صدا بصحرا….شہری سہولیات اور میونسپل قوانین

…………ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ……….

باہر سے آنے والوں کو پشاور پہلے سے زیادہ صاف اور خوبصورت اور بہتر نظر آتا ہے تا ہم اندرون شہر رہنے والے لوگ مطمین نہیں ہیں۔ حکومت نے میونسپل سر وسز کے لئے قائم نجی کمپنی کا دائرہ ڈویژنل ہیڈکوارٹر تک بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ اور عندیہ دیا ہے کہ بتدریج اس کو ضلعی ہیڈ کوارٹر تک متعارف کر ایا جا ئے گا۔نجی کمپنی صرف کوڑا کرکٹ اٹھا تی ہے اور شہر کی صفائی کاکام کر تی ہے۔ شہری سہولیات اور میو نسپل سروسز میں چھہ دیگر شعبے آتے ہیں۔شہری سہولیات اور زمین کے بہتر استعمال کی منصوبہ بند ی اس کا ایک شعبہ ہے۔ بلڈنگ کنڑول اس کا دوسرا شعبہ ہے سیوریج کے نظام کی بہتر منصوبہ بندی اس کا تیسرا شعبہ ہے جبکہ شہریوں کو پینے کا صاف پانی کی فراہمی اس کا چوتھا شعبہ ہے۔ فائر بریگیڈ کا موثر ا نتظام اس کا پانچواں اور بازار کے اندر بکنے والی اشیائے خوراک کی صفائی ، تیاری کے معیار اور نرخوں کی جانچ پر تال اسکا چھٹا شعبہ ہے۔باقی سارے کام ان شعبوں کے زیل میں آتے ہیں۔ غیر ملکی اخبار نویس نے ایک پہاڑی ضلع کا دورہ کیا اس کو شوق تھا کہ شہر میں صفائی کی صورتحال دیکھیں گلی کوچوں میں گندگی غلاظت تجاوزات اور گند ے نالوں کی بد بو سے اسکا جی اکتایا۔تو ایک ایک سنئیر اخبار نو یس اس کو لیکر دریا کے کنارے چلا گیا یہ بڑا دریا تھا اور انٹر نیشنل واٹر تھا 10 مقامات پر سرو س اسٹشن بنے ہو ئے تھے گندہ پانی دریا میں گر رہا تھا چار مقامات قصا ب خانوں کا خون دریا میں جا رہا تھا پوری گندگی اوجڑی وغیرہ دریا میں ڈالے جا رہے تھے۔ دو مقامات پر شہر کی غلاظت کو میونسپل کمیٹی کے ٹرک میں لدکر دریا برد کیا جا رہے تھے یہ تمام سہولیات تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کی ہیں۔ قصاب خانے ان کے اپنے ہیں سروس سٹیشن ان کے حکم سے بنائے گئے ۔ غلاظت دریا میں ڈالنے والا ٹرک ٹی ایم اے کی ملکیت ہے اور ٹی ایم اے کا عملہ یہ کام کرتا ہے۔ غیر ملکی اخبار نو یس نے نویس نے پوچھا کیایہاں میونسپل لاز نہیں ہیں۔ میں خاموش رہا۔ اس نے دوسری بار پوچھا تو میں نے کہا کوئی قانون نہیں ہے اگر میں کہتا قانون ہے اس پر عمل نہیں ہو تا تو یہ اور بھی بری بات ہو تی غیر ملکی اخبار نویس نے سوال کیا کہ یہاں کی منتخب لو کل گورنمنٹ کیا کر تی ہے ؟ میرے پاس اس سوال کا ایک ہی جواب تھا ۔
میں کچھ بھی نہیں کر تا وہ آرام کرتے ہیں
میں اپنا کام کر تا ہوں وہ اپنا کام کرتے ہیں
مگر میں نے انگریزی بو لنے والے مہمان کو اردو کا شعرسنانے کی جگہ دیسی انگریزی میں بتایا کہ لو کل گورنمنٹ کے اختیارات ’’ نان لوکل‘‘ کے پاس ہیں۔ 5 روپے کا خرچ ہو۔ معمولی کام ہو چھوٹی سی سہولت ہو۔ صوبائی دارالحکومت کی پیشگی منظوری کے بغیر ایک اینٹ کو ایک جگہ سے اُٹھا کر دوسرے جگہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہمارے ہاں لوکل گورنمنٹ سسٹم کی جگہ 2015 میں نان لوکل گورنمنٹ سسٹم لایا گیا ہے غیر ملکی اخبار نویس حیران ہوا اُس نے تعجب کے ساتھ قصاب خانے کو دیکھا قصاب خانے سے دریا میں گرنے والے غلا ظت کی دس بارہ تصویریں اتاری اور ویڈیو بنا کر لے لیا چند دنوں کے بعد youtube پر یہ مواد سب کے لئے دستیاب ہو گا ۔ میں نے غیر ملکی اخبار نویس کو چار مقامات پر ایسی عمارتیں دیکھائی جنکے ڈبلیو سی کی غلا ظت بازار کی چھوٹی سی نالی میں بہائی جا تی ہے۔ میں نے اسکو بازار کی تنگ گلیوں میں ایل پی جی کی دوکانیں دیکھائی میں نے اسکو بازار کی تنگ گلیوں میں سریا تولنے کے بڑے ترازو دیکھائے میں نے اسکو چھوٹی چھوٹی تنگ گلیوں میں مر غیو ں کے ڈربے اور مر غی زبح کرکے فروخت کرنے اور غلا ظت کو گلی میں پھینکنے کے مناظر دیکھا ئے میرے ایک دوست نے کہا ایسا مت کرو وطن کی عزت کا مسئلہ ہے میں نے کہا یہ عوام کی صحت کا مسئلہ ہے شہریوں کے حقوق کا مسئلہ ہے لوکل گورنمنٹ کے فرائض کا مسئلہ ہے اگر کالام ، بہرین ، منگورہ ، سیدو شریف ، تیمر گرہ ، دیر اور چترال کی خبریں مقامی میڈیا کے ذریعے حکومت کو نہیں پہنچ رہی ہیں تو اس کا متبادل یہ ہے کہ ان خبروں کو تصاویر کیساتھ بین الاقوامی میڈ یا میں لا یا جا ئے غیر ملکی اخبار نویسوں کا دیکھایا جا ئے۔ جو حکمران اُردو اخبارات کے تراشے پڑھنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں ان کو پہاڑی اضلاع کی خبریں واشگٹن پوسٹ، نیویارک ٹائمز لی فگارو کے ذریعے بھجوانی ہو نگی۔ عمران خان نے خیبر پختونخوا کے بلدیاتی نظام کو پورے ملک کے لئے مثال بنانے کا عزم کیا ہے صوبے کے وزیر بلدیات عنایت اللہ نے بھی بار بار بار اس عزم کو دہرایا ہے مگر ساڑے تین سال گزر نے کے باوجود لینڈ یوز پلا ننگ پر کام نہیں ہوا ۔ بلڈنگ کنڑول پر کام نہیں ہوا۔ ہیلتھ اور ہائی جین پر کام نہیں ہوا۔سیوریج سسٹم پر کام نہیں ہوا اضلاع کی سطح پر بازاروں کی صفائی پر کام نہیں ہوا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہر شہری سہولیات کی فراہمی کے اختیارات مقامی سطح پر کام کرنے والے ما تحت افیسروں کو منتقل کرنے پر کام نہیں ہوا ۔ سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ منتخب نمائندوں کو اختیارات دینے کا آغاز نہیں ہوا شہری سہو لیات اور میو نسپل قوانین کا پورا نظام ہوا میں معلق ہے لٹکا ہوا ہے ۔ڈوری کا سرا کسی کو نہیں ملتا عمران خان اسد عمر جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کو اس پر بھی تو جہ دینی چا ہیئے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔