داد بیداد ………200شخصیات کی کامیابی

……………ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ …………

ایک کروڑ غیور بہادر اور نڈر پختونوں کی آبادی ایک طرف تھی 200طاقتور شخصیات کا چھوٹا سا گروہ دوسری طرف تھا اخبارات میں گزشتہ دو دنوں کے اندر شائع ہونے والی خبروں کے مطابق 200 طاقتور شخصیات کا چھوٹا سا گروہ دوسری طرف تھا۔ اخبارات میں گذشتہ دو دنوں کے اندر شائع ہونے والی خبروں کے مطابق 200 طاقتور شخصیات کا چھوٹا ساگروہ جیت گیا ایک کروڑ قبائل کی آبادی ہار گئی ایف سی آر کا خاتمہ 10 سال کے لئے موخر کر دیا گیا قبائلی علاقوں میں پولیس رولز ، ماتحت عدلیہ کی عدالتیں ، قانون کی حکمرانی صوبائی اسمبلی میں نمائند گی ، صوبائی کا بینہ میں نمائیندگی دینے کا معاملہ 10 سالوں کے لئے مو خر کر دیا گیا ایک بار پھر سرد خانے میں ڈال دیا گیا 200 طاقتور شخصیات کا مفاد ایک کروڑ عوام کے اجتماعی مفاد سے افضل ہے یہ ایک سال پہلے کی بات ہے 2015 میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے فاٹاسے ایف سی آر کے خاتمے کے لئے سفارشات تیار کرنے کے لئے کمیٹی قائم کر کے عند یہ دیا تھا کہ قبائلی عوام کو آزادی ملے گی انصاف تک رسائی ، صوبائی اسمبلی میں نمائندگی ملے گی صوبائی کا بینہ میں نمائندگی ملے گی کمیٹی میں بڑے بڑے لوگ تھے ،قومی سلامتی کے مشیر لفٹننٹ جنرل (ر) ناصر جنجو عہ ، امور خارجہ کے مشیر سرتاج عزیز سرحد ی علاقوں اور ریاستوں کے وزیر لفٹننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ اور صوبائی گورنر بھی کمیٹی کے ممبران میں شامل تھے وزارت قانون اور وزارت داخلہ کے حکام بھی تھے یہ اعلیٰ سطح کی کمیٹی تھی کمیٹی کو قبائلی علاقوں کے پارلیمانی نمائیندوں کی بھر پور حمایت حاصل تھی یہ پہلا موقع تھا کہ شاہ جی گل افریدی کی قیادت میں قبائلی علاقوں کے ممبران اسمبلی اور سینیٹر وں کی پوری ٹیم ایف سی آر کے خاتمے کے حق میں تھی عدالتوں کے قیام اور صوبائی اسمبلی میں قبائلی عوام کو نمائیند گی دینے کے حق میں تھی لیکن ان کا مقابلہ 200 شخصیات کے طاقتور گروہ سے تھا اس گروہ میں قبائلی ملک بھی تھے سرکاری ملازمین بھی تھے اور قبائلی علاقوں کے بڑے کاروبار سے فائد ہ اُٹھا نے والے امپورٹ ایکسپو رٹ کے تاجروں کا مشہور گینگ بھی ایف سی آر کے حق میں سرگرم عمل تھا اس گینگ کے پاس سرحدی کاروبار کا بے تحاشا پیسہ ہے اور یہ پیسہ ایسے مواقع پر کام دیتا ہے چنانچہ وزیراعظم کی بنائی ہوئی کمیٹی قبائلی علاقوں میں جہاں جہاں عوامی مشاروت کے لئے دور ے پر گئی وہاں عوام نے ایف سی آر کے خامتے کا مطالبہ کیا 200 بندوں کے گروہ نے پمفلٹ ، پریس کانفرنس، بینر ، پوسٹر اور ہلٹر بازی کے ذریعے ایف سی آر کے حق میں نعرہ بازی کروائی کمیٹی کے سامنے تصویر کا دوسرا رخ رکھ دیا اور کمیٹی کو بارو کروایا کہ قبائلی علاقوں میں ایف سی آر کو پسند کر نے والے لوگ بھی رہتے ہیں ایسے لوگ بھی ہیں جو ایف سی آر کو نعمت سمجھتے ہیں عدالت ،قانون اور انصاف نہ ہو نے کو غنیمت سمجھتے ہیں صوبائی اسمبلی میں نمائیندگی نہ ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر تے ہیں اور یہ تصویر کا دوسرا رُخ ہے اس پر بہت محنت ہوئی بڑا پیسہ خرچ ہوا تب جاکر ایف سی آر کا نام تبدیل کر کے ایف جی جی رکھنے کی تجویز دیدی گئی باقی لالی پپ وہی پرانے ہیں مثلا 10 سالوں کے اندر فاٹا میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھا یا جائے گا 10 سالوں کے اندر بتدریج پولٹیکل ایجنٹ کے عدالتی اختیارات میں کمی کی جائیگی 10 سالوں کے اندر بتدریج فاٹا کو صوبائی اسمبلی میں نما ئندگی دینے پر غور ہوگا آئیندہ 10 سالوں کے اندر بتدریج عدلیہ کا نظام لا یا جائے گا اور آنے والے 5 سے 10 سالوں کے اندر بتدریج قبائلی عوام کو انسانی حقوق اور انصاف تک رسائی دی جائیگی یہ ٹائم فریم بھی ’’ لالی پپ ‘‘ہے تبدریج کا لفظ نے حد پر فریب لفظ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوگا گو یا قبائل کی ایک کروڑ آبادی کو ایف سی آر سے نجات دلانے کا یہ موقع بھی ضائع ہوا اور اس موقع کو ضائع کرنے کا بہت خوبصورت بہانہ تراش لیا گیا بہانہ یہ ہے کہ قبائلی علاقوں کی صدیوں پرانی روایات ہیں قانون ،انصاف ،صوبائی اسمبلی میں نمائندگی ،ترقی ان روایات کی راہ میں روکاوٹ ہیں ایف سی آر نام ایف جی جی رکھ دیا جائے تو قبائلی عوام کی صدیوں پرانی روایات برقرار رہنگی یہ روایات 200شخصیات کو فائدہ پہنچانے کا موثر ذریعہ ہیں یہ تاریخ کا آٹھواں موقع ہے کہ 200افراد کے ٹولے نے ایک کروڑ کی قبائلی آبادی کو شکست دیکر ایف سی آر کا نہایت کا میابی سے دفاع کیا ہے 1947ء،1972،ء1978ء،1985ء،1999ء،2006ء اور 2008ء میں ایسے موقع آئے تھے وہ ضائع ہوئے موجودہ دور کا یہ آخری موقع تھا یہ بھی ضائع ہونے جارہا ہے
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
یہ وہ سحر تو نہیں جس کا انتظار ت

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔