صدا بصحرا …..دل والا شہزادہ ۔ ضیاء الملک مرحوم

ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ ……….14جون  2016کی رات 10بجے حرکت قلب بند ہونے سے وفات پانے ولا شہزادہ ضیاء الملک دل
والا شہزادہ تھاوہ سینے میں ایسا دل رکھتا تھاجو خالق کے عشق میں مست اور مخلوق کی ہمدردی سے سرشار تھااس لئے نیک نامی اور پارسائی کا تمغہ لیکر دارفانی سے جہان جاودانی کی طرف کوچ کر گیا۔ ’’انشا جی اٹھو ا ب کوچ کرو اس شہر میں جی کا لگانا کیا‘‘15جون کو نماز عصر سے پہلے ہزاروں چاہنے والوں نے دروش کے بڑے پولوگراونڈ میں ان کی نماز جنازہ اداکی اور قلعہ دروش کی مغربی سمت میں پائین باغ سے متصل شاہی قبرستان میں انہیں سپرد خاک کیا گیا۔
آسمان تیری لحد پہ شبنم ا فشانی کرے
سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
شہزادہ ضیاء الملک کا تعلق سابق ریاست چترال کے حکمران خاندان کٹوریہ میں ہزہائی نس شجاع الملک متوفی 1936کے تیسرے فرزند شہزادہ حسام الملک متوفی 1977 کے خانوادے سے تھا۔آپ کے دادا افغان سرحد سے ملحق پرگنہ دروش کے گورنر تھے۔قلعہ دروش ان کا گھر تھا۔آپ کے والد شہزادہ صمصام الملک متوفی 2012پاکستان کی سول افسیر کے افسیر تھے ۔پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے شہزادہ ضیاء الملک نے 1962میں قلعہ دروش میں آنکھ کھولی ۔کانو نٹ سکو ل کوہاٹ ،پبلک سکول سنگوٹہ سوات اور اسلامیہ کالج پشاور سے تعلیم حاصل کی پشاور یونیورسٹی سے قانون کا اعلیٰ امتحان پاس کیا کاروبار کے ساتھ جائیداد کے معاملات کی نگرانی میں باپ کا ہاتھ بٹایا اور اللہ سے دل لگایایہ انکی زندگی کا خلاصہ ہے اس کو پھیلا یئے تو 54سالوں پر محیط نشیب و فراز پر ایک لمبی کہانی ہے اس پر ناول بھی لکھا جاسکتا ہے فلم بھی بنائی جاسکتی ہے کہانی کو سمیٹئے تو دو گام کا سفر ہے ایک قدم نفس امارہ کے اوپررکھا دوسرا قدم بہشت میں رکھوایا گیا۔قرآن پاک پارہ 30سورہ عبس آیت 40 اور آیت 41میں ارشاد باری تعالی ہے ’’اورجس شخص نے اپنے رب کے سامنے پیشی سے ڈر کر اپنے نفس کو خوا ہشات سے روکا تو بے شک جنت میں اس کا ٹھکانا ہوگا۔حدیث شریف میں آیا ہے ایک قدم نفس پر رکھو دوسر ا قدم جنت میں رکھو گے ۔رحمان بابا نے اس مضمون کو آسان لفظوں میں یوں بیان کیا ہے
پہ یو قدم تر عرشہ پوری رسی
مالید لے دے رفتار دَ درویشانو
ترجمہ:لوگو ! میں نے درویشوں کی اُڑان دیکھی ہے وہ ایک گام پر عرش کو جالیتے ہیں ۔
شہزادہ ضیا ء الملک کی کہانی مغلیہ خاندا ن کے شہزادے کی کہانی سے زیادہ ایک مرد درویش کی کہانی ہے انکی جائیدا د کا مقدمہ 28سالوں تک چلتا رہاسپریم کورٹ نے انکے حق میں فیصلہ دیا قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حکم کی تعمیل کی جائیداد ہاتھ آگئی ۔تو مدعیوں کو بلایا گرو میل گاؤں کے بیسیو ں گھرانے تھے ان سے کہا کہ یہ ساری زمین میں تمہیں ہبہ کرتا ہوں مجھ سے سند لے لویہ نفس کے خلاف مشکل فیصلہ تھا مقدمہ بازی میں تلخیاں آتی ہیں نفس چاہتا ہے کہ مخالف فریق کو سڑکوں پر گھسیٹو۔مگر دل والا جو ہوتا ہے وہ نفس پر قابو پاتا ہے اور دل کے دروازے واکر کے مخالف کو گلے لگا لیتا ہے استا د ذوق نے کیا بات کہی ۔
بڑے موذی کو مارا نفس امّارہ کو اگر مارا
نہنگ و ا ژدہا و شیر نر مار ا تو کیا مارا
ان کا
جنازہ اٹھا تو گرومیل کے لوگ دھاڑیں ما ر کر رو رہے تھے ان کا خانو ادہ ہی ایسا ہے ان کے دادا شہزادہ حسام الملک نے جاگیر داری ذہنیت کو خیر باد کہہ کر ادب و ثقافت اور شعرو شاعری ،نثر نگاری ،تصنیف و تالیف کا راستہ اختیار کیا ان کے والد گرامی شہزادہ صمصام الملک بیوروکریٹ تھے ایک روایتی بیوروکریٹ کی تما م خصوصیت ان میں موجود تھیں سینئرمنیجمنٹ کورس پر سول سروس اکیڈمی والٹن لاہور گئے وہاں عبداللہ کے مرشد شاہ صاحب سے ان کی ملاقات ہوئی شاہ صاحب کی صحبت میں انہوں نے اولیا ئے کرام کی دریوزہ گری اور دربار رسالت کی خوشنہ چینی کا شرف حاصل کیا اپنے گھر کوذکر واذکا ر اور تلاوت کلام پاک کے نور سے منور کیا۔پشاور اور اسلام آباد کے بڑے دفتروں کا انتظام ہاتھ میں لینے والے سینئر بیوروکریٹ حج بیت اللہ اور عمرہ کی سعادتیں ہرسال حاصل کرتے رہے ۔ریٹائر منٹ کے بعد سیرت نبوی
ﷺ پر عشق رسول میں ڈوبے ہوئے قلم سے یادگا ر کتاب تصنیف کی اُن کے چچاڈاکٹر سرادارالملک بڑے عہدوں پر رہے مگر ہر عہدے کو خدمت خلق کا ذریعہ بنایا شہزادہ ضیاء الملک نے اپنے نامور اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نام ونمود کی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرکے مولانا تاج الدین اور دیگر علماء کی صحبت سے فیض حاصل کیا مولانا محمد الیاس ؒ کی جماعت دعوت و تبلیغ میں وقت لگایا۔اپنی جائیداد سے 34کنا ل زمین تبلیغی مرکز کے لئے وقف کیا7کنا ل زمین مدرستہ البنات کو دیدیا اور 10کنا ل زمین غرباء کے قبرستان کے لئے وقف کیا یہ صرف دل والوں کا م ہے دماغ لڑانے اور حساب کرنے والوں کو ایسے کاموں میں کرنسی نظر آتی ہے بنک کا خیا ل آتا ہے اور قدم ڈگمگاجاتے ہیں علامہ اقبال کی ایک فارسی نظم کا عنوان ’’تنہائی ‘‘ہے نظم میں محاکات کا پیرا یہ ہے کا ئنا ت کی سیر ہے ایک بند میں شاعر پہاڑ سے مخاطب ہوتا ہے بند کا ترجمہ یہ ہے’’ میں پہاڑ کے قریب گیا میں نے پوچھا تمھارے سینے میں جواہرات ہیں لوء لوء اور مرجان کی دولت ہے کیا تیرے سینے میں میری طرح دل کا گوہر بھی ہے؟ پہاڑ نے اپنے آپ کو سمیٹ لیا لمبی سانس لی اور لاجواب ہو ا‘‘ ۔اگر دل ہوتا تو پہاڑ بھی اللہ کی دی ہوئی دولت کو تقسیم کرنے والا ہوتا مگرپتھر کے سینے میں دل کہا ں! چند سالوں سے انہیں اختلاج قلب کی بیماری تھی زیر علاج بھی تھے 13جو ن کی رات نماز تراویح کے دوران دل کا دورہ پڑا تو انہیں ہسپتال پہنچایا گیا 24گھنٹے بعد اجل کا پیغام آیا اور اپنی جان انہوں نے جان آفرین کے سپرد کردی بقول میر
اُلٹی ہوگیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کی
دیکھا ! اس بیمارئے دل نے آخر کام تمام کیا
مگر وہ لوگ مرا نہیں کرتے جو دنیا میں آخرت کی فکر کرتے ہیں صدقہ جا ریہ چھوڑ جاتے ہیں اور بارگاہ خداوندی میں قبولیت کا مقام حا صل کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے دلوں میں بھی زندہ جاوید ہوجاتے ہیں شہزادہ ضیا ء الملک ایسے ہی لو گوں میں سے تھے۔
ہر گز نہ میردآں کہ دلش زندہ شدہ بعشق
ثبت است بر جریدہ عالم دوامِ ما

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔