داد بیداد …..چترال یونیورسٹی کا مستقبل

……..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ …….

صوبائی بجٹ 2016-17کے ترقیاتی اہداف میں خیبر پختونخوا کی حکومت نے دیگر منصوبوں کے علاوہ ملاکند ڈویژن میں تین بڑی یونیورسٹیوں کے قیام کا اعلان بھی کیا ہے لوئر دیر میں یونیورسٹی آف انجینئرنگ انیڈ ٹیکنالوجی ،بونیر میں یونیورسٹی اور چترال میں یونیورسٹی کا قیام ان اہداف میں شامل ہے ان اعلانات کا خیر مقدام کیا جارہا ہے او ر ان یونیورسٹیوں کے ساتھ اُمید یں وابستہ کی جارہی ہیں بلا شبہ لوئر دیر اور بونیرمیں دو یونیورسٹیاں قائم کی جائینگی ۔اگلے تعلیمی سال سے کلاسوں کا اجرا ء بھی ممکن ہو جائے گا لیکن چترال یونیور سٹی پر اب تک شکوک اور شبہات کے سائے منڈلا رہے ہیں اگلے دو سالوں اس کا قیام مشکل بلکہ محال نظر آتا ہے اس کے متعدد وجوہات ہیں سیاسی اور تکنیکی وجوہات ذیادہ اہمیت رکھتی ہیں سب سے پہلے بات یہ ہے لوئر دیر میں نئی یونیورسٹی بنائی جارہی ہے پراجیکٹ ڈائریکڑ اور وائس چانسلر کا تقر ر ہونے کے ساتھ کسی تیار عمارت میں یونیورسٹی کاکام شروع کرے گی تعمیر اتی کام ا گلے د و سالوں میں ہوجائیگا تعلیمی سال کا آغازد سمبر 2016 ؁ء سے کیا جائے گا رکاوٹ کوئی نہیں ہے بونیر میں عبدالولی خان یونیورسٹی کا کیمپس ہے ڈاکٹر احسان علی خا ن اپنے دو یونیورسٹی کیمپس میں نئی یونیورسٹی بنا چکے ہیں ان کی یونیورسٹی کا تیسر ا کیمپس نئی یونیورسٹی کا درجہ حاصل کر رہا ہے وہ اسکو اپنے لئے اعزاز اور عوام کی خدمت سمجھتے ہیں بونیر یونیورسٹی بھی کسی تکنیکی اور فنی روکاوٹ کے بغیر نئی یونیورسٹی کا درجہ حاصل کرے گا چترال کی صورت حال مختلف ہے اس ضلع میں عبدالولی خان یونیورسٹی کا کیمپس بھی ہے جس کو آسانی سے یونیورسٹی کا درجہ دیا جا سکتا ہے ساتھ ہی شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی کے دو کیمپس ہیں اس یونیورسٹی کے ریو نیو کا پورا دارو مدار چترال پر ہے یونیورسٹی کی انتظامیہ اپنے نا م اور اپنے ادارے کو کسی دوسری یونیورسٹی میں ضم کرنے کی راہ میں مزاحمت کر رہی ہے تین یونیورسٹی کیمپسزکو مدغم کر کے نئی یونیورسٹی قائم کرنے کے لئے ادارہ جاتی میکنزم کی ضرورت ہوگی جو اس وقت ناپید ہے تین یونیورسٹی کیمپسز کو تحلیل کرنے کے لئے ایک چارٹر اکاونٹنٹ فرم کی خدمات درکار ہیں جو موجودہ حالات میں ممکن نہیں ہے اس لئے ایگزیکٹیو اتھارٹی کے عزم اور حکم کی ضرورت ہے جو دستیاب نہیں اس لئے چترال یونیورسٹی فنی اوٹیکنیکی اعتبار سے سال 2016-17 ؁ء کے دوران قائم نہیں ہو سکیگی اس کی سیاسی وجوہات بھی ہیں لوئر دیر اور بونیر میں یونیورسٹیوں کے قیا م کی جدوجہد جماعت اسلامی کے ہاتھ میں ہے ان اضلاع میں جماعت اسلامی کے اراکین اسمبلی صوبائی حکومت پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر رہے ہیں ان کو سیاسی تعاون حاصل ہے چترال کے اراکین اسمبلی کی ایسی پوزیشن نہیں خواتین کے لئے محصوص نشست پر منتخب ہونے والی فوزیہ بی بی اکیلی رکن اسمبلی ہیں جنہوں نے عمران خان اور پرویز خٹک کے سامنے چترال یونیورسٹی کی تجویز رکھی شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی کے لئے زمین کی خریداری کا عمل مکمل کیا زمین بھی ہاتھ آگئی صوبائی اسمبلی میں چترال کے دو اراکین اسمبلی پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں قومی اسمبلی کا ممبر جنرل پرویز مشرف کی پارٹی سے تعلق رکھتا ہے ضلع ناظم کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے چاروں کا نہ کسی بات پر اتفاق ہوتاہے نہ خاتون رکن اسمبلی کی کسی اچھی تجویز کے ساتھ انکا اتفاق ہوتاہے بار بار 17ڈیو کے جنرل افیسر کمانڈنگ کو مداخلت کرکے ان کو ایک میز پر لاکر ’’شٹ اپ کال ‘‘دینا پڑتا ہے اراکین اسمبلی کے درمیان رسہ کشی کی وجہ سے چترال کے ترقیاتی منصوبے گزستہ 3سالوں سے بند ہیں سیلا ب اور زلزلہ سے متاثر ہونے والے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر کام کا آغاز اب تک نہیں ہو ا جبکہ نئے سیلا ب کا موسم سر پر آگیا ہے ترقیاتی اداروں میں بار بار اپنا جائزہ لینے کا دستورہے اس جائزے کو انگریزی مخفف میں SWOTکہتے ہیں ضلع چترال کا SWOTانالی سیس کیا جائے تو چار باتیں سامنے آتی ہیں چترال کی طاقت یا خوبی یہ ہے کہ یہ صوبے کا سب سے بڑا ضلع ہے جو صوبے کے پانچویں حصے پر مشتمل ہے یہ پاکستان کا سب سے بڑا پُرامن ضلع ہے شرح تعلیم کے لحاظ سے صوبے میں چوتھے نمبر پر ہے پاکستان میں اکیسویں پر نمبر پر ہے اوراکیسویں صدی میں 105اضلاع میں اکیسویں نمبر پر ہونا بہت بڑی بات ہے چترال کے سامنے مواقع یہ ہیں کہ پوری دنیا کے ڈونر چترال میں دلچسپی رکھتے ہیں جرمن ،سوئس ،جاپانی ،چینی ،برٹش ،امریکی اور یورپی یونین کے لو گ ترکی ،کوریا سمیت کئی دوست ممالک چترال میں سرمایہ کا ری کرنا چاہتے ہیں افغانستان کے ساتھ چترال کی 2400کلو میٹر سرحدمشترک ہے اس لئے پاک فوج نے چترال کی ترقی میں ہر دور میں خصوصی دلچسپی لی ہے اب بھی دلچسپی لے رہی ہے چترال کی ترقی کے سامنے رکاوٹیں یہ ہیں کہ علاقہ قدرتی آفات کی زدمیں ہے بنیادی ڈھانچے کی سکیموں سے محروم ہے ضلع دیر اپر اور لوئر میں اگر پکی سڑکوں کی لمبائی 7ہزار کلو میٹر ہے تو چترال میں دو سو کلومیٹر سے بھی کم ہے 7ہزار کے مقابلے میں 7سو بھی نہیں ایک اور روکاٹ یہ ہے کہ آبادی کے لحاظ سے صوبے کے اضلاع میں سے سب سے کم فنڈ چترال کو ملتا ہے کوئی بھی سپیشل پراجیکٹ یا پروگرام چترال کو نہیں ملتا SWOTکا ڈبلیویعنی کمزور ی سب سے آخیر میں آتی ہے تمام مواقع اور توڑدیتے ہیں کمزوری یہ ہے کہ چترال میں سیاسی بیداری صفر سے بھی کم ہے ایک ہزار سال ریاستی حکومت ہونے کی وجہ سے یہ ضلع سیاسی بیداری کی نعمت سے محروم ہے پیپلز پارٹی کی حکومت ہو تویہ لوگ مسلم لیگ کو ووٹ دیتے ہیں مسلم لیگ کی حکومت ہو تو یہ لوگ جماعت اسلامی اور پی پی پی کو ووٹ دید یتے ہیں اے این پی کی حکومت ہو تو چترا ل کے ووٹر مسلم لیگ کو آگے لاتے ہیں چترال کارکن اسمبلی ہر دور میں بے بسی اور ناچا ر گی کا نمونہ ہوتا ہے آپس میں بھی اُن کا اتفاق وا تحاد نہیں ہوتاجس قدر سیاسی بدقسمتی چترال کے عوام کے حصے میں آتی ہے اس قدر بد نصیبی اور بدبختی پاکستان کے کسی بھی ضلع میں نہیں دیکھی گئی اب بھی صوبائی حکومت نے چترال یونیورسٹی کا اعلان کیا ہے اس اعلا ن کو عملی صورت دینے کے لئے فوزیہ بی بی اکیلی ہے اگر کور کمانڈر لفٹنٹ جنرل ہدایت الرحمن او رجنرل افیسر کمانڈنگ میجر جنرل آصف غیور نے چترال یونیورسٹی کے قیام میں دلچسپی لی تو چترال کی قسمت بیدار ہو سکتی ہے سیاسی طور پر اعلان سے آگے بڑھنا چترال کے مقدر میں نہیں ہے چترال کا کوئی نمائندہ نجم الدین خان کی طرح حکومت کے ایوانوں پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہے چترال کے عوام کا کوئی نمائندہ عوام کی بھلائی کے لئے دوسرے نمائندے کے ساتھ تعاون کرنے والا نہیں ہے قومی سلامتی کے اداروں کو اس کا علم ہے ضلعی انتظامیہ ، ڈویژ نل انتظامیہ اور صوبائی حکومت کو اس کا علم ہے چیف منسٹر ز سکرٹریٹ اور وزیر اعظم سکرٹریٹ کو اس کا علم ہے اس لئے اونچے ایوانوں میں چترال کے کسی بھی مطالبے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا بلاشبہ چترال یونیورسٹی کا اعلان پی ٹی آئی کی حکومت کا بڑا کارنامہ ہے اب اس اعلان کو عملی جامہ پہنانے کے لئے فوزیہ بی بی ، رحمت غازی ، عبدالطیف اور حاجی سلطان کو نجم الدین خان کی طرح دوڑ دھوپ کرنی ہوگی تب اگلے دو سالوں میں چترال یونیورسٹی کا خواب حقیقت کا روپ دھار لیگا ورنہ فرمودہ غالب تو سب کو ازبر ہے
دام پر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گذرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔