مکتوب چترال……چترال کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک

………………۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بشیر حسین آزاد

چترال 6لاکھ آبادی اور14850مربع کلومیٹر رقبے کے ساتھ خیبر پختونخواہ کا سب سے بڑا ضلع ہے۔چترال ٹاون اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر کی آبادی 80ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔یہاں6ہزار دکانیں اور دیگر کاروباری مراکز ہیں۔4سرکاری کالج،چار یونیورسٹیوں کے کیمپس اور 22پرائیویٹ کالج ہیں۔چترال سکاؤٹس کا ہیڈ کوارٹر بھی ٹاون کے اندر ہے۔ایم این اے ،ایم پی اے اور ضلع ناظم کا تعلق بھی ٹاون سے ہے۔مگر چترال ٹاون کی حالت دیر،سوات اور نوشہرہ کے کسی گاؤں سے بدتر ہے۔گرمیوں کے موسم میں پینے کا پانی نہیں ہے۔بجلی 24 گھنٹوں میں دوگھنٹے آتی ہے وہ بھی 30وولٹ آتی ہے صرف زیرہ بلب جلتا ہے پنکھا نہیں چلتا۔کوئی کاروباری کام نہیں ہوتا۔درزیوں نے جنریٹر لگایا ہوا ہے اور ایک جوڑا کپڑے کی سیلائی 500روپے سے بڑھاکر700یا 800روپے کردی ہے۔ایک ورق فوٹو کاپی 4روپے میں آتی ہے وہ بھی جنریٹر کی وجہ سے۔ عبدالولی خان یونیورسٹی چترال کیمپس کے طلبہ اور طالبات نے جلوس نکال کرروڈ بلاک کرکے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ٹاون کے مسائل حل کئے جائیں۔مختلف لیڈورں کے دوروں کے موقع پر کہا جاتا ہے کہ چترال کے ساتھ پی ٹی آئی کی حکومت سوتیلی ماں کا سلوک کرتی ہے۔نوشہرہ کو 7ارب کا ترقیاتی فنڈ دیکر چترال کو 5کروڑ روپے بھی نہیں دئیے گئے۔2012کے سیلاب نے انفراسٹرکچر کو جو نقصان پہنچایا۔4سالوں میں اس کی بحالی نہ ہوسکی۔2015کے سیلاب میں ہونے والے نقصانات کی تلافی نہیں ہوئی۔3جولائی کو اُرسون میں سیلاب سے29جانیں ضائع ہوئیں۔اوراسی ماہ زیارت لواری کے مقام پر سیلاب سے 10گاڑیاں سیلاب میں بہہ گئیں۔کوراغ ،ریشن،کارگین ،سینگور،شاڈوک اور 20دیگر مقامات پر جو سڑکیں جولائی 2015میں سیلاب بر د ہوگئی تھیں ایک سال گذرنے کے باوجود ان کی مرمت نہیں ہوئی۔صوبائی حکومت ٹس سے مَس نہیں ہوتی۔عوامی نمائندے خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں۔ماضی میں اس طرح کے ظلم کبھی نہیں ہوئے ایک مسئلہ ہوتا تھا۔اس کا حل تلاش کیا جاتا تھا۔اب چترال ٹاون ہر طرف سے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔سول سوسائیٹی ،بار ایسوسی ایشن،میڈیا اور سیاسی نمائندے اگر اپنا مثبت کردار ادا کرکے چترال ٹاون کے مسائل کو حل نہیں کرینگے تو پبلک ان کو کبھی معاف نہیں کریگی۔یہ دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالے 3سال ہوگئے ایک دن بھی وزیراعلیٰ اور صوبائی کابینہ کے وزیروں نے چترال کا حل نہیں پوچھا چترال کے مسائل پر توجہ نہیں دی۔حالانکہ پی ٹی آئی کو چترال میں24ہزارسے زیادہ ووٹ ملے تھے ۔مشرف کی پارٹی 5000ہزار ووٹوں کے فرق سے جیتی تھی۔آئیندہ الیکشن میں پی ٹی آئی کو چترال میں کامیابی ملنا بہت مشکل ہے۔اگر پی ٹی آئی کامیابی کی خواہش رکھتی ہے تو اس کو چترال کے مسائل پر توجہ دینی ہوگی۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔