دیوانوں کی باتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔( میرا یو۔ایس ویزا اور فضائی حادثہ ) اخری قسط
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر: شمس الحق قمر ؔ بونی حال گلگت
ہمارا جہاز زخمی پنچھی کی طرح زمیں کی جانب گرنا شروع ہوا ۔ میری نظر ایک بار پھر کھڑکی سے باہر گئی کیا دیکھتا ہوں کہ میری طرف والے انجن میں آگ لگی ہوئی ہے ۔ میں نے پائلٹ کو چیخیں مار مار کے آواز دینی شروع کی ’’ انجن میں آگ لگی ہوئی ہے جہاز کو بچاو ! ‘‘ میری بات کا کوکوئی اثرنہ ہوا اگر ہوتا بھی تو بے چارہ پائلٹ کیا کرتے ۔ میں نے سوچاکہ اب آگے جاکے پائلٹ کو بتانا ہی پڑے گا کہ جہاز میں آگ لگی ہے اور ہماری جانیں خطرے میں ہیں۔ میں اپنی سیٹ سے اُٹھ کر جیسے ہی کاک پٹ کی جانب لپکا تو جہاز میں موجود ہتھیار بردار کمانڈو نے مجھے داہنے بازو سے پکڑ کر اپنی پوری زور سے دوبارہ سیٹ کی جانب کچھ اس اداسے پھینک دیا کہ اپنی سیٹ پر گرتے ہوئے میرے بائیں بازو پر شدید چوٹیں آئیں ۔ مجھ پرغنودگی طاری ہوئی۔ نیم غنودگی کی حالت میں نہ جانے کیوں میری تمام تر توجہ ویزا کی حصولی کی رکاوٹوں پر مبذول ہوگئی ۔ سوچا کہ اب ہم جب مریں گے تو بھائی کو کتنا افسوس ہوگا وہ سوچے گا کہ میں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے بھائی ، بھتیجے اور بھابھی کو مار ڈالا اگر میں ویزا کے لئے کوشش نہ کرتا تو وہ لو گ ویزا کے لئے کوشش کرتے اور نہ یہ حادثہ آتا ۔ میں کہاں امریکہ کا ویزا کہاں ۔میں تو اتنا مفلوک الحال ہوں کہ شام کا کھانہ کھاکے صبح کے ناشتے کے لئے ہزار بار سوچتا ہوں۔ کجا عاشق کجا کالج ۔ یہ تو بھائی ہی ہیں جو کہ ہمارے ویزا کے لئے تمام اخراجات بر داشت کر رہے تھے ۔ قصہ یہ ہے کہ میرے چھوٹے بھائی احسان نیویارک میں بہ سلسلہ ملازمت گزشتہ دو سالوں سے مقیم ہیں ۔ اپنی اولیں فرصت میں اُنہوں نے مجھے امریکہ دکھانے کی سرتوڑ کوشش کی ۔ میں نے انہیں ہزار بار منع کیا کہ ہمارے بہت بڑے کنبے کے تم ہی کفیل ہو ۔ ہمیں امریکہ بلانا ، ویزا لینا اور پھر اُدھر لے جا کے گھمانا آپ کی جیب پر گراں گزرے گا ۔ لیکن بھائی بضد تھے کہ میں ، میری بیوی اور میرا بچہ ضرور امریکہ کی سیر کر جائیں ۔
ہم نے اپنی تیاری شروع کی چنانچہ ۲۰ اکتوبر ۲۰۱۵ ء کو ہم نے پاسپورٹ بنانے گلگت سے چترال کی طرف رخت سفر باندھ لیا ۔ اس پورے کام کے لئے جو اخراجات مجھے خود برداشت کرنے تھے وہ صرف یہاں سے چترال اور چترال سے یہاں کا کرایہ تھا ۔ باقی تمام ذمہ داری بھائی جان نے اپنے سر اُٹھا رکھی تھی۔ چترال کا یہ بے وقت سفر مجھ جیسے مالی طور پر نا آسودہ انسان کو معاشی طور پر مفلوج کرنے کے لئے کافی تھا ۔ میں نے اپنی گاڑی میں تیل بھر دیا تو جیب کافی ہلکی معلوم ہوگئی ۔ خیر دن دو بجے گلگت سے چترال کے لئے سفر کا آغاز کیا ۔ شروع میں سوچا تھا کہ پھنڈر میں کسی ہوٹل میں رات گزاریں گے لیکن اپنی جیب دیکھ کر ہم نے فیصلہ کیا کہ پھنڈر کے آخر میں گولوغ موڑی کیشروعمیں پل کے بالکل اوپر میرے ایک دوست شیر حاصل کا گھر ہے وہاں رات گزارنے میں ہی بھلائی ہے اور ۲۱ کی صبح وہاں سے روانہ ہوں گے ۔ یہی ہوا ۔ہم شیر حاصل کے گھر گئے ۔ بڑی او بھگت ہوئی ۔ جواں سال خوش گاؤ ابھی ابھی ذبح ہوئی تھی ۔ رات کو خوب ضیافت اُڑائی ۔ اُدھر گلگت میں اُسی وقت شور برپا ہوا کہ میں ملازمت چھوڑ کے فیملی سمیت امریکہ نکل گیا ہوں ۔بہر حال صبح سویرے ہم روانہ ہوئے جیسے ہی شندور پہنچے تو دیکھا کہ موسم سرما کی پہلی مگر ہلکی برف باری سے زمین نے سفید چادر اُڑھ رکھی ہے ۔ ہم جب گزر رہے تھے تو موسم کافی خراب تھا ۔ ہم جیسے ہی شندور کے اُس پار لاسپور پہنچے تو خوب بارش شروع ہوئی ۔ ہم بخیر و عافیت اپنے آبائی گاؤں بونی پہنچ گئے ۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ایک دو دن سستا کے ۲۶ اکتوبر کو مرکزی چترال جائیں گے اور اپنے پاسپورٹ بنائیں گے ۔
۲۶ اکتوبر ۲۰۱۵ ء کے دوپہر ہم چترال روانگی کے لئے تیار ہو گئے جیسے ہی گاڑی کے دروازے کو کھولنے کے لیے پکڑا ہی تھا کہ گاڑی مجھ سے چھوٹ گئی ایسا لگا کہ گاڑی نے خود جست لگائی اور اچھل گئی ۔ یہ ۲۶ اکتوبر ۲۰۱۵ کا ہولناک زلزلہ تھا جسکا مرکز چترال سے ۶۰ کلومیٹر دور افغانستان میں تھا ۔ کسی اسلامی کتاب میں پڑھا تھا کہ جب قیامت ہوگی تو یہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر روئی کی طرح اُڑیں گے ۔۔۔ بالکل وہی منظر ہوا آس پاس کے پہاڑ نظر نہیں آرہے تھے بس دھواں ہی دھواں تھا ۔ سب لوگ اللہ تعالی کو اپنے اپنے انداز سے یاد رکر رہے تھے ۔ مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں اور کیا کہوں کیوں کہ جو کچھ ہونا تھا اُسی ایک لمحے میں ہوا تھا اب اللہ کو یاد کرنا بھی میری نظر میں بے سود تھا ۔ میں نے اپنے مرکزی چترال جانے کا پروگرام ۲۷ اکتوبر تک ملتوی کیا اور محلے کے کچھ زخمیوں کو لیکر ہسپتال کی طرف روانہ ہوا ۔ بونی کے دونوں ہسپتال ( گورنمنٹ اور آغا خان) زخمیوں سے اٹا اٹ بھرے پڑے تھے۔ زلزلہ اتنا زور دار تھا کہ پہاڑوں میں دراڑیں پڑ گئیں تھیں کوئی گھر سلامت نہ تھا لیکن اللہ کا کرم یہ تھا کہ اس گاؤں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا ۔ رابطہ سڑکیں، پل اور زرائع مواصلات سب مفقود ہوا تھا ۔ ۲۹ اکتوبرکو چترال بونی روڑ جزوی طور پر کھل گیا اور ہم بجائے دو گھنٹوں کے چار گھنٹوں میں سنٹر چترال پہنچ گئے ۔ ویزا بنانے والا آدمی اپنے اوقات کار کا پابند اور اصولی آدمی تھا ۔ ہم نے اپنی باری کا انتظار کیا اور اُن صاحب نے اپنے پیشہ وارانہ مسکراہٹوں سے ہماری تصاویر بنائیں اور ہم نے دوبارہ گلگت آکر بھائی کو فون کیا کہ ہمارے پاسپورٹ بن چکے ہیں ۔ بھائی نے اپنی ملازمت سے اچھا خاصا وقت نکال کر ہمارے ویزا کے کاغذات میں کام کرنا شروع کیا ۔میں نے اُنہیں بار ہا کہا کہ اتنی تکلف کی ہر چند ضرورت نہیں پھر کبھی سہی لیکن وہ کسی بھی صورت میں جولائی ۲۰۱۶ کی گرمیوں کی چھٹیوں میں ہمیں ریاست ہائے متحدہ کی ایک مشہور ریاست،ِ نیو یارک کے نیو جرسی نامی ایک قصبے میں دیکھنا چاہتے تھے ۔ ویزا کے اطلاق تک ہمیں کئی ایک مراحل سے گزرنا پڑا ۔ ویزا لگنا یا نہ لگنا الگ بات تھی لیکن ویزا حاصل کرنے کا یہ سلسلہ بہت ہی اذیت ناک گزرا ۔ مجھے امریکی سفارت خانے سے کئی دفعہ فون موصول ہوتے رہے ۔ غیر ضروری معلومات پوچھی گئیں اچانک فون آجاتا سفارت خانہ والے پوچھتے’’ کتنے بہن بھائی ہیں، کبھی ہسپتال میں بیمار ہو کے داخل ہوئے ہو؟ اگر ایسا ہے تو ہسپتال کا نام ۔ کبھی وزیرستان کا چکر لگا ہے ، افغانستان کتنی مرتبہ گئے ہو ، تمہارے خاندان میں کوئی افغانستان گیا ہے ‘‘ میں بہت مضطرب رہا مجھے ایسا لگتا تھا کہ میں کسی کا قاتل ہوں جو مجھ سے کرید کرید کر سوالات پوچھ کے اقرار جرم کروایا جا رہا ہے ۔ بہر حال میں جواب دیتا رہا ۔ یوں مجھے امریکی سفارت خانے میں انٹر ویو کے لئے بلایا گیا ۔ جب گیا تو اسلام آباد میں ہزاروں گلی کوچوں سے سفارت خانے کی بس میں گھمایا گیا ۔ مختلف سفارت خانوں میں مختلف ملک جانے والوں کو اُتارا جاتا آخر کار ہمارا سفارت خانہ آگیا ۔ ہمیں خوب ٹٹول کر تلاشی لی گئی میرے جسم کے بعض ایسے خفیہ خانوں میں بھی سکیورٹی افسروں نے ہاتھ ڈالے جس پر میں ہتک عزت کا دعویٰ آسانی سے کر سکتا تھا لیکن موقعہ ایسا نہیں تھا ۔ سیکو رٹی آفسروں کو میرے جسم کے اپنے فطری اعض�أ کے علاوہ جب کچھ بھی ہاتھ نہ آیا تو اندر جانے کے مستحق ٹھہرے ۔ اندر بھی چار پانچ جگہوں سے گزارتے ہوئے جب آخری جگہ میں داخل کیا گیا تو ہمارے پاس پاسپورٹ اور ستر پوشی کے زیب تن پھٹے پرانے کپڑوں کے سوا اور کچھ باقی نہیں رہا تھا۔ سب سے پہلا کام انہوں نے یہ کیا کہ ہمارا قد ناپا ۔ہمیں ٹوکن دیتے ہوئے کھڑکی نمبر پانچ پر جانے کو کہا گیاو ہاں ہمارے کاغذات کی نظر تدقیق سے پڑتال کے بعد ہمیں ایک اور کھڑکی پر بھیجا گیا جہاں ایک ادھیڑ عمر کی امریکی خاتوں بیٹھی ہوئی تھیں ۔ اُن کے مردنی چہرے پر ایک نقلی مسکراہٹ تھی اُسے دیکھ کے لگتا تھا کہ عمری قید کی سزا کاٹ رہی ہے ۔ہمارے کاغذات لئے۔ تھوڑی دیر بعد ایک زرد رنگ کا کاغذ تھماتے ہوئے بولیں کہ “I am sorry, you are not elligible for this tour”