صدا بصحرا ….عید کے بعد والے عزائم

…….ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ ……

عید کے بعد پا کستان پیپلز پارٹی اور پا کستان تحریک انصاف نے وفا قی حکو مت کے خلاف سڑکوں پر آنے کا عندیہ دیا ہے ۔خیبر پختو نخوا میں مسلم لیگ (ن)جمعیتہ العلما ئے اسلام اور پی ٹی آئی کے نا راض اراکین نے مل کر صوبائی حکو مت کے خلاف اسمبلی کے اندر تحریک عدم اعتماد دلانے پر غور شروع کر دیا ہے ۔اے این پی یقیناًاپو زیشن کا ساتھ دے گی ۔پی پی پی وفاق میں سڑکوں پر نکل آئی تو صوبے میں تحریک عدم اعتماد کا سا تھ نہیں دے سکے گی۔مجھے وفاقی حکومت کے خلاف تحریک پر الگ تحفظات ہیں ۔ایسی تحریک سے ما رشل لا ء کا راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔ایک بار جنرل ضیاء الحق نے کہا تھا کہ سیا ستدانوں کو سیاست کی اے بی سی نہیں آتی ۔اس کے جو اب میں خان عبدالولی خان نے تا ریخی جملہ کہا انہوں نے جواب دیا کہ سیا ست دان جب اے بی سی ڈی ای ایف تک پہنچ جا تے ہیں تو آگے جی ایچ کیو آجاتا ہے ۔خیبر پختو نخوا میں پا کستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو مہلت دیکر مسلم لیگ (ن)اور اتحادی جماعتوں نے کا میاب حکمت عملی اختیار کی تھی ۔مو لانا فضل الر حمن کا درست اندازہ یہ تھا کہ پی ٹی آئی کے پا س حکومت چلا نے کے لئے نہ وژن اور مشن ہے نہ تجربہ کا ر لوگ ہیں ،نہ تر قیا تی حکمت عملی ہے ۔نہ انقلابی منشور ہے ،نہ ہوم ورک ہے ۔5سال بعد ان کی حکو مت سے عوام ما یوس ہو گئے تو میدان صاف ہو جائے گا ۔اس کے بعد پی ٹی آئی کا باب ہی بند ہو جا ئے گا ۔چیپٹر کلوز ہو جا ئے گا ۔عمران خان کی جما عت کو صوبے میں حکو مت بنا نے کا مو قع دینا درا صل پی ٹی آئی کے خلاف گہری سا زش تھی ۔3سال بعد یہ سا زش کا میاب ہو تی ہو ئی نظر آرہی ہے ۔اگر 2016میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکو مت کو غیر مستحکم کیا گیا تو اس جماعت کو لہو لگا کر شہیدوں میں ملنے کا مو قع ہا تھ آئے گا ۔اگلے انتخابات کے لئے پی ٹی آئی کے پاس ایک کا رڈ ہو گا کہ ہما ری حکومت ختم کر دی گئی ورنہ ہم شہد اور دودھ کی نہریں جاری کر نے والے تھے ۔اصلا حات کے ایجنڈے پر عمل کر نے والے تھے۔بڑھتی ہو ئی کر پشن پر قابو پا نے والے تھے ۔اداروں کو مستحکم کر نے والے تھے ۔صحت ،تعلیم اور لو کل گو رنمنٹ میں تبدیلی نظر آنے والی تھی ۔ہمیں کا م کا مو قع نہیں دیا گیا ۔گزشتہ 3سالوں کے تجربے کو سا منے رکھ کر سینئر تجزیہ نگا ر وں کا کہنا ہے کہ اگلے دوسال بھی پی ٹی آئی کی حکومت عوامی مفاد کا کو ئی کام نہیں کر سکے گی ۔ہسپتال اور لو کل گو رنمنٹ کے ادارے بر باد ہو چکے ہیں۔ہا ئیر ایجو کیشن کے ادارے تباہ ہو چکے ہیں ۔اگر مزید دوسال اسی طرح گزرگئے ۔تو ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجو کیشن کے ادارے بھی بر بادی کی آخری حدوں کو چھو لیں گے ۔عوام کے مفاد کا کو ئی کام نہیں ہو گا ۔عوامی مسا ئل میں اضافہ ہو گا ۔صوبہ ترقی کے لحاظ سے 50 سال پیچھے چلا جا ئے گا ۔نظم ونسق میں ابتری اس کے علاہ ہو گی ۔2018 ء کے الیکشن میں عوام کے سامنے ووٹ ما نگنے کے لئے پی ٹی آئی کے پاس کو ئی ایجنڈا نہیں ہو گا ۔کو ئی دلیل نہیں ہو گی ۔کو ئی بہا نہ نہیں ہو گا ۔مو لانا فضل الرحمن ،سردار مہتاب احمد خان عبا سی اور انجینئر امیر مقام اب بھی اس خیال کے حامی ہیں کہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو نہ چھیڑا جائے ۔میاں شہباز شریف ،خو اجہ سعد رفیق ،سینیٹرپرویز رشید اور پیر صابر شاہ کا خیال ہے کہ خیبر پختونخوا کے مفاد میں عوام کے مزید دو سالوں کو ترقی کے بغیر ضائع ہو نے سے بچا یا جا ئے ۔جمعیتہ ا لعلمائے اسلام (ف)کے حا فظ حسین احمد حکا یات سنا نے کے ما ہر ہیں ۔ایک بار حا فظ حسین احمد کو بتا یا گیا کہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت کا میاب جا رہی ہے ۔حکومت کے پاس الگ ہیلی کا پیٹر ہے۔ جہا نگیر ترین کا ہیلی کا پٹر اور جہاز بھی پی ٹی آئی قیادت کی تحویل میں ہے ۔ایک دن ایک ضلع میں تو دوسرے دن کسی اور ضلع میں ۔دورے پر دورہ ہو رہا ہے ۔حافظ حسین احمد نے کہا ایک دن جنگل کے جا نوروں نے جمع ہو کر شیر کی جگہ بن مانس کو جنگل کا با دشاہ بنا یا ۔شیر اور بھیڑ یے نے ہر نوں کے ریوڑ پر حملہ کیا ۔بن ما نس اچھل کو دکر کے کبھی ایک درخت پر ،کبھی دوسرے درخت پر، کبھی تیسرے درخت پر گھو متا رہا ۔ہر نوں نے شکا یت کی ، با دشاہ سلامت !ہم پر شیر اور بھیڑ یے کا حملہ ہوا۔ عالی جاہ نے ہمیں بچانے کے لئے کچھ نہیں کیا ۔بن مانس نے کہا میں آرام سے نہیں بیٹھا ۔مسلسل گھوم پھر کر حالات کا جا ئزہ لے رہا ہوں ۔تم دیکھتے نہیں ہو ؟کبھی ایک درخت پر کبھی دوسرے درخت پر تمہارے لئے چھلا نگیں لگا رہا تھا ۔مگر رعایا کو بادشاہ سلامت کی چھلانگوں کا کو ئی فا ئدہ نہیں ہوا ۔شیر اور بھیڑ یے نے اپنا شکار کر لیا ۔اے این پی کے اسفند یار ولی خان نے اپنے دوستوں کو ایک اور حکا یت سنائی ہے ۔بہرام گور مشہور بادشاہ گذراہے ۔ان کا محل کھنڈرات میں تبدیل ہوا تو شاعر نے کہا :
آلتجا کہ بہرام گور جام گرفت
آہوبچہ کرد،دوباہ ارام گرفت
یہی بہرام گور پورے شان وشوکت کیساتھ تخت پر بیٹھا تھا ۔درباری حا ضر تھا ۔دربار یوں میں ایک مسخرابھی تھا ۔جو با دشاہ کو ہنستاتا تھا اور کبھی کبھی ہنسی مزاق میں اچھی بات بھی بڑے پتے کی کہہ جاتا تھا ۔درخت پر دو الو بو لنے لگے۔بہرام گورنے کہا ۔کو ئی ہے جو الو کی زبان سمجھتا ہو ؟مسخرے نے کہا یہ خا کسار اس فن میں یکتا ئے روز گار ہے ۔بہرام گور نے پو چھا “ذرابتا وٗالو آپس میں کیا کہ ر ہے تھے ؟”مسخر بولا عالیجا ہ! نر الو مادہ الو ہے کہہ رہا تھا میں تم سے شادی کر نا چا ہتا ہوں ۔مادہ الو نے شرط لگائی کہ شادی کر لو مگر مہرمیں مجھے 10ویرانے دیدو ۔نر الوّ نے کہا فکر مت کرو اگر بہرام گور کی بادشاہت 2سال اور رہی تو پورا ملک ویرانے میں بدل جائے گا ۔میں تجھے 10کی جگہ 100ویرانے مہر میں دیدو ں گا۔ بات بہت بڑی تھی ۔ بات کا رٹو نیسٹ کے کا رٹون کی طرح ہنسی مذاق میں گزرگئی ۔عید کے بعد وفاقی حکومت کے خلاف جو دھرنے اور ہڑتالیں ہو نگی ان کا فا ئدہ خیبر پختو نخوا کے عوام کو بھی ہو گا ۔کیو نکہ دھرنوں سے صرف وفاقی حکومت نہیں جا ئے گی۔۔ چاروں صوبوں کی حکومتیں بوریا بستر گول کر کے گھر چلی جا ئینگی ۔خیبر پختو نخوا میں مصائب اور تکالیف کا دور ختم ہو کر ترقی اور خوشحالی کا دور آئے گا۔ لیکن خیبر پختو نخوا حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد اگر کا میاب ہو ئی تو ایک ناکام انتظامیہ کے ہاتھ میں مظلومیت اور شہادت کا بہانہ آجائے گا۔بات بات پر دلیل دی جائے گی کہ اگر ہماری حکومت ختم نہ ہو تی تو ہم صوبے میں “تبدیلی “لے آتے ۔گو یا تبدیلی کی سواری لنگڑ ی سواری ہے ۔ 3 سالوں میں منزل کے قریب سے نہیں گزری ۔5سالوں میں منزل تک پہنچ پا ئیگی ۔بعض من چلوں کا خیال ہے کہ تبدیلی سواری پر نہیں آرہی۔پیدل سفرکررہی ہے ۔اس لئے منزل اب بھی بہت دور ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بنوں کے جلسے میں خان صاحب کے ساتھ حادثہ پیش آیا ۔خان صا حب نے جلسہ عام کے حاضر یں سے پو چھا کیا محکمہ صحت میں تبدیل نظر آرہی ہے؟ جواب ندارد۔کیا محکمہ تعلیم میں تبدیلی کو دیکھ رہے ہو ؟ جواب میں خا موشی ۔کیا لو کل گو رنمنٹ میں تبدیلی آئی ہے ؟ جواب ندارد ۔خان صا حب کے لا جواب ہو نے کا یہ منظر ٹی وی پر پر دکھا یا گیا ۔عید کے بعد والے عزائم ٹھیک ہو نگے مگر خدا را ! خیبرپختونخوا کی مو جودہ حکومت مزید دوسال رہنے دیں ۔اس کے بعد اس کی طبعی موت واقع ہو جا ئے گی ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔