دھڑکنوں کی زبان….’’یوم شہدائے پولیس‘‘ ی

……………محمد جاوید حیات ……….

وم شہدائے پولیس منایا جا رہا تھا ۔۔چترال پولیس چاق و چوبند تھی ۔پنڈال سجا تھا ۔تعداد میں کم مخصوص لوگ مہمان تھے۔ریٹائرڈ پولیس آفیسرز ،سیاسی عمائیدیں ،جی، سی ،ایم ، ایچ چترال کے چند طلباء اور ایک استاد،ڈگری کالج اور کامرس کالج کے پرنسپلز،علمائے کرام ،صحافی برادری اور پولیس کے جوان موجود تھے ۔۔۔مائیک آن ہوا ۔۔سٹیج سیکرٹری نے مہمانوں کا نام لے لے کے خوش آمدید کہا ۔۔لیکن قوم کے گریڈ بیس کے معماران بھی موجود تھے ان کا نام نہیں لیا ۔یہ اس قوم کے اساتذہ کا احترام ہے کہ بھری محفل میں ان کی موجودگی کا کسی کو اندازہ نہیں ہوتا ۔۔۔شہداء کی یادگار پر پھول چھڑہائے گئے ۔۔گریڈ بیس کے ایک پرنسپل کو پھول چھڑانے والے ساتھ لے جاتے تو اس کے پاتھ میں اچھے لگتے ۔۔شہداء کے ورثا موجود تھے ۔اللہ کے پاک نام اور کلام سے تقریب کا آغاز ہوا۔مولانا اسرار الدین الہلال نے فلسفہ شہادت پر روشنی ڈالی۔انھوں نے راتوں کو لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کی خاطر پہرہ دینے والوں کو مجاہد کہا ۔۔انھوں نے پاک فوج اور پولیس کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا ۔انھوں نے شہادت کو مومن کا مقصد اولیں کہا ۔۔انھوں نے کہا کہ زندہ قوموں کے زندہ ہونے کا ثبوت اس کے شہداء ہیں۔۔ضلعی خطیب مولانا فضل مولانے فرض شناسی پر تفصیل سے بحث کی انھوں سے کہا کہ مقررہ وقت میں پروگرام شروع کرنا بھی فرض شناسی کی دلیل ہے ۔۔انھوں نے وقت کی اہمیت پر زور دیا ۔انھوں نے کہا ہم میں سے ہر ایک نگہبان ہے ہر ایک کے فرائض ہیں ۔تو لازم ہے کہ فرائض کا احترام کیا جائے ۔غفلت اور لاپرواہی قوموں کو لے ڈوبتی ہے ۔۔انھوں نے یوم شہادت کے موقعے پر پولیس کی شاندار قربانیوں کو سراہا ۔۔اور فخرکا اظہار کیا ۔۔طالب علم صفدر احمد نے کہا ۔کہ یہ مٹی زرخیز ہے یہاں سے شیر اٹھتے ہیں ۔اس کے لفظ لفظ میں عزم تھا۔ڈی پی او چترال ۔۔نے خطاب کرتے ہوئے فورس کی قربانیوں کا ذکر کیا ۔۔انھوں نے کہا ہم قوم کی راحت کی خاطر اپنی نیندیں پیش کرتے ہیں ۔ہمیں اپنی جان کی اتنی پرواہ نہیں جتنی قوم کے جان و مال کی پرواہ ہے ۔ہماراکام جاگنا ہے ۔ہم زندہ قوم کے زندہ محافظ ہیں ۔ہمیں اس بات کا احساس بھی ہے اس پر فخر بھی ہے ۔تم ہمارے دست و بازو ہو ۔۔تمہارا حوصلہ اور ہماری قربانیاں مل کر ہر مصیبت کو ٹال سکتے ہیں ۔جن اکھیوں سے نیند کوسون دور ہوتی ہے وہ شاہین کی اکھیاں ہوتی ہیں لہذا ہماری شاہینی میں شک ہی کیا ہے ۔۔انھوں نے اس دن کے حوالے سے اس دھرتی کو ہر آفت سے محفوظ رکھنے کا عزم کیا ۔۔انھوں نے سب مہمانوں کا شکریہ ادا کی ۔۔ضلعی ناظم نے کہا کہ سر زمین پاک میں اللہ کا پاک دین نافذہونا چاہیے تاکہ ساری بدامنیاں اور پریشانیاں دور ہوں ۔۔انھوں نے پاک فوج ، سکیوریٹی فورسس اور پولیس کے جوانوں کی جرائت کو سلام پیش کیا کہا کہ قوم پل پل تمہارے ساتھ ہے ۔انھوں نے کہا کہ چترال پولیس کی ایک اپنی روایت ہے ۔وہ ماں کی گود سے شرافت سیکھ آتی ہے ۔انھوں نے زمہ داروں سے اپیل کی ۔کہ اپنا رویہ نرم رکھیں اور خلوص سے قوم کی خدمت کریں ۔۔شہداء کے ورثا ء کو پھول پیش کئے گئے۔بچوں کو انعامات دئے گئے ۔۔خطیب شاہی مسجد مولانا خلیق الزمان نے دعا کی ۔۔آخیر میں چائے پلائی گئی۔۔
یہ دن عزم کا بھی تھا تجدید عزم کا بھی تھا ۔پک سر زمین کو یہ فخر حاصل ہے کہ تیرہ کی جنگ میں اس کی فوج اور پولیس کے آفیسرز سب زیادہ شہید ہوئے ۔۔اور دنیا پر واضح ہو گیا کہ زندہ قوموں کے جنرلز فرنٹ لائین میں لڑنے کے لئے ہوتے ان کے پویس آفیسرز ان کے پویس آفیسرز کا کام برائی کو خود اپنے ہاتھوں جھڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے ۔۔یہ دنیا پر ثابت ہو چکا ہے کہ پاکستان کے محافظ شیر دل ہیں ۔۔یہ موت سے محبت کرنے والے انمول ہوتے ہیں ۔۔ایسے محافظوں کے ہوتے ہوئے ’’یوم شہادت ‘‘منانا ایک اعزاز سے کم نہیں ۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔