مجھے اور زندگی دے کہ ہے داستان ادھوری

……..۔۔۔ تحریر اقرارالدین خسرو۔

رب دو جہاں کا ارشاد ہے کہ۔ ً جس نے ایک شخص کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی۔ یہ ہم سب کو پتہ ہے کہ جان بچانا اور جان لینا ۔ زندگی اور موت یہ سب اللہ تعالی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ مگر دنیا کی زگی میں اللہ تعالی نے انساں کیلیے آسانیوں کی خاطر ایسے اسباب پیدا فرماے ہیں جن کے استعمال سے انساں مصائب وآلام سے بچ سکتا ہے۔ اور سکون کی زندگی جی سکتا ہے۔ بیماریاں بھی اللہ تعالی نے پیدا فرمائی ہے۔ ان کے علاج اور روک تھام کیلیے بھی خالق دوجہاں نے اسباب مقرر فرمائے ہیں۔ اور بیماریوں میں کچھ بیماریاں ایسی ہیں جن کا علاج ممکن ہے مگر بہت زیادہ مہنگا ہونے کیوجہ سے غریب کی پہنچ سے دور ہیں۔ زیر نظر تصاویر بونی چترال کے پندرہ سالہ نوجوان عامر سہیل ولد امیر نواز کی ہیں۔ جس کے دونوں گردے فیل ہونے کیوجہ وہ بستر مرگ پہ پڑے خدمت خلق کے جذبے سرشار مخیر حضرات کی طرغ زندگی کی آخری آس لگائے بیٹھا ہے اور اس کی لبوں پہ یہی التجا ہے کہ مجھے اور زندگی دے کہ ہے داستان ادھوری۔ میری موت سے نہ ہوگی مرے غم کی ترجمانی۔ عامر سہبل کے والد ایک غریب آدمی ہیں وہ کراچی سے لیکر پشاور تک مختلف ہسپتالوں میں اپنے تمام وسایل بروے کار لا چکا ہے۔ اب پشاور میں ہر دوسرے روز گردرں کی ڈایلاسس ہوتی ہے بچے کا والد ہمت ہارنے کے قریب ہیں مگر پھر بھی وہ اپنی تمام تر خوشیاں بیچ کے بچے کی ہونٹوں پہ مسکراہٹ دیکھنا چاہتا ہے۔ جس کیلے گردے کی ٹرانپلانٹیشن امید کی آخری کرن ہے۔ جس کیلیے خرچہ پورا کرنا بچے کے والد کیلیے تقریبا ناممکن ہے۔ اسلیے تمام مخیر حضرات سے اپیل ہے کہ پلیز اس ننھے پھول کو مرجھانے سے بچائے۔ اس کے ابھی پھولوں اور تتلیوں سے کھیلنے کے دن ہیں۔ وہ مرنا نہیں چاہتا وہ زندگی کو اب اور قریب سے دیکھنا چاہتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ دنیا میں اس وقت صاحب استطاعت اچھے لوگوں کی کمی نہیں آگر یہ یوسٹ دیکھ کے کوئی درد دل والا انسان اس بچے کے سر پہ دست شفقت پھیرنا چاہے تو ان نمبروں پہ رابطہ کرسکتا ہے۔ 03409850360 03078853029 مجھے یقین کہ درد دل والے حضرات آگے آکر دل کھول کر اس بچے کو نئی زندگی دلوانے میں اپنا کردار ادا کرینگے کیونکہ ہے کشادہ ازل سے روئے زمین۔۔ کعبہ و در بے فصیل نہیں۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔