داد بیداد …..نشتر ہال اور ثقافت

…….ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ ……

یہ بات قابل ستائش ہے کہ صوبائی حکومت نے پشاور کے قلب میں واقع ثقافتی مرکز نشتر ہال کی مرمت ، تزئین وآرائش کا کام مکمل کر لیا ہے اور نشتر ہال کی حدود میں محکمہ ثقافت کی خوب صورت عمارت تعمیر کر کے یاد گار بنا دیا ہے پشاور کے ادبی اور ثقافتی حلقے 1960 ؁ء اور 1970 ؁ء کے عشروں کی وہ بات نہیں بھو لینگے جب حکومت نے عجائب گھر کے پہلو میں اباسین آرٹس کونسل کی خوب صورت عمارت تعمیر کی تھی اس کا ہال زیادہ کشادہ نہیں تھا تاہم اس کے لان اور اس کی گیلیر یاں قابل دید تھیں اُس جگہ ار کا ئیوز لائبر یرں اور آڈیٹو ریم کی تعمیر ہوئی اس کی جگہ پشاور ہائی کورٹ اور سنٹر جیل سے متصل و سیع و عریض پلاٹ پر نشترہال کی خوبصورت عمارت تعمیر ہوئی اباسین آرٹس کونسل کو نشتر ہال کے اندر جگہ دی گئی پر وفیسر خاطر غز نوی ، پروفیسر پریشان خٹک ، ایوب صابر ، محسن احسان اور دیگر دانشوروں نے اس کی آبیاری کی نشتر ہال کی تزئین و ارائش کے ساتھ ہی دوسری خبر آئی ہے خبر یہ ہے کہ محکمہ ثقافت نے فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے ثقافتی خدمات کو ختم کر نے کا فیصلہ کیا ہے ہرسال صوبے کے ادیبوں اور شاعروں کی 200 منتخب کتا بیں شائع کی جاتی تھیں وہ سلسلہ بند کر دیا گیا ہے 2015 ؁ء میں جن ادیبوں ، شاعروں اور دانشوروں کی کتابوں کو اشاعت کے لئے منتخب کیا گیا تھا ان کو اطلاع دی گئی ہے کہ اپنا مسودوہ واپس لے جاؤ سارا فنڈ نشتر ہال کی مرمت اور محکمہ ثقافت کی عمارت پر خرچ ہوا کتابوں کی اشاعت کے لئے فنڈ دستیاب نہیں ہے گویا ادب و ثقافت کی آبیاری کا جو فنڈ تھا اس کو چونا ، رنگ وروغن پر لگا دیا گیا اندر سے جان نکال دی گئی ہارڈ وئیر بہت خوبصورت ہے سافٹ وئیر ند ارد یہ ترجیحات کا دیرینہ مسئلہ ہے ترجیحات میں توازن کا پر انا مسئلہ ہے یہ برطانوی دور کا ذکر ہے لا ہو ر میں ہندووں اور مسلمانوں کے درمیاں ایک پلاٹ پر جھگڑا ہوا جہاں مسجد یا مندر کی تعمیر ہونی تھی مقدمہ عدالت میں دئر ہوا حالت کو جوں کا توں یعنی سٹیٹس کو رکھنے کے لئے حکم آنے والی تھی لاہور کے جذباتی مسلمانوں نے ایک رات میں وہاں مسجد تعمیر کر دی اگلے دن سٹیٹس کو آیا تو مسلمانوں کے حق تھا اس پر علامہ اقبال نے تبصرہ کر تے ہوئے ایک شعر کہا
مسجد تو شب بھر میں بنا ڈالی ایمان کی حرات والوں نے
من اپنا پرانا پاپی تھا برسوں میں نمازی بن نہ سکا
نشتر ہال کی تزئین ورائش کا بہانہ بنا کر کتابوں کی اشاعت اور ثقافت کی ترویج کے پروگراموں کو ختم کر نا اسی قبیل کا کام ہے ثقافت اور فوک لور پر عکسی مفتی کی کتاب ’’ کاغذکا گھوڑا ‘‘ دوسال پہلے مارکیٹ میں آئی تھی یہ کتاب ہلکے پھلکے انداز میں لکھی گئی ہے اس میں حکومتوں کے مضحکہ خیز رویوں پر طنز کی گئی ہے مثلاً کسی یو رپی ملک اور امریکی ریاست کو ثقافتی وفد بھیجنے کامنصوبہ زیر غور ہو تو افیسروں کے نام ان کی بیگمات کے ساتھ وفد میں شامل کئے جاتے ہیں ایسے وفود کے دوروں پر کررڑوں روپے ثقافت کے نام پر خرچ کئے جاتے ہیں ثقافت والوں کو ان وفود کے آنے جانے کی خبر بھی نہیں ہوتی مثلاً ستارنوازی کے فروغ کے لئے بہت بڑا مرکز قائم کیا گیا فرنیچر ، قالین، پردے ، کمپیوٹر ، کیمر ے اور گاڑیا ں خرید ی گئیں افیسروں کو لا کر بٹھا یا گیا تین سال بعد کسی ملک کے سالانہ میلے کے لئے ستار نواز بھیجنے کی ضرورت پیش آئی تو سارے افیسر اپنے سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ ستار نواز کہاں سے ڈھونڈ کر میلے میں بھیجیں عکسی مفتی نے لکھا ہے کہ ہمارے ہاں ادبی اور ثقافتی ادارے نیک نیتی کے ساتھ بنائے جاتے ہیں ٹھیک ٹھاک منصوبہ تیار کیا جاتاہے پی سی ون سے پی سی فور تک سب کچھ اے ون ہوتا ہے عمارت تیار ہوتی ہے افیسروں کو لاکر بٹھا یا جاتاہے مراعات دی جاتی ہیں شان و شوکت اور کر وفر دید نی ہوتا ہے مگر ادب و ثقافت کا ذکر آتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ فنڈ دسیتاب نہیں ہیں ادب و ثقافت کا خز ینہ استاد دامن ، امیر حمزہ شنو اری ، پیر حسام الدین راشدی ثر یا ملتا نیکر ، عابد ہ پر وین ، عالم لو ہار اور طفیل نیا زی کے پاس تھا افیسروں نے اینٹ گارے کی دیواریں کھڑی کردیں اس پر چونا لگا یا اور رپورٹ لکھ دی کہ ادب و ثقافت کی بڑی خدمت ہوگئی ہے اللہ اللہ خیر صلا نشتر ہال کی تز ئین و ارائش کے بعد ادبی اور ثقافتی منصوبوں کے لئے فنڈ کی کمی کا بہانہ بنا یا ایسا ہی ہے جیسے نشتر ہال میں جھاڑو پھر ی جائے ساغر صدقیے کے بقول
تیری عصمت کی تجارت پس دیوار سہی
میری تقدیر کا سودا سرِ با زار ہوا
یہ کون لو گ تھے جن کے مسودے اشاعت کے لئے منظور کئے گئے تھے ؟ یہ پشاور ، مردان ، چارسدہ ، نوشہر ہ ، چترال ، ایبٹ اباد ، سوات ، ڈی آئی خان ، لکی مروت ، شانگلہ اور ملاکنڈ کے لکھاری تھے دانشو ر تھے جنہوں نے محکمہ ثقافت کے اشتہار کو دیکھ کر اپنی کتابوں کی کمپوز شدہ کیمر ہ ریڈی کا پی محکمہ ثقافت کے حوالے کی تھی ان میں سے اکثر کو مسودہ کی اشاعت کے لئے منظور ہونے کی خوش خبری دی گئی تھی اب ان ’’ بد بختوں ‘‘ کو اطلاع دی گئی ہے کہ نشتر ہال کی مرمت پر بہت سارا پیسہ لگ گیا کتابوں کی اشاعت کے لئے ایک پائی بھی نہیں بچی اس لئے کتابوں کی اشاعت کا کام بند کر دیا گیا ہے یہ خبر اُن ادیبوں اور شاعروں پر بجلی بن کر گری ہے جواپنی کتاب کی اشاعت کے منتظر تھے نشترہال بہت خوبصورت ہو گیا ہے مگر اس کے اندر جان نہیں رہی یہ اب کا غذ کا گھوڑا ہے محکمہ ثقافت بن گیا ، عمارت تعمیر ہوئی ، پردے ، قالین اور فرنیچر آگئے کمپیوٹر اور گاڑیاں خر ید ی گئیں اب اس عمارت میں ثقافت کے لئے کوئی جگہ نہیں رہی ادبی سرگرمیوں کے لئے کوئی فنڈ نہیں رہا کا غذ کا گھوڑا ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے نشتر ہال اور ثقافت کا چولی دامن کا رشتہ تھا اب محکمہ ثقافت نے فیصلہ کیا ہے کہ صر ف نشتر ہال ہوگا اس میں ثقافت اور ادب کا عمل دخل نہیں ہوگا یہ حکومت وقت کا فرمان ہے ساغر صدیقی کہتے ہیں
اب کے برس بہار بصیرت کو ڈس گئی
فکر و نظر کے جھو متے باغات جل گئے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔