ہماری تخلیقی صلاحیت زبان غیر کی یلغار میں

موضوع نو (تحریر: پروفیسر شفیق احمد)

انسانی فطرت بھی اصولوں  کے تابع ہے اور فطری عمل ہے کہ انسان اپنی مادری زبان میں سوچتا ہے ،اسکا اظہار بھی اسی زبان میں کرتا ہے ۔لیکن بد قسمتی سے ہم بحیثیت پاکستانی قوم سوچتے اپنی مادری زبان میں ،اظہار رابطے کی زبان میں اور تحریر انگریزی زبان میں کرتے ہیں ۔ اس متفرق ماحول میں ایک جملہ  بولنے کے لیے ہمیں تین زبانوں پر عبور حاصل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ہمارے اس بے ہنگم  بے ربط ماحول میں علم حاصل کرنا انتہائی مشکل عمل بن چکا ہے۔اسی وجہ سے ہماری تخلیقی صلاحیتوں پر بڑے بُرے اثرات مرتب ہو چکے ہیں ۔اس مسئلے کا بہترین حل یہ ہے کہ اُردو ہمارے رابطے کی زبان ہے، جو کسی خاص علاقے کی مخصوص زبان نہ ہونے کی وجہ سے ،اسےغیر متنازعہ زبان کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔ اُردو زبان میں  کسی دوسری زبانوں  کے اجنبی الفاظ و اصطلاحات  کو جذب اور ہضم کرنے کی  بے پناہ  صلاحیت موجود ہےجو کہ مانوس الفاظ کی مانند ہمارے زبان میں شامل ہو تے جارہے  ہیں ۔لہذا ہمیں تحریر اور تقریر دونوں ذریعہ اظہار کے لئے اردو زبان سے بھر پور استفادہ کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت  بن گئی ہے۔کیونکہ ایک بچے کےپیدائیش سے ہی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اُنکے کانوں میں اُردو زبان کے الفاظ گونجتے رہتے ہیں ۔ اُردوعربی ،فارسی ،تُرکی اور ہندی  کے الفاظ پر مشتمل بولی ہونے اوربرصغیر میں  مسلمان مُبلغین کے زبان ہونے کی بناء پر،پاکستان کے تمام باشندےاسلامی اورعلاقائی   اثرات کی وجہ سے برابری کے بُنیاد پر اسی زبان میں سمجھ بوجھ رکھتے ہیں ۔لہذااسی بناء پرقومی  زبان کوایک قسم کی  مادری زبان کی حئیثت بھی حاصل ہو چکی ہے۔

انسان کو خداوندے پاک نے صحت مند  جسم کےساتھ  پیدا  کیا ہے، جس میں آنکھیں   ،بازوں  کے  علاوہ  دماغ  اور دیگر بے شمار نعمتوں سے نوازا  ہے،اگر انسان حقیقت کی آنکھ سے دیکھ کر مشاہدہ کرے تو ان نعمتوں کےمطالعےکے لئے انسان کی اوسط عمربھی کافی نہیں ہے۔  یہ قیمتی نعمتیں   انسان کی استعداد میں شمار ہو تے ہیں اور قیامت کے روزحشر کے میدان میں گواہی دینگے اوران سےپوچھا جائے گا  کہ میں نے آپ کو بھر پو استعداد کے ساتھ پیدا کیا تھا اور آپ نےانہی استعدادیعنی اپنے دماغ ، تندرست وتوانا  جسم کو لیکر انسانیت کی فلاح بہبود کے لیےکونسے  کونسے کام سر انجام دے چکے ہو،  کیا آپ کے  ان اعضا ء سےدوسرا انسان محفوط رہا ہے ؟کیا آپ نے ان کے ذریعے سےانسانیت کی بہتری کے لئے کوئی  سہولیات پیدا کی ہے،اگرکی  ہےتو یقینا” اسکی نجات ممکن ہو جاتی ہے؟ان حصوں میں سب  سے اہم چیزانسان کی دماغ ہے ،اسکو استعمال کرنے سے تیزی  اور نہ کرنے سےکمی آ جاتی ہے ۔انسان اور حیوان میں جو نمایاں فرق ہے وہ سوچ اور “نُطِق”کی ہے۔ انسان کسی کام کے آغاز سے  اور بات  کہنے سے قبل  خوب سوچتا ہے اورچاروں اطراف  جایئزہ لیتا ہے،تب جاکر سود مند نتایئج اخذ کر سکتا ہے ۔سوچ بچار سے تخلیقی صلاحیتوں  کو فروغ ملتی ہےاور اسے نظریات ،فرمولات ،ایجادات ،اور دریافتیں عمل میں آتی ہیں اور انسان کی فلاح وبہبود  کا ذریعہ بن جاتا ہے۔انسانی فطرت  ُمثبت اورمنفی سوچ کا مجموعہ ہے۔  یقیناًمنفی سوچ سے” تنگ نظری” پیدا ہوتی ہے اور تنگ نظری سے تخلیقی پہلو متاثر ہوتے ہیں ۔اسی اہم  پہلوکے متاثر ہونے کی وجہ سے انسان ہر اچھے اور نیک کام کو سر انجام دینے ،دوسروں کے صلاحیتوں  کوتسلیم کرنے و حوصلہ دینے سے قاصررہتا  ہے۔اسی اہم پہلو کے کمزوری کی وجہ سے انسان کوکسی بھی نیک اچھے کام  میں اسکےمنفی اور کمزور پہلو نظر آتے ہیں اور اس پر تبصرہ کرتا رہتا ہے ۔اسی ذہنیت کی مثال  ہماری پاکستانی قوم کی ہے اسکا  زیادہ تر  حصہ سوچے سمجھےبے غیر،بلا تحقیق  اور منفی سوچ کے ہمراہ ترقی کرنا چاہتی ہے۔جب بحث میں پاکستان کی بات آجاتی ہےتو اسکے مقابلےمیں  مغرب کی دیانتداری و محنت،  انڈیاکی جمہوریت اورچایئنا کی دُنیا پر چھا جانے والی معیشت کی مثالیں دیتے  ،تعریفیں  کرتے کرتے  تھکتے نہیں ہیں۔جب اُردو زبان کی بات آجاتی ہے تو بے غیر سوچے سمجھےاس کو رد کرکے نفرت پیدا کرنے میں دیر نہیں لگاتے ہیں  اور اسکےلئےُسبک الفاظ کے استعمال   اور پرلے درجے کی زبان قرار دیئے بغیر انکی نیندیں بھی حرام ہو جاتی ہیں ۔

ہمارے  اڑوس پڑوس میں  ترقی یافتہ ممالک  انگریزی کے سحر و آسیب سے اپنی قوم کے دامن کوبچا کراور اپنی قیمتی وقت  کو اس میں صرف کرنے کے بجائےتخلیقی  کاموں میں صرف کرتےرہتے ہیں۔

جب اسلام کی بات آجاتی ہے  تو مغرب اور انگریز قوم  کےبا عمل ہونے کی مثالیں  دیتے رہتے ہیں  ۔پارلیمنٹ کی بات آجاتی ہے تو اپنے  لیڈروں کی ہجو پڑھنا شروغ کردیتے ہیں۔ ادرو ں کی بات آجاتی ہے توکرپٹ بد عنوانی کی مہریں لگا دیتے ہیں اور فوج کی بات آجاتی ہے تو اسکو ملک کا سب سے بڑا  دشمن قرار دیتے  ہیں۔ کیونکہ یہ تما م اہلکار انہی منفی سوچ اورغلامانہ ذہنیت والی قوم کے باشندے ہیں ۔اس حوالےسے   مثالیں دینے کا مطلب  یہ ہےکہ یہ تمام منفی سوچ اور تخلیقی پہلو کی کمی  کےپیداوار ہیں ۔اگر انسا ن میں “مثبت سوچ “ابھرنے لگے تو اسکو اسلام ،پاکستان ،اُردو  زبان ،اداروں  و فوج کے سا تھ محبت ،ملک کےباشندوں سے ہمدردی ،دیانتداری،جانثاری اور حُب الوطنی کی درس شروغ ہو جاتی ہے ۔تعلیم ،سائینس و ٹیکنالوجی کوترقی   دینے اور ترقی یافتہ ممالک سے معاہدہ کراکر  قوم کے نو نہالوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر کے  نمایاں ہونے کی فکر پیدا ہوتی ہے ۔حقیقت  یہ ہے اسی ملک کے باسی بھی ہم ہیں اداروں اور فوج میں بھی ہم ہی ملازمت کرتے ہیں  اورہم ہی  نازیبا الفاظ پاسی دھرتی اوراُردو زبان  کے لئے استعمال کرتے رہتے ہیں ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم ساری عمردیار غیر کی شہریت حاصل کرنےکی فکر میں  اور  زبان غیر کو سیکھنے میں  صرف کر کے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو اُبھرنے سے روکنے میں مصروف  ہیں۔ ہم تعلیم کے میدان میں سب سے زیادہ توجہ انگریزی زبان کےالفاظ کو صحیح تلفظ کے ساتھ ادایئگی میں صرف کرنےاور سارا سال انگریزی کے مشکل الفاظ سپیلینگ یاد کرنے میں  صرف کرتےرہتے ہیں۔ سائنس کی ڈکشنری اور تعریفیں پڑھ پڑھ کر اپنی قیمتی وقت کو  ضائع  کرتے رہتے ہیں، اسی وجہ سے ہمارے تجربہ گاہیں خالی ہو چکے ہیں، سائنسی علوم سوچ اورتحقیق و تخلیق کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں  رکھتی ہے۔تجربات اور پریکٹیکل سے تخلیقی جواہر میں اضافہ ہوتا ہے تب جاکر اپ کوئی کار ہائے نمایاں سر انجام دے کر رہتی دُنیا کے لئے اسکو  نمونہ بنا سکتے ہیں ۔

ہمارے  اڑوس پڑوس میں  ترقی یافتہ ممالک  انگریزی کے سحر و آسیب سے اپنی قوم کے دامن کوبچا کراور اپنی قیمتی وقت  کو اس میں صرف کرنے کے بجائےتخلیقی  کاموں میں صرف کرتےرہتے ہیں۔ اس طرح انکو بھر پور سوچنے چاروں اطراف دیکھ کر مشاہدہ کرنے  کا موقع ملتا ہے۔ اسکے بعد ایک  کامیاب منصوبہ   بندی کے تحت  کوئی کام  سر انجام  دیتے ہیں ،پھر جا کر  پوری دُنیا انکے کاموں کی معترف ہوجاتی ہے اور اپنی بنائی ہوئی چیزوں  کے اُپر اپنے ملک کا  نام کندا کراتے ہیں ۔دوسری طرف ہم غلامانہ ذہنیت رکھنے والی قوم  انگریزی زبان کو ایک بُھوت کی شکل میں اپنے اوپر سوارکر رکھے ہیں، اسی بُھوت  کی وجہ سے علم حاصل کرنا روز بہ روز مشکل ہوتا جارہا ہے اور آج طلباء کمرہ جماعت سے  بے زار او ر راہ  فرار  اختیار کر رہے ہیں۔اسی زبان کی وجہ سے نا خواندگی بڑھ رہی ہے اسی بناءپر شعور و اگاہی میں کمی پیدا ہو کرتنگ نظری کو تقویت ملتی ہے۔ اس سے منفی سوچ انسانی ذہن پر غالب آجاتی ہے  اور اسی کمزور فعل کی وجہ سےمعاشرہ انحطاط کا شکار ہو جاتا ہے۔آج  پاکستان میں تہرے نظام تعلیم  میں انگریزی ،دینی اور اُردو ہمارے  منفی سوچ کی تخلیق کردہ اور کمزور ذہنیت کی عکاس ہیں ، ان تینوں کا آپس میں ہم اہنگی ہر گز نہیں پائی جاتی ہے۔ حالانکہ سب علم سکھا رہے ہیں ، زبان مُختلف ہونے کی وجہ سے آپس میں اجنبیت پائی جاتی   ہے۔ اسی بناءپر ایک دوسرے کےخیالات  و ثمرات سے نا واقف رہ جاتے ہیں اور  اسی نا واقفیت کی وجہ سے  غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں ۔ انہی غلط فہمیوں اورعدم ہم آہنگی  کی بناء پر    انسان ایک دوسرے  کی وجود کو تسلیم کرنے سے گریز کرکے  آپس میں دست و گریبان ہو جاتے ہیں ۔ہم مختصرا”اسکو دہشت گردی اور دہشت گرد کے نام سے منسوب کرتے ہیں۔ یہی منفی سوچ  ملک میں خانہ جنگی افراتفری کا وسیلہ بنتا  جارہا ہے ۔

رے خیال میں  درج بالا تذکرہ  شدہ  پہلو ،ہمارے تخلیقی صلاحیتوں کو متاثر کرتی ہیں، ان سے نجات حاصل کرنے،ہم آہنگی پیدا کرنے اور انکی قلابیں  ملانے کےلئے ہمارے پاس صرف ایک ہی ذریعہ ہے وہ ہے اردو زبان ! اسکی صلاحیتوں کو بڑھا کراور سائنسی استعداد پیدا کرکے  مدرسوں  سے لیکر یونیورسٹی تک اسی زبان میں تعلیم دی جائے تاکہ  مدرسوں کے طلبا ءبھی یکساں طور پر سائنسی علوم کی آگاہی حاصل کر کے  ہم اہنگی پیداکرنے   کاذریعہ بن سکے ۔اسی طرح تخلیقی ذہنیت اور مثبت سوچ والی  نسل جنم لے کر ملک کوان  تمام مشکلات سے نجات دلایئنگے ،تاکہ پوری دُنیا کے لیےرحمت کے باعث بن کر یہ ثابت کرینگےاوردُنیا کو یہ پیغام دینگے کہ مسلمانوں کا شیوہ دوسروں کی فلاح و بہبود اور بہتری کیلئے ہمیشہ  فکر مند رہنا ہوتا ہے۔تا کہ ہم بحیئثیت مسلمان اپنی اردو زبان کو استعمال کر کے تخلیقی صلاحیتوں اور مثبت سوچ کو فروغ دے کر دُنیا کو اسلام اور مسلمان کی اصلی رُخ کو دیکھانے کی ذمہ داری کو پوری کر سکے۔ اسی زبان کے ذریعے سے ہی پاکستانی قوم میں  اتحاد و اتفاق پیدا کر سکتے ہیں اور اسی ذریعے سے ہی ملک میں  لگی آگ کو بجھا سکتے ہیں ۔یقیناً  دشمن پاکستان کے اداروں کو کمزور کرنے کوشش میں ہمیشہ مصروف ہے۔ان میں سر فہرست ہماری قومی زبان بھی ہے جو آج  دُنیا کی مقبول ترین زبانوں کی صف میں شامل ہو چکی ہے۔ اسکی اہمیت ،ضرورت  میں  اضافہ ہو چکا ہے۔ اردو زبان اہمیت ،ضرورت اورپھیلاو کے لحاظ سے دُنیا کی تیسری بڑی  زبان بن چکی ہے۔آج ستم ظریفی یہ ہے کہ جو ادارے ترقی کر رہے ہیں انکو بھیجا جا رہا ہے اور جو ادارے تنزلی کی طرف جا رہے ہیں انکو اُسی حالت پر چھوڑا جارہا ہے ۔اب اُردوزبان  دُنیا میں  مقبولیت کی مدارج کو طے کر رہی ہے، دوسری طرف پاکستان میں  اسے شدید نفرت پیدا ہو رہی ہے ۔ہماری فوج  دُنیا کی سب سے طاقتور فوج بن گئی ہے اب قوم اور فوج میں  خلاپیدا ہو چکا ہے ۔اس طرح بے شمار مثالیں موجود ہیں جنکا ایک ایک کر کے نام لینا مشکل عمل  ہے ۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آج ایک مخصوص طبقہ آئین اور   سپریم کورٹ سے مضبوط ہو چکاہے۔جب تک ملک میں آئین کی بالادستی اور عدالتی احکامات کی پاسداری نہیں ہو گی اُس ملک میں یقیناً بے یقینی کی فضاء قائم ہو  کر منفی سوچ جنم لے گی۔ہمیں محترم ڈاکٹر عطش دُرانی صاحب کےاس قول سے اتفاق کرنا پڑے گاکہ” اُردو دُنیاکی مقبول ترین زبانوں کی صف میں شامل ہونے کے ساتھ ساتھ  کافی حد تک جدید علوم کی  زبان بھی بن چکی ہے ،لیکن اسکے باوجود پاکستان میں اُردو کبھی بھی تعلیمی و سرکاری زبان نہیں بنے گی”۔ خدا کے فضل سے ہمارے اُردو کے دانشوروں ، حصوصی طور پر ڈاکٹر عطش دُرانی صاحب اورڈاکٹربادشاہ منیر بخاری صاحب   کے خدمات کو بھولنا اُردو اور پاکستان  سے محبت رکھنے والوں کے ساتھ زیادتی ہو گی کیونکہ انہی دانشوروں اور اُنکی ٹیم نے ا اپنی شب و روز محنت سے اُردوزبان  کو “یونی کوڈ “کے صف میں شامل کرانے کے مشکل پیچیدہ مرحلے کواحسن طریقے سے سر انجام دینے میں  کامیاب ہو گئے۔ اسی کوشش سے  آپکی تحریری مواد کے  ۸۰٪(اسی) فیصد حصہ بیک وقت دُنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوتا ہےاور انشاء اﷲ باقیماندہ۲۰٪ بیس فیصد پر جاری کام کا مرحلہ جلد مکمل ہو جائے گا۔ اسکا مطلب ہے ڈاکٹر صاحب اور اسکی ٹیم نے ترجمہ کا مسئلہ کافی حدتک  حل کر اچکی ہے ۔لہذا ہمارا ملک قائم رہنے کے لئے بنا ہےقائم رہے گا کیونکہ ہمیں  اس ملک میں ان  نیک ،محترم اور ُحب الوطن ہستوں کےہمراہ رہنا ہے۔لہذا ہمیں  علم کوپتھریلے ُمشکل راستوں سے منتقل کرنے کی تمام کوشیش ناکام  ہو چکے ہیں ،ہم مزید اسی کٹھن  راستےکی راہی بنے کے متحمل نہیں رہے ہیں لہذا اسی بھٹکےتھکےمسافروں کومزید ازمائیش میں ڈالے بے غیر  صاف شفاف راستے کی طرف منتقل کرنا وقت کی ضرورت بن چکی ہے،اب دیر کئے بے غیر قوم کے نونہالوں کو قومی زبان میں تعلیم دی جائے تاکہ قوم کے نونہالوں کی تخلیقی استعداد بڑھ جائے گی۔ تاکہ  پاکستانی قوم میں تخلیقی جواہر نمو پا کردُنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہونے کےقابل ہو سکے ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
پروفیسر شفیق احمد
پروفیسر شفیق احمد
+ رپورٹس/ کالم

پروفیسر شفیق احمد 1 جنوری، 1977ء کو پاکستان کے صوبہ سرحد کی وادی چترال کے گاؤں، رائین تحصیل تورکھو میں پیدا ہوئے۔ آپ ایک ماہرتعلیم، مدرس، لکھاری،پروفیسر اور محقق ہیں۔ اب آپ ہائیر ایجوکیشن خیبر پختونخوا میں اردو کے پروفیسر ہیں۔ اس کے علاوہ خیبر پختونخوا کے مقامی اخبارات کے لیے کالم بھی لکھتے ہیں۔

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔