نعمت عظمیٰ کی تحقیر

………تحریر : اقبال حیات ؔ آف بر غذی……

حال ہی میں چترال میں قتل ہونے والے نوجوان کی ضعیف العمر والدہ اپنے لخت جگر کو آخری بار خدا حافظ کہنے کے لئے اس کے سر سے کفن ہٹا کر کہتی ہیں کہ ائے میرے جگر کے ٹکڑے تو نے زندگی میں مجھے کہیں کا نہ چھوڑا تھا ۔ میری زندگی اجیرن کی تھی ۔ تمہارے ہاتھوں میرے بدن پر کئی چوٹیں آئی تھیں ۔ بھول کر بھی میرے لئے پیاری ماں کے الفاظ تمہاری زبان سے نہیں نکلے تھے ۔ ان سب دلی کر ورتوں کو آج میں اپنے رب کریم اور یہاں پر موجود افراد کو گواہ بنا کر دل کی گہرائیوں سے آپ کو معاف کر تی ہوں ۔ اللہ رب العزت اس مشکل سفر میں تجھے اپنی رحمتوں سے نوازے ۔ ان چند جملوں پر محیط حالات کے تناظر میں دل کی دنیا کی کیفیت بدلنے والے لفظ ماں نام سے مو سوم پیار و محبت کی دیوی اور اللہ رب العزت کی نعمت عظمی سے آج ہمارے معاشرے میں جس قدر ناقدری ہورہی ہے ۔ اسکی مثال نہیں ملتی ۔ اسے ناخلف فرزند کے ہاتھوں بیہمانہ طور پر ذبح ہونے کے اندوھناک واقع کو فلک نے اپنی انکھوں سے دیکھا اور نہ جانے محبت کو خوشبو سے معطر خون کو خود میں جذب کرتے وقت زمین کس قسم کی کیفیت سے دوچار ہوئی ہوگی ۔ میرے عظیم پیغمبر ﷺ نے جس کے قدموں کے نیچے جنت کی یقین دہائی کی ہے ۔ اور جس کے چہرے کی طرف پیار اور طمانیت سے دیکھنے کو حج مبرور کے ثواب کے حصول کی نوید سنائی ہے ۔ خود کائنات کے اس عظیم انسان کے فتح مکہ کے بعد طویل عرصے کی جدائی کے بعد اپنی والدہ محترمہ کی مر قد پر حاضری کے دوران موتیوں کی صورت میں مبارک آنکھوں سے نکلنے والے آنسوؤں کے ساتھ یہ آرزو کرنا کہ کاش آج میری ماں زندہ ہوتیں اور مجھے نماز کے دوران یا محمد ﷺ کہکر پکار تیں تو میں نماز توڑ کر لبیک یا امی کہکر حاضر ہوتی ۔ اور یوں موسیٰ ؑ کی والدہ کے انتقال کے بعد کوہ طور پر ملاقات کے لئے جاتے ہوہئے غیب سے یہ ندا آیا کہ آئے پیغمبر قدم سنبھل کے رکھنا ۔ تیری خیریت و عافیت کے لئے ملتجی ہونے والی زبان خاموش ہوگئی ہے ۔ ماں کی بڑھائی پر دلالت کے لئے کافی نہیں ۔ اور وہ ہستی جو رخ ذیبائے مصطفی ﷺ کی غائبانہ عشق میں تڑپنے والے اویس قرنی کو اپنی خدمت کی وجہ سے وصال کا موقع نہ ملنے کے باوجود مستجاب الدعا کے شرف سے ہمکنار کیا ۔ آج نو مہینے اپنی پیٹ میں لئے پھیرنے ، زندگی کی بے بسی کے ابتدائی ایام کے دوران پرورش پر اپنی نیندیں اور سکون غارت کرنے اور نظروں سے اوجھل ہوتے ہی خیرو عافیت کے لئے بار گاہ ایزدی میں ہاتھ پھیلانے ، بیماری پر اپنی عمر اس کے حوالے کرنے کے لئے تڑپنے والی ذات بیویوں پر قربان ہونے والی اولاد کے ہاتھوں کسم پر سی کی حالات سے دوچار ہے ۔ نا ہنجار فرزندوں کے چہروں کے رخ بدل گئے ہیں ۔ رب کائنات کی یہ عظیم نعمت بار گیران سمجھے جانے کی کیفیت سے دوچار ہے ۔ گھروں کے اندر اس ہستی سے ایسے سلوک کے واقعات بھی سننے کو ملتے ہیں ۔کہ جنہیں عرش کو ہلادینے والی حالت سے منسوب کیا جاسکتا ہے۔
ہمارے مثالی معاشرے کے اندر وقت کے کروٹ لینے کے ساتھ ساتھ آئے دن پیش آنے والے اس قسم کے واقعات کے اسباب ہمارے لئے سوالیہ نشان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور ہمیں دعوت فکر دے رہے ہیں ۔ کہ آخر بحیثیت مسلمان ہمارا خون اتنا سفید اور ہم درندوں کے مزاج کے حامل کیوں ہورہے ہیں۔ ہدایت یقینی طور پر اللہ پاک کے ہاتھ میں ہے مگر طلب کے لئے درخواست اور کاوش کرنا ہمارے ذمے ہے ۔ اللہ رب العزت ہمیں اس قسم کی نا قابل معافی جرائم سے محفوظ رکھے ۔اور ہمیں اس احساس سے نوازے کہ
شیرین نانیئی مہ خوش نا نیئی تہ کوشکوتے غیری آسوم
محبتو ووریہ ٹیپ کیہ کوشکہ کی بوردی آسوم

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔