ضلع چترال اور تجاوزات

بزم فاران: محمد نایاب فارانی

میرےاس کالم کا مقصد کسی کے خلاف کوئی شکایت کرنا نہیں اور نہ ہی اس کالم سے مجھے یہ مقصود ہے کہ ہمارے “ڈپٹی کمشنر” صاحب جوکہ تجاوزات کے خلاف مہم جوئی میں ایک الگ پہچان رکھتے ہیں اس کالم کو بنیاد بنا کر کسی “بچارے” کو قانون کے حوالے کریں۔ اس سے  پہلے میرےجتنے بھی کالم چترال ایکسپریس یا دوسرے ان لائن اخباروں کے زینت بنے ہیں اس میں ، میں نے ہمیشہ ٹیکنالوجی کے عنوان پر قلم درازی کرنے کی کوشش کی ہے ، لیکن آج کا یہ عنوان صرف اور صرف ایک اچھے شہری کی ذمہ داری جو ہوتی ہے اس کو مدنظر رکھ کر قارئین اور ارباب اختیار کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں ۔

“تجاوزات” جسے کسی بھی شخص یا ادارے کے املاک میں غیر قانونی عمل دخل کو کہتے ہیں یا اس کا کچھ اور ہی مطلب ہے اس کا تو ہمیں وہی افراد بتا سکتے ہیں جن کا یا تو تجاوزات کے خلاف مہم میں دکان کا اگلا پورشن “شہید” ہوا ہو یا ان کو گھر کے چاردیواری سے “ہاتھ دھونا” پڑا ہو، یا ان کو اپنے پیارے گھر کے سامنے سایہ دار چناریا سفیدے کے درخت کو آرا مشین کے “نظر ” کرنی پڑی ہو۔  تجاوزات کے لفظی اور لغوی معنی سے ہٹ کر اگر ہم دیکھیں تو کچھ سوالات ہمارے ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں۔

  • کیا عوامی/سرکاری زمین پر دکان بنانا ہی “تجاوزات” ہے؟ یا کچھ اور بھی
  • کیا عوامی/ سرکاری زمین پر گھربنانا ہی”تجاوزات” ہے؟ یا کچھ اور بھی
  • کیا عوامی/ سرکاری زمین پردرخت لگانا ہی “تجاوزات”ہے؟ یا کچھ اور بھی

اس کے علاوہ اور بھی سوالات ہیں جو اکثر لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان سوالات کا جواب ظاہر ہے کوئی نہیں دے گا۔ کیونکہ ہمیں نہیں پتہ کہ “تجاوزات ” کیا ہیں اور کس طرح وقوع پذیر ہوتےہیں۔  تجاوزات  کے خلاف اس مہم میں جو متاثر ہو ئے (اور ان کو متاثر ہونا تھا) وہ ایک فرد یا خاندان ہوتا تھا ناکہ پوری عوام، لیکن ڈی سی صاحب یہاں پر کچھ ایسے تجاوزات بھی ہیں جس سے عوام کا زیادہ حصہ متاثر ہو رہاہے۔ اگر ارباب اختیار ان کو بھی اپنے زور قلم سے حل کریں گے تو رمضان کے اس بابرکت مہینے میں اجر کے ساتھ ساتھ اصلی تجاوزات کو بھی ختم کریں گے۔  یہ جن تجاوازت کی میں ذکر کرنے جا رہا ہوں یہ سب کے انکھوں کے سامنے ہورہے ہیں۔ اور ان کے چشم دید گواہوں میں ہمارے اسسٹنٹ کمشنر صاحبان اور ان کے دفتر کے عملہ، میونسپل کے اہلکاران، چترال اسکاوٹس کے جوان، سیاسی لیڈران، اساتذہ، طلباء اور عام عوام توہیں ہی، کچھ بعید نہیں کہ ڈی سی صاحب خود بھی کئی مرتبہ ان کے کو دیکھا ہو۔ اور چشم دید گواہ کے فہرست میں ان کا نام بھی ہو۔

جس روٹ پر میں سفر کرتا ہوں وہ ضلع چترال کے ایک بڑےعلاقے “اپر چترال” یا سب ڈویژن مستوج کو چترال ہیڈ کوارٹر  کے ساتھ ملانے والا واحد راستہ ہے ۔ ان کے صرف دس کلومیٹر کے تجاوزات کے احوال تمام ارباب اختیار و اقتدار اور قارئین کے نظر ہیں:

چترال ٹاون سے دس کلومیڑ کے فاصلے پر گاوں کاری واقع ہے اس کےگاوں کے شروغ ہوتے ہی ایک ٹرک بالکل سر راہ کئی مہینوں سے پارک کی گئی ہے۔کیا یہ تجاوزات میں شمار نہیں ہوتا؟
اسی پارک شدہ ٹرک کے ساتھ دو مہینے پہلے تک تو روڈ بالکل ٹھیک تھا، لیکن کسی کوکیا سوجھی کہ روڈ پر پانی چھوڑ دیا،حالانکہ وہاں پانی کی نکاسی کے لئے روڈ کے نیچے جگہ بھی موجود ہے۔ اب وہاں روڈ نہیں ایک ندی بن گیا ہے۔ کیا یہ تجاوزات میں شمار نہیں ہوتا؟

دنین کے مقام پر بالکل روڈ میں بلاک کی تیاری ہورہی ہے

تھوڑا آگے بڑھتے نیچے چترال کی طرف سفر کرتے ہیں اور دنین کے مقام پر پہنچتے ہیں وہاں شروغ ہوتے ہی ایک بندہ سرراہ اینٹوں کاکاروبارکررہا ہےاس کے لئے ریت اور بجری “سرکار” کی روڈ پر جمع کیا ہوا ہے۔ کیا یہ تجاوزات میں شمار نہیں ہوتا؟
تھوڑا اور آگے بڑھتے ہیں وہاں “کسی “کے بلڈنگ کے لئے سریے کا کام کیا جارہاہے ۔ کیا یہ تجاوزات میں شمار نہیں ہوتا؟
مزید آگے دو تین اور مقامات پر بھی ریت اور بجری کے اسٹال ہیں ۔ کیا یہ تجاوزات میں شمار نہیں ہوتے؟
مزید آگے ڈسٹرکٹ جیل کے بالکل سامنے ایک طرف تو روڈ دریا برد ہوگیا ہے دوسری طرف پانی کے نکاسی کا انتظام نہیں ہے۔ اسی میں بھی ادھر ایک تندور والا بالکل روڈ میں لکٹریوں کا اسٹال بنایا ہوا ہے۔ کیا یہ تجاوزات میں شمار نہیں ہوتا؟

اس سے آگے نہیں بڑھتے کیونکہ یہاں سے آگے تو سب کو پتہ ہے۔ کہ کیا کیا تجاوزات ہیں اور ان کے خلاف کیا کیا ہوا۔ مثال کے طور پر چترال بازار میں جن دکانداروں نے تجاوزات کی تھیں ان کو متنبہ کیا گیا کہ وہ  تجاوزات ہٹائیں ورنہ انتظامیہ خود “ایکشن” لے گا اور انتظامیہ نے “دبنگ ایکشن” لیا اور گولدور چوک میں ایکسکیوٹیڑ مشین نے گھوم گھوم کر تجاوزات کے پرخچے اڑا دئیے، جوکہ تجاوزات والوں کے لئے نشان عبرت بن گئے ۔ ان دکان داروں اور مالکان کے ساتھ بڑی چپقلش اور گفت وشنید کے بعد جو طے ہوا اس کے رو سے سب نے فٹ پاتھ کے لئے جگہ دینے میں ہی عافیت سمجھی اور انہوں نے جو فٹ پاتھ کے لئے جگہ چھوڑی وہ اس تصویر میں نمایاں ہےاور انتظامیہ کے اس “ایکشن” پر ایک سوالیہ نشان بھی۔

DSC00981

  ان کے علاوہ سب کے نظروں کے سامنے عوامی اور سرکاری مقامات پر کہیں گاڑیوں کو دھویا جارہا ہے تو کہیں کہیں گاڑیاں مستقل طور پر پارک کی جاتی ہیں ، کہیں ریت اور بجری کے اسٹال لگائے جاتے ہیں تو کہیں روڈ کو بطور نہر استعمال کیا جاتا ہے۔ کیا سب تجاوزات نہیں ہیں؟ کیا ان کے لئے کوئی قانون نہیں ہے؟  ایک طرف قدرتی آفات سے چترال کے طول عرض میں تباہی مچی ہوئی ہے تو دوسری طرف ہماری غفلت سے اور بھی تباہ کاریاں وقوع پذیر ہورہے ہیں۔ ان تجاوزات میں کبھی کبھی انتظامیہ کے لوگ بھی اپناحصہ ڈال لیتے ہیں۔

راغ کے مقام پر گاڑیوں کا دھونا روزانہ کا معمول ہے
راغ کے مقام پر گاڑیوں کا دھونا روزانہ کا معمول ہے

گذشتہ دنوں میں ڈپٹی کمشنر صاحب نے جس جوانمردی اور انہماک سے چترال کے طول وعرض میں تجاوزات کے خلاف “اپریشن” کیا میں ذاتی طور پر اس کی تائید کرتا ہوں اور اس سے بہت متاثر ہوا، کیونکہ جتنے عرصے سے چترال شہر کے اندر یہ تجاوزات تھے کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ لوگ سرکاری املاک پرقبضہ کرکے بیٹھے ہیں۔ اور یہ املاک سرکاری ہی نہیں بلکہ عوام کی بھی تھی اور عوام کو ڈی سی صاحب کا مشکور ہونا چاہئیے کہ کم از کم اس نے ان کے لئے اقدامات کئے۔

یہاں پرایک سوال جنم لیتا ہے کہ جہاں بھی کوئی غیر قانونی کام ہورہا ہو تو کیا اس کی روک تھام  پولیس یا انتظامیہ کی ہی ذمہ داری ہے؟ اگر ہے تو اس رٹ کے عملداری کیسے ممکن ہے؟ عوام اگر اس کام کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں تو معاشرتی مسائل جنم لیتے ہیں اگر قانون تک بات پہنچاتے ہیں تو وہاں پر کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ انتظامیہ اور ڈسی صاحب تو اپنے آفس میں ہوتے ہیں ان کو کیا پتہ کہ کہاں کیا ہورہاہے۔ کوئی دوبارہ کس قسم کا حد سے “تجاوز” کر رہا ہے۔ اگر بالفرض ان کو بتا بھی دیا گیا تو ان کے “دفتری امور” ہی اتنے ہیں کہ ان کو پوراسال “تجاوزات” کے خلاف ایکشن پر صرف نہیں کرسکتے۔ یہی تجاوزات سے کسی بہت بڑے حادثہ کا سبب نہ اسی لئے ہم سب کو ان کے نفی میں بولنا لازمی ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔