داد بیداد….بے نظیر قیادت

…….ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی ؔ…….

پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے قوم کو نئی قیادت دی ہے ۔ جسے بے مثال اور بے نظیر قیادت بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ روایتی سیاست اور رسمی ہتھکنڈوں سے پاک اور صاف ستھری قیادت ہے ۔روایتی قیادت کیا کرتی ہے ؟ جب پارٹی کا قائد کسی ضلع یا ٹاؤن کے دورے پر آتاہے تو پارٹی کے کارکنوں کو اکھٹا کیا جاتا ہے۔ پارٹی کے چیدہ لیڈروں کے ساتھ الگ ملاقات رکھی جاتی ہے۔ یہ 300سے 500تک کا مجمع ہوتا ہے۔ کارکنوں کے ساتھ الگ ملاقات رکھی جاتی ہے ۔ یہ دو ہزار تک کا مجمع ہوتا ہے۔ عوام کے لئے جلسہ عام کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس میں 6ہزار سے 10ہزار تک ووٹر طبقہ جمع ہوتا ہے۔ اگر پارٹی کی حکومت ہو تو دو دنوں میں لیڈر کو ترقیاتی سکیموں کا دورہ کرایا جاتا ہے۔ بڑا شوشا اور طمطراق ہوتا ہے۔ لیڈر سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ کارکنوں کے نام اس کو یاد ہونگے۔ پرانے پارٹی لیڈروں کے ساتھ اس کی بے تکلفی ہوگی۔ نئے لیڈروں اور کارکنوں کے ساتھ وہ وضعداری سے ملے گا ۔ ان کے حالات پوچھے گا۔ اُن سے مشورے کرے گا ۔ روایتی لیڈر سے یہ بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ کارکنوں کے گھروں پر فاتحہ خوانی کے لئے جائے گا۔ کارنر میٹنگ کسی کارکن کے گھر پر رکھوائے گا۔ لوگوں کو وہاں بلا کر اپنے کارکن کی عزت افزائی کرے گا۔ لیڈر اگر روایتی سیاست کا قائل ہو تو اپنے کارکن کے ہاں دعوت پے جاتا ہے۔ اس طرح ایک کارکن کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ دوسرے کارکنوں کو امید ہوتی ہے کہ میرا محبوب قائد ایک دن میرے غریب خانے پر بھی قدم رنجہ فرمائینگے۔ قائد روایات کا پابند ہو تو کوہ کن کی طرح رسوم و قیود کا اسیر ہوتا ہے۔ بقول غالب:
تیشہ بغیر مرنہ سکا کوہ کن اسد سرگشتہء خمار رسوم وقیود تھا
پارٹی اگر حکومت میں ہو تو قائد کے نام پر شکایتیں اور درخواستیں لائی جاتی ہیں ان کیلئے بھی وقت نکالا جاتا ہے۔ قائد درخواستیں پڑھتا ہے ۔ درخواستی کو تسلی دیتا ہے ۔ وعدہ وعید کرتا ہے اور درخواستی کو امید دلاتا ہے کہ اس کے ساتھ نا انصافی نہیں ہو گی۔ الغرض روایتی لیڈر وہ تمام کام کرتا ہے۔ جو پارٹی کی مقامی قیادت چاہتی ہے۔ پارٹی کے مقامی کارکن چاہتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو روایتی قیادت کی ایک مثال تھے۔ ان کا وقت کارکنوں اور ووٹروں میں گزرتا تھا ۔ وہ سکیورٹی کی حصار کو توڑ کر کارکنوں کے پاس جاتے تھے۔ کارکن کیلئے گاڑی روک لیتے تھے ۔ مولانا فضل الرحمن اور شہباز شریف اس کی مثال ہیں ۔ سراج الحق اور آفتاب احمد خان شیر پاؤ کے ہاں روایتی قیادت کا نمونہ ملتا ہے۔ اسفندیار ولی خان اور امیر حیدر ہوتی بھی روایتی قیادت کے نمونے ہیں۔ روایتی طریقوں سے ہٹ کر پارٹی کی قیادت کرنا وژن کا تقاضا کرتا ہے۔ جس لیڈر کا کوئی وژن ہوتا ہے وہ روایتی طرز سیاست سے بغاوت کرکے اپنے کارکنوں کی تربیت نئے اسلوب اور نئے انداز سے کرتا ہے۔ وہ روایات کا پابند نہیں ہوتا۔ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ پارٹی کا مقامی کارکن کیا چاہتے ہیں۔ وہ یہ دیکھتا ہے کہ کارکنوں کو کس طرح سوچنا چاہئیے۔ لیڈر سے کس طرح کی توقعات رکھنی چاہئیے۔ اچھا لیڈر کارکن کی مرضی کا پابند نہیں ہوتا ۔ کارکن کو اپنی مرضی کا پابند کرتا ہے۔ مثالی لیڈر اپنے پرائیویٹ سیکریٹری یا ضلع کے ڈپٹی کمشنر کی طرف سے بنائے ہوئے شیڈو ل کا پابند نہیں ہوتا ۔ وہ شیڈول کو اپنی مرضی اور اپنے وژن کا پابند بنالیتا ہے۔ میں نے عمران خان کے چترال اور سوات کے دورے کوقریب سے دیکھا ہے۔ مجھے ان کی یہ ادا بہت پسند آئی کہ وہ دورے کا پروگرام یا شیڈول اپنے اوپر مسلط نہیں کرتا۔ پرائیویٹ سیکریٹری نے ضلع ڈپٹی کمشنر سے شیڈول بنوا لیا ہے یا خود شیڈول بناکر ڈپٹی کمشنر کو دیا ہے۔ پارٹی کی مقامی قیادت کو بھیجا ہے۔ اس میں چھٹی جماعت کے ٹائم ٹیبل کی طرح اوقات دئیے ہوئے ہیں۔ فلاں جگہ میٹنگ 12بجے ، فلا ں جگہ چیکوں کی تقسیم ڈیڑھ بجے۔ فلاں جگہ کارکنوں سے ملاقات 4بجے ، فلاں جگہ نمائشی میچ اور عوام سے خطاب 6 بجے ۔ روایتی لیڈر لکیر کا فقیر ہوتا ہے۔ گھڑی دیکھ کر پروگراموں کی پابندی کرتا ہے۔ مگر عمران خان جیسے وژن والے لیڈرکے لئے روایتی ٹائم ٹیبل اور شیڈول کی پابندی ضروری نہیں۔ جو لوگ چیک لینے کے لئے جمع ہوتے ہیں وہ 5 یا 6 گھنٹے انتظار بھی کرسکتے ہیں۔ جو لوگ نمائشی میچ کھیلنے آتے ہیں۔ وہ لیڈر کا انتظار کئے بغیر اپنا میچ کھیل سکتے ہیں۔ جو کارکن اپنے محبوب قائد سے ملنے کے لئے جمع ہوتے ہیں وہ کسی دوسرے وقت بھی اس طرح جمع ہو سکتے ہیں۔ قیادت کا وژن ہو تو قائد اپنے فیصلے خود کرتا ہے۔ وہ کاغذ کے ٹکڑے کا پابند نہیں ۔ لیڈر کب اٹھتا ہے کہاں جاتا ہے یہ بات کاغذ پر نہیں ہوتی۔ لیڈر کے دماغ میں ہوتی ہے۔ یادش بخیر یونیورسٹی کے دور کا پروفیسر تھا، گردیزی صاحب ۔ان کا لیکچر کسی موضوع کا پابند نہیں ہوتاتھا۔ وہ نوٹس لیکر کلاس میں نہیںآتے تھے۔ وہ کسی چیپٹر ، کسی ٹاپک کے اوپر لیکچر نہیں دیتے تھے۔ بلکہ مذہب سے سیاست تک ، تاریخ سے معاشیات تک اور سوشیالوجی سے جرنلزم اور ادب تک ہر موضو ع سے تھوڑا تھوڑا مواد اپنے لیکچر میں شامل کرتے تھے۔ ایک دن ڈاکٹر غلام محمد بنگش نے سوال کیا “سر ” آپ نوٹس لے کر کیوں نہیں آتے۔ ایک موضوع پر بات کیوں نہیں کر؂تے ؟ سوال تیکھا اور بہت سخت تھا۔ گردیزی صاحب نے سوال کا برا نہیں منایا۔انہوں نے بنگش کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہمار ا اللہ وسعتوں کا مالک ہے۔ اللہ پاک کی کائنات وسیع ہے۔ آسمان کا کوئی کنارہ نہیں ، سمندروں کی گہرائی کا کوئی اندازہ نہیں ، اللہ پاک کے علم کی کوئی حد نہیں ۔ اللہ پاک کی مخلوق کی کوئی حد نہیں۔ قرآن پاک کا کوئی موضوع نہیں ۔ پیغمبر اسلام ﷺ کی نبوت قیامت تک کیلئے ہے۔ آپ کائنات پر غور کریں ہوا کی کوئی حد نہیں ۔ روشنی کی کوئی حد نہیں تو پھر ایک اچھے استاد کا لیکچر پابندیوں کا محتاج کیوں ہو ؟ اچھا لیکچر وہ ہے جو وقت اور موضو ع کی قید سے آزاد ہو۔ اتنے میں ڈاکٹر محمد انور خان اپنے نوٹس لے کر آگئے۔ گردیزی صاحب کا لیکچر اس دن بھی ادھورا رہ گیا۔ کلاس روم سے نکلتے ہوئے ان کا آخری جملہ تھا ۔یہ آدمی لکیر کا فقیر ہے۔ رنگ میں بھنگ ڈالتا ہے۔ عمران خان کا وژن پروفیسر گردیزی کی طرح قید و بند سے آزاد ہے۔ پابندیوں میں جکڑا ہوا نہیں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ پارٹی کارکنوں سے ملاقات میں کیا ہوگا۔ شکایتیں ہونگی۔ مطالبے ہونگے۔ سیلاب آیا۔ سڑک ٹوٹ گئی۔ پل بہہ گیا۔ بجلی گھر تباہ ہوا۔ نہریں برباد ہوئیں۔ واٹر سپلائی سکیمیں تباہ وہوگئیں۔ زلزلے میں سکولوں کو نقصان پہنچا ۔ ہسپتالوں کو نقصان پہنچا ۔ لیڈر ایسی باتیں سننے کیلئے نہیں ہوتا۔ پارٹی لیڈر کا وژن ہوتا ہے۔ وہ پانامہ پیپرز کی بات کرتا ہے۔ وہ ٹرمز آف ریفرنس کی بات کرتا ہے۔ وہ یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی پر گفتگو کر تا ہے۔ وہ وزیر اعظم کے استعفےٰ کے بعد پیش آنے والی صورت حال پر غور کرتا ہے۔ وہ امپائر کی انگلی کا ذکر کرتا ہے۔ اس کا وژن یہ ہے کہ قومیں سڑک بنانے سے نہیں بنتیں۔ قومیں اچھے بجلی گھر بنانے سے نہیں ترقی کرتیں ۔ کامیاب واٹر سپلائی سکیم سے ترقی نہیں کرتیں ۔ قومیں وژن سے آگے بڑھتی ہیں۔ وژن والا لیڈر کسی کی پروا نہیں کرتا۔ وہ روایات کا پابند نہیں ہوتا ۔ شیڈول اور ٹائم ٹیبل کا پابند نہیں ہوتا۔ وہ اپنے وژن کے مطابق دورہ کرتا ہے۔ اگر پاکستان کے ہر لیڈر میں روایات کی بغاوت ، شیڈول سے صرف نظر اور رسم و رواج سے آزادی کی جرات پیدا ہوئی تو ہماری قوم ترقی کی راہ پرگامزن ہوجائیگی ۔ عمران خان نے اپنے کارکنوں کی تربیت کے لئے روایت سے ہٹ کر بے نظیر اور بے مثال قیادت فراہم کی ہے۔ کارکنوں کا یہ کام نہیں کہ وہ ٹائم ٹیبل کو دیکھ کر جمع ہوں اور بیٹھ کر اپنے قائد کا انتظار کریں۔
غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں روئیئے زار زار کیا ! کیجئے ہائے ہائے کیوں !

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔