام کرناڈپلومیسی یا سفارت کاری کہلاتا ہے۔ ہمارے دشمنوں نے افغانستان میں اپنے مفادات کو تحفظ دیا۔ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت اس میں ناکام رہی۔ جنرل ضیاء الحق کی تمام پالیسیاں ناکام ہوئیں۔ ان کا وژن یہ تھا کہ کسی نہ کسی طرح وہ 15سال یا 20سال حکومت میں رہیں۔ اگر فضائی حادثے کا شکار نہ ہوتے تو شاید 20سال حکومت کرتے۔ ان کے بعد 8حکومتیں آئیں۔ ہر حکومت کے سامنے ذاتی مفادات تھے۔ ملکی اور قومی مفاد کسی کے سامنے نہیں تھا۔ ہرات کا موجودہ ڈیم آج سے 7سال پہلے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کا دیا ہوا وژن تھا۔ یہ ان کا منصوبہ تھا۔ اس منصوبے کے علاوہ چار ڈیم اور بھی ہیں۔ دو ڈیم دریائے چترال پر ہیں۔ ان ڈیموں کی فیزیبلٹی بھی ہو چکی ہے۔ بھارت کی ہر آنے والی حکومت نے جانے والی حکومت کے منصوبوں کو جاری رکھا ہے۔ اور امریکہ کے ساتھ بھارت کی یہ کمٹمنٹ ہے کہ وہ افغانستان میں اپنے مفادات کے ساتھ امریکی مفادات کا بھی تحفظ کرے گا۔ پاکستان کو سائڈ لائن کرنا، مطعون اور معتوب ٹھرانا دونوں کا مشترکہ ایجنڈا ہے۔ پاکستان کے خلاف دونوں متفق اور متحد ہیں۔ پاکستان کا مفاد کیا تھا؟ یہاں ماضی کا صیغہ ہی آسکتا ہے۔ کیونکہ پاکستان کا مفاد ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔ اگر پاکستان نور محمد ترکئی، حفیظ اللہ امین اور ڈاکٹر نجیب اللہ کا ساتھ دیتا تو آج افغانستان کے اندر پاکستان کے چاہنے والوں کی حکومت ہوتی۔ حزب اختلاف میں بھی پاکستان کے ساتھ محبت کرنے لوگ ہوتے۔ پاکستان نے برہان الدین ربانی، گلبدین حکمتیار، مولوی صبغت اللہ مجددی اور احمد شاہ گیلانی وغیرہ کا ساتھ دے کر سٹریٹیجک غلطی کی۔ اس غلطی کے نتیجے میں آج افغانستان میں نہ حزب اقتدار پاکستان کا حامی ہے نہ حزب اختلاف پاکستان کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہے۔ امریکی منصوبہ سازوں نے رونالڈ ریگن کی سربراہی میں افغان جنگ کا ڈیزائن ہی ایسا تیار کیا تھا جس میں امریکہ اور بھارت کو فوائد ملنے تھے۔ پاکستان کے حصے میں دہشت گردی، بدنامی، قرضداری اور دیگر مصائب کو آنا تھا۔ ہرات ڈیم کے بعد دو چار اور ڈیم بن گئے تو بھارت کے قدم افغانستان میں مزید مضبوط اور مستحکم ہو جائیں گے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔