دادبید اد …….بات کا بتنگڑ

……………ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی…………

فیض احمد فیض نے کہا تھا وہ با ت تھا
وہ بات سارے فسانے میں جس کا نہ تھا ذکر
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
معمولی سی بات کو اچھا ل کر بہت بڑا مسئلہ بنایا جائے تو کہتے ہیں بات کا بتنگڑ نہ بناؤ معمولی سی بات تھی خیبر پختونخوا حکومت نے اپنے تعلیمی بجٹ میں دار لعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے لئے 30کروڑ روپے مختص کئے مطالبات ذر کی منظوری دی گئی 30کروڑ کی رقم کا حقیر سا ہد یہ یا تحفہ ملک کی ممتاز دینی شخصیت سابق سینیٹرمولانا سمیع الحق مذطلہ العالی کی جھولی میں ڈال دیا گیا کھیل ختم پیسہ ہضم اتنی سی بات کو میڈیا میں لایا جا رہا ہے اس پر طرح طرح کے اعتراضات ہورہے ہیں حکومت نے اپنی صفائی پیش کی حکومت کی صفائی میں پہاڑ جیسا وزن ہے حکومت کہتی ہے مولانا سمیع الحق نے پولیو مہم کو کامیاب یا ناکام بنانے میں حکومت کا ساتھ دیا اس لئے انکی خدمت میں 30کروڑ روپے کا منصوبہ پیش کیا گیا یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے مخالفین کہتے ہیں پولیو مہم کے لئے مولانا سمیع الحق کے ساتھ 2008میں عالمی ادارہ یو نیسکو نے ڈیل کیا تھا اس ڈیل کی مدت 2009 میں ختم ہوئی مخالفین کی یاداشت بہت کمزور ہے خیبر پختونخوا میں موجود حکومت کے دور میں پولیو مہم کی دو دو ٹیمیں بیک وقت دورہ کرتی تھیں ایک ٹیم میں پولیو کے قطرے پلانے والے خواتین ،محکمہ صحت کے ملازمین اور مقامی رضاکار ہوتے تھے دوسری ٹیم حملہ آور بن کر ان کا پیچھا کرتی تھی موقع ملتے ہی خاتون ورکر یا رضاکار یا دونوں پر فائرنگ کر کے پولیو ورکروں کو موت کے گھاٹ اُتارتی تھی یہ بات ہنوز تحقیق طلب ہے کہ دارلعلوم حقانیہ نے کونسی ٹیم بھیجی تھی اور مولانا سمیع الحق نے کس ٹیم کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا تھا مخالفین کو تحقیق کے بعد اعتراض کرنا چا ہئے تاکہ اعتراض میں وزن ہو اور اعتراض کو سنجیدہ لیا جا سکے دلچسپ بات یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے پاکستان پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ (ن) اور عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں مولانا سمیع الحق نے اعتراض کرنے والوں کو ایسا جواب دیا ہے کہ وہ عمر بھر یا د رکھینگے بلکہ عمر بھر کے لئے دوبارہ سر نہیں اُٹھا سکینگے مولانا سمیع الحق نے یا د دلایا ہے کہ اے این پی نے اپنے دور حکومت میں کئی مدرسوں کو گرانٹ دی تھی پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وزیر اعظم یو سف رضا گیلانی کو جب پتہ لگا کہ ان کے بیٹے حیدر گیلانی کو اغوا کر کے پہلے نو شہرہ لا یا گیا افغانستان منتقل کیا گیا تو موصوف خود چل کر دارالعلوم حقانیہ آئے اور بیٹے کی باز یابی کے لئے طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر نے کی استدعا کی انہوں نے یہ بھی یاد دلا یا ہے کہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک ملک کا ممتاز ادارہ ہے امریکہ اس کو جہاد کی نرسری ، طالبان کا مضبوط گڑھ اور حقانی گروپ کا ہیڈ کواٹر سمجھتا ہے0 3 کروڑ روپے کے فنڈ پر اعتراض کر نے والے امر یکہ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں جس سے ان کی اصلیت واضح ہوجاتی ہے میں نے اخبارات کو بار بار ٹٹولا ٹی وی چینلوں کوکھنگالا مجھے 30 کروڑ روپے کی حقیقت کہیں بھی نظر نہیں آئی میں نے غالب کی زبان میں اپنے آپ سے کہا ’’خاموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہیے ‘‘ اصل معاملہ مولانا سمیع الحق کا نہیں معاملہ مولانا فضل الرحمن مذطلہ العالی کا ہے 30 کروڑ روپے کی گرانٹ میں جب علی سے زیادہ بغض معاویہ کار فر ما ہے اصلیت یہ ہے کہ پی ٹی آئی مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت جمعیتہ العلمائے اسلام (ف) کے ساتھ بغض اور کینہ رکھتی ہے ایک اہم اصول پی ٹی آئی کو معلوم ہے کہ دشمن کا مخالف جہاں بھی ہوگا ، جس حال میں ہوگا وہ تمہارا دوست ہوگا اس لئے جمعیتہ العلمائے اسلام سے الگ ہو کر سمیع الحق گروپ بنانے والوں کو پی ٹی آئی کے قریب سمجھاجاتا ہے اور مولانا فضل الرحمن یا جمعیتہ العلمائے اسلام (ف) کو 30 کروڑ روپے کے ذریعے پیغام دیا جارہا ہے کہ ’’ چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں ‘‘ کہتے ہیں سردار جی اپنی دوست کو لیکر سیر کو نکلے گھو متے ہیں پھر تے شام ہوگئی تو ایک جگہ سردار جی کو مونگ پھلی راستے میں پڑی ہوئی ملی سردار جی نے مونگ پھلی کو اُٹھا کر اپنے دوست کی خدمت میں پیش کیا اور کہنے لگا ہمارے ساتھ گھو مو پھر و گے تو اس طرح مزے کرو گے گویا مولانا فضل الرحمن کو پیغام دیا جا رہا ہے کہ تم میاں نواز شریف کے کیمپ میں کیا کر رہے ہو دوستوں کو نواز نے والے تو ہم ہیں مولانا فضل الرحمن نے اب تک اس پر تبصرہ نہیں کیا انکو خوشی ہے کہ ان کی وجہ سے ایک مدرسے کو پی ٹی آئی سرکار کی سرپرستی حاصل ہوئی اور 30 کروڑ روپے کی گرانٹ سے فائد ہ اُٹھا نے والے جانتے ہیں کہ اس گرانٹ کاکریڈٹ مولانا سمیع الحق سے زیادہ مولانا فضل الرحمن کو جاتا ہے حکومت کی فیاضی میں عداوت کا دخل محبت سے بہر حال زیادہ ہے ہمارا مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ مولانا سمیع الحق کے مدر سے کے لئے 30 کروڑ روپے کی گرانٹ اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے بات کا بتنگڑ نہ بنایا جائے کہاں میخانے کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ پر اتنا جانتے ہیں کہ کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے اگر 30 کروڑ روپے کا منصوبہ ایک مدر سے کو پولیو مہم کی کا میابی کے لئے دی گئی ہے تو مہنگا سودا نہیں ہے خیبر پختونخوا کے طول و عرض میں 26 ہزار مدرسے قائم ہیں ان کا تعاؤن حاصل کیاجائے تو پولیو ٹیموں کی ضرورت نہیں رہتی پولیو مہم خود کا میاب ہوجائے گی مگر اس میں ایک قباحت ہے امیر المو منین حضرت امیر معاویہؓ کی خدمت میں ایک محتاج حاضر ہوا محتاج نے دست سوال دراز کیا ، جناب امیر نے ایک دینار یا درہم ان کو دیکر رخصت کر نا چا ہا مگر محتاج اڑگیا اس نے کہا مجھے میر احصہ دو ، میں تیرا بھائی ہوں جناب امیر نے پوچھا تم کس شجر ہ نسب میں میرا بھائی ہو؟ محتاج نے کہا ہم دونوں آدم علیہ اسلام کی اولاد ہیں جناب امیر نے کہا چپ رہو اور اس پر شکر کرو اگر تمہا رے دوسرے بھائی بھی اپنا حصہ مانگنے کے لئے آگئے تو تمہارے حصے میں اتنا بھی نہیں آئے گا کل کلان پو لیو مہم کے لئے مولانا فضل اللہ ، مولانا صوفی محمد ، ملابیت اللہ اور حاجی منگل باغ کا تعاؤن حاصل کر نے کی ضرورت پیش آئی تو ان کو حصہ بقد جثہ کے طور پرکتنی گرانٹ پر راضی کیا جائے گا ؟ اور کتنے مدرسوں کو اس طرح کے حقیر تحفے پیش کر کے پولیو مہم میں شامل کرنے کی گنجائش ہوگی ؟ اگر حکومت 30 کروڑ روپے کے فنڈ کا رشتہ پولیو کے ساتھ نہ جوڑتی تو اتنے مسائل پیدا نہ ہوتے جتنے سوالات اور مسائل پو لیو مہم کے حوالے سے پیدا ہوئے ہیں ا للہ کرے کہیں بین لاقوامی اداروں کو اس بات کی خبر نہ ہو کہ ہماری حکومت پولیو مہم کو کا میاب بنانے کے لئے کن کن مدرسوں کو کیسے کیسے گرانٹ دیتی ہے ؟ اور نتیجے کے طور پر ہر سال پو لیو کے کیسوں میں کتنا اضافہ ہو تا ہے ؟ بقول غالب
ہر قدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سے
میر ی رفتار سے بھا گے ہے بیاباں مجھ سے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔