دیوانوں کی باتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( کارگین بھی پاکستان کا ایک گاؤں تھا )

تحریر: شمس الحق قمرؔ بونی

اگرراہنمابے حس ہوں تو اُس قوم پرف پر دشمن ہی حملہ نہیں کرتا بلکہ فطرت بھی اُس قوم کی دشمن بن جاتی ہے ۔ قوموں کو تر و تازہ ، ہوشمند اور زندہ پائندہ رکھنے ، اُن کی آبرو اور جان و مال کی نگہداشت کی زمہ داری اُس قوم کے راہنماؤں کے شانوں پر ہوتی ہے ۔ قوم اُس وقت کمزور، نکمی اور علیل ہوتی ہے جب اُن کے راہنماأ بے حس ہوں ۔ بے حسی ایک ایسی بیماری ہے کہ انسانی بدن گھائل ہوتا ہے ، چوٹیں لگتی ہیں ، گہرے زخم پڑتے ہیں لیکن بے حس انسان کو معلوم نہیں ہوتا ہے کہ اُس کا بدن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا ہے اور اُس کی زندگی خطرے میں ہے ۔ بے حسی کی بیماری اپنے ساتھ کم ظرفی کو بھی لاتی ہے ۔ کم ظرف انسان اپنی بے حسی کو اپنی بہادری سمجھتا ہے وہ کہتا ہے کی دیکھ میں کتنا دلیر ہوں کہ میرا بازو ٹوٹ رہا ہے مجھے درد نہیں ہوتا ، میری آنکھ نکل رہی ہے مجھ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو تا۔ یہی حال ہمارے نام نہاد سیاسی لیڈرو کا بھی ہے ۔ سب کچھ لٹ جانے کے باوجود بھی اِن کے کانوں میں جوں تک رینگنے کی توفیق نہیں ہوئی ۔ یہ سب اپنے لئے بٹورنے کے چکروں میں ہیں۔ کچھ لوگ تو خاندانی ڈاکو ہی نکلے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے جیسے انہوں نے ہمارے حقوق تلف کرکے اپنے توند تہ در تہ نکالنے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے ۔ اِن کا صرف پیٹ ہی پیٹ ہے باقی جسم کے حصوں کے ساتھ اُن کاکوئی تانہ بانہ نہیں ہے ۔ ہمارے یہ نام نہاد راہنما جب اپنے پیٹ تک محدود رہنے لگے تو بے حسی کے عارضے نے انہیں اپنے شکنجے میں دبأ دیا ۔ بے حسی اور کم ظرفی کے مہلک مرض میں مبتلا ان گندم نما جو فروشو ں کو یہ معلوم نہیں کہ جس علاقے میں وہ رہ رہے ہیں وہ علاقے موسمی نا ہمواریوں کی وجہ سے صفحہ ہستی سے مٹ رہے ہیں ۔ کسی زمانے میں لب دریا ایک سر سبز گاؤں ہوا کرتا تھا جسے جنالکوچ کہتے تھے۔ وہ گاؤں کٹتا رہا ، ٹوٹتا رہا اور ایک دن مکمل طور پر دریا برد ہو گیا لیکن ہمارے سیاسی نمائندوں کی بے حسی میں کوئی فرق نہ آیا ۔ ان بے گھر لوگوں نے جنالکوچ کے اوپر اخدا کی بنجر زمیں پر اپنی زندگی کا حق جتانے کی کوشش کرتے ہوئے سر چھپانے کے لئے چھونپڑے بنائے لیکن معلوم یہ پڑا کہ یہ خدا کی نہیں بلکہ حکومت پاکستان کی ملکیت ہے جس پر علاقے کے بے گھر لوگوں کے پاس آباد کاری کا کوئی قانونی جواز موجو د نہیں ہے ۔ کسی نے اُن بے را و مددگار لوگوں کے حق میں کوئی بات نہ کی اور ہمارے بے حس لیڈروں کے لبوں میں کم ظرفی کے قفل بدستور لگے رہے ۔ اسکے بعد دریا کی زد میں آکر ریشن سے متصل سر سبز و شاداب اور پرانا گاؤں گرین لشٹ معدوم ہوا ، ہمارے سیاسی راہنما ؤں کو صرف ایک حفاظتی پشتے بنانے کی بھی توفیق نہیں ہوئی ۔
ہم یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ قدرت کی طرف سے بعض آفات ایسی آتی ہیں کہ جنہیں روکنا انسانی بس سے باہر ہوتا ہے جیسے ہولناک زلزلے اور ناگہانی سیلابی ریلے ۔ قوم ان حالات میں کسی سے بھی گلہ شکوہ نہیں کرتی ، اپنی بساط کے مطابق اپنی مدد آپ کے تحت اپنے آپ کی حفاظت کرتی ہے ۔ تاہم کچھ واقعات اسیے ہوتے ہیں جنکا اگر قبل ازوقت تدارک کیا جائے تو نقصانات کے خدشات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ جیسے دریاؤں میں تغیانیوں کی وجہ س زمین کا کٹاؤ، رابطہ پلوں کی اُکھاڑ اور پہاڑوں میں جنگلی بیل بوٹوں کی بے دریغ کٹائیکے نقصانات وغیرہ ایسے عوامل ہیں کہ جن کے اوپر مل بیٹھ کر باہمی افہام و تفہیم کیساتھ بہت کم پیسے سیان تمام نقصانات سے بچا جا سکتا ہے ۔اگر ابتدائی مراحل میں بھی’’ ہنوز دلی دور است‘‘ کا فارمولا اپنایا گیا توحالات اُن خطوط پر پہنچ جاتے ہیں کہ جہاں ہم خطرے کی لال لائینکھینچ کر خود اپنی جانیں بچاتے ہیں باقی سب کچھ لُٹ جاتا ہے۔
ہم گزشتہ کئی سالوں سے دیکھ رہے ہیں کہ سب ڈویژن کا ہنستا بستا بستی دریائے یارخون کے جہنم نما منھ کا نوالہ بنتا جا رہا ہے ۔ گارگین پاکستان کے خطے میں زمین کا ایک ایسا ٹکڑا تھا جو کہ اپنی زرخیز مٹی ، چشموں سے چھاج کی مانند امنڈتا صاف و شفاف پانی ، خوشگوار اور تروتازہ آب و ہوا ، ہر طرح کی سبزی اور میوہ جات،مہمان نواز اور پر امن باسی ، نایاب جنگلی جڑی بوٹی اور خوربصورت پرندوں کے حوالے سے دنیا میں اس گاؤں کی مثال اور نہیں نہیں ملتی تھی۔ گزشتہ چار سالوں سے علاقے کے لوگوں خاص کر نوجوانوں نے حکومت وقت کے سرکاری اداروں اور سیاسی نمائندوں کی توجہ اس خطرناک امر کی طرف مبذول کروانے کی سر توڑ کوشش کرتے رہے لیکن کوئی خطر خواہ چارہ جوئی نہیں ہوئی البتہ انتا ضرور ہوا کہ سرکار کی طرف سے کچھ خالی بوریاں متاثرین کو مفت میں دی گئیں تاکہ وہ اُن بوریوں میں ریت ڈال کر دیسی حفاظتی پشتے بنائیں۔ بھر بھی لوگ ضلعی سرکار کا احسان مند رہے کہ ضلعی سرکار نے اپنی بساط کے مطابق اعانت کی ۔ یہاں ہمارے سیاسی نمائندے تشریف لائے کچھ بے گھر لوگوں کو رہنے کے لئے ایک دو پٹھے پرانے تمبو دے دیے اور کچھ اس ادا سے چلے گئے کہ گویا انہوں نے متاثرین کو مالامال کیا اور اپنے فرض منصبی کما حقہ نبھاگئے ۔ یہاں سے جو جو لوگ بے گھر ہوگئے اُ ن کی اکثریت دوسرے گاؤں جیسے چپاڑی ، بریپ ، کھوژ اور مستوج وغیرہ میں اپنے رشتہ داروں کے یہاں گوشہ سکونی کر رہے ہیں اور کچھ کارگین ہی کے کٹاؤ سے محفوط مقامات کے ہمسایوں کے یہاں رہنے لگے ہیں ۔ یہاں ہزاروں ایکڑ زمین دریا برد ہوئی ہے جس سے کہ سالانہ اربوں روپے کی زرعی فصل اُگتی تھی ۔ حکومتی کارندے اور ہماری سیاسی بھیڑئے ہر سال یہ یقین دہانی کرتے ہیں کہ گرمیوں میں دریا اپنے جوبن پر ہوتا ہے لہذا اس پر کا کرنا اور حفاظتی پشتے باندھنا مشکل ہے ۔ یوں مظبوط حفاظی پشتے پر کام کے لئے سردیوں کے موسم کا حوالہ دیا جاتا ہے اور جب سردیاں آجاتی ہیں تو ہمارے نمائندے اپنے کنبوں سمیت پاکستان کے ایسے گرم اور گنجان آباد شہروں میں جاکر غائب ہوتے ہیں کہ جہاں سے کوئی بھی چور پکڑنے والا تربیت یافتہ کتا ان مفروروں کو ڈھونڈنکالنے میں ناکام ہو جاتا ہے ۔ ہم جب ٹیلی وژن میں دوسرے ممالک کی حکومتوں اور سیاسی نمائندوں کو دیکھتے ہیں تو اپنی طرف دیکھتے ہوئے شرم سے سر گھٹنوں میں دب جاتا ہے ۔ دوسرے ممالک میں حکومت کے بڑے بڑے لوگ سائکلوں پر سواری کرتے ہیں۔ عوامی بس میں سفر کرتے ہیں۔ ہمیشہ اپنے لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں ۔عوام کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتے ہیں اور عوام کی خوشی کو اپنی مسرت و شادمانی سمجھتے ہیں ۔ اِدھر کی گنگا بالکل اُلٹی ہے ۔ لگتا ہے کہ یہ ملک نہیں بلکہ لاوارث ، آوارہ اور بازاری طوائف ہے جو اوباش لڑکوں کے ہتھے چرھ گئی ہے ۔ سب اسے نوچنے اور کھانے کے چکروں میں ہیں۔ کہیں سے کوئی ٹکڑا کٹ بھی جائے تو کوئی مئلہ نہیں جتنی باقی ہے اُسے ہڑپ کرتے جاو ۔کیا بہتر یہ نہیں تھا کہہم اس گاؤں کو کسی دشمن کے یہاں گروی رکھتے اور اپنے حالات درست ہونے پر واپس لیتے ۔ کم از کم یہ جگہ آباد تو رہتی دریا برد نہ ہوتی ۔ اب تو یہ صورت حال ہے کہ کھنڈرات سے پتہ چلتا ہے کہ کارگین بھی کبھی پاکستان کا ایک گاؤں ہوا کرتا تھا ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔