داد بیداد …….توسیع لینے سے انکار

….ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ ….

ایک عجیب اور حیران کن خبر آگئی ہے افغانستان کی حکومت نے مہاجرین کوواپس اپنے ملک میں قبول کر نے اعلان کیا ہے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان نے افغانستان کے مہاجرین کے لئے 31 دسمبر 2016 ؁ء کی جو حتمی تاریخ مقر ر کی ہے اس میں توسیع کی درخواست نہیں کی جائیگی پاکستان میں افغان سفیر ڈاکٹر عمر زاخیل وال اور پشاور میں افغانستان کے قونصل جنرل ڈاکٹر عبداللہ وحید پویان کی سربراہی میں 60 رکنی مہاجرین وفد کے ساتھ ملاقات اور جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے اعلان کیا کہ پاکستان سے واپس آنے والے مہاجرین کی دوبارہ آباد کاری کے لئے ایک کروڑ روپے 20 لاکھ ڈالر مختص کئے جائینگے افغانستان کے 12 صوبوں میں مہاجرین کو آباد کر نے کے لئے ہاؤسنگ سکیمیں شروع کی جائینگی اور مستقل اباد کاری تک مہاجرین کو مکمل سیکورٹی کے ساتھ رہائش ، خوراک ، تعلیم ، صحت ، کاروبار اور روزگار کی باعزت سہولتیں دی جائینگی جرگہ سے پہلے افغان حکومت کی کابینہ کے اجلاس میں اہم فیصلے کئے گئے ان فیصلوں میںیہ بات کہی گئی کہ افغان مہاجرین کی اباد کاری کا کام صرف اقوام متحدہ ، امریکہ اور بھارت پر نہیں چھوڑ ا جائے گا اس کام میں افغان حکومت آگے بڑھ کر بھر پور کردار ادا کریگی جرگہ میں افغان حکومت کے نمائیند ے، اعلی حکام ، کابینہ کے ارکان اور اراکین پارلیمنٹ موجود تھے افغان حکومت نے پاکستان میں38 سالوں سے مقیم افغان مہاجرین کے لئے جس فراخد لی سے اپنی سرزمین کی سرحدوں کو کھول دیا ہے یہ قابل تحسین وآفرین ہے پروین شاکر کا مقبول عام شعر ہے
وہ جہاں بھی گیا لوٹا تو میرے ہی پاس آیا
یہی اک بات ہے اچھی میرے ہر جائی کی
1978 ؁ء اور 1979 ؁ء میں افغان مہاجرین کے پہلے قافلے پاکستان آئے یو اے جی عیسانی پہلے ایڈیشنل چیف سکرٹری تھے پھر چیف سکرٹری مقر ر ہوئے انہوں نے امریکی اور یورپی سفارت کاروں کو بریفنگ دینے کا ایک مربوط سلسلہ شروع کیا ، ہر بریفنگ میں ایک بات تو اتر کے ساتھ کہتے تھے کہ افغان مہاجرین کو پاکستانی قوم نے اس لئے پناہ دی ہے کہ ان پر مصیبت کی گھڑی آگئی ہے اور یہ ہمارے بھائی ہیں بھائی چارہ کے تحت ان کو پناہ دینا ہمارا فرض ہے سرحد کھولنے کا جواز پیش کر تے وہ کہا کرتے تھے کہ پاک افغان سرحد ہمیشہ سے کھلی رہی ہے یہ کبھی بند نہیں ہوسکتی دونوں میں رتی بھر صداقت نہیں تھی تاہم امریکہ اور یورپی سفارت کاروں کو ایسے جواز کی ضرورت تھی افغان مہاجرین کو پتہ نہیں تھا کہ ہم نے کیوں اپنا گھر بار چھوڑا ہے انہیں ورغلا پھسلا کر اس خوف سے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا کہ جان سے مار دیا جائے گا 1978 ؁ء اور 1990 ؁ء کے دوران مہاجرین کو بے گھر کرنے والے چند لیڈر پشاور ، اسلام اباد ، لاہور ، دوبئی ، لندن ،پیرس اور امریکی ریاستوں میں بڑی بڑی جائیدادوں کے مالک بن گئے جبکہ غریب لوگ 38 سالوں سے دربدر پھر رہے ہیں کرایے کے چھوٹے مکان میں 40 یا 45 افراد رہتے ہیں 60 سال یا 70 سال کے بزرگ شہری سر پر سامان کی گھٹٹری رکھ کر گھر گھر جاکر سودا سلف بیچتے ہیں اور بمشکل دو وقت کی روٹی کماتے ہیں جو بچے 1979 اور 1980 میں پیدا ہوئے ان کی عمریں اب 36 سال سے اوپر ہیں انہوں نے ایسے ماحول میں پرورش پائی ہے کہ اب افغانستان کی گلیاں ، افغانستان کے کوچے ان کیلئے اجنبی ہیں خالد حسینی چھوٹی عمر میں کابل سے امریکہ گیا اب وہ کابل آئے گا تو اجنبی لگے گا کائنات ارزو نے چترال میںآنکھ کھولی اب وہ پنجشیر جائیگی تو اس کو اجنبی ماحول کا سامنا کرنا پڑے گا ایک بڑا مسئلہ سیکورٹی کا ہے پرایے دیس میں افغان شہری اور مہاجر کی حیثیت سے ان کو مشکوک قرار دیا جاتا ہے اپنے وطن میں طویل مہاجرت کی وجہ سے ان کو مشکوک قرار دیا جائے گا خانہ جنگی کے یہ نقصانات ہیں گذشتہ روزخبر آئی تھی کہ امریکی صدر باراک اوبامہ نے ویت نام کی خانہ جنگی سے متاثر ہونے والے لاو س (Laous) کے لئے مزید 90 ملین ڈالر امداد کا اعلان کیا ہے یہ خانہ جنگی 1964 ؁ء سے 1973 ؁ء تک جاری رہی جس میں امریکہ کو شکست ہوئی 1996 ؁ء میں امریکہ نے لاوس کو 100 ملین ڈالر دئیے تھے افغان خانہ جنگی میں پاکستان کا وہی کردار رہا ہے جو ویت نام کی خانہ جنگی میں لاو س کا تھا پاکستان نے ہیر وئین اور کلاشنکوف کلچر کی وجہ سے بڑا نقصان اُٹھا یا افغان ٹرانزٹ ٹریڈ روٹ کو امریکی فوج کے استعمال میں دینے کا بڑا انقصان ہوا افغان مہاجرین کی 38 سال میزبانی کا نا قابل تلافی نقصان ہوا مگر جواب میں گالیوں کے سوا کچھ نہ ملا یہ بات خوش آئیند ہے کہ افغان حکومت نے 38 سال سے دربدر پھر نے والے غریب افغانیوں کو وطن واپسی اور از سر نو بحالی کا پیکچ دیا ہے تاہم پاکستان کے لئے اس پیکچ میں کئی چیلنج درپیش ہیں پہلا چیلنج یہ ہے کہ افغان سفار ت کاروں نے کابل جاتے ہوئے اور کابل سے واپسی کے بعد پاکستانی حکومت اور پاکستانی قوم کے لئے خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کر نے کے بجائے صرف محمود خان اچکزئی اور اسفند یار ولی خان کا شکر یہ ادا کیا جنہوں نے افغان مہاجرین کووطن واپس بھیجنے کی مخالفت کی تھی کابل میں جرگے سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر اشر ف غنی نے بھی پاکستانی حکومت اور پاکستانی قوم کا رسمی شکر یہ ادا کر نے کی ضرورت محسوس نہیں کی مہاجرین کے قیام میں توسیع نہ لینے کا اعلان بھی انہوں نے منفی انداز میں کیاتھا انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کا احسان نہیں اُٹھا ئینگے یہ لہجہ اس امر کی غمازی کر تا ہے کہ مہاجرین کی واپسی کے بعد بھی افغان حکومت پاکستان کے لئے نرم گوشہ نہیں رکھے گی تو سیع لینے سے انکار میں’’ حب علی ‘‘ سے زیادہ ’’بُغض معاویہ ‘‘ کا جذبہ کا ر فر ما ہے اس لئے افغان مہارجریں کے جانے کے بعد پشاور اور قبائلی علاقوں میں امن قائم نہیں ہونے دیا جائیگا واپس جانے والے مہاجرین کے ایک گروہ کو پاکستان کے خلاف تحزیب کاری کے لئے استعمال کیاجائے گا 2009 ؁ء اور 2015 ؁ء کے درمیان 6 سالوں میں کنٹر ، نورستان اور ننگرہار سے 100نوجوانوں کی ٹیم کو بھارت میں دہشت گردی کی اعلیٰ تربیت دے کر پاکستان بھیجا گیا تھا واپس وطن جانے والے نوجوان اگر بھارت یا ترا کے بعد پاکستان میں داخل ہوئے تو ایٹم بم سے زیادہ خطرناک ثابت ہونگے ہمیں افغان مہاجرین کی واپسی کے بعد کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے امریکہ ،بھارت اور افغانستان ملکر واپس جانے والے نوجوانوں کو پاکستان کے خلاف موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرنیگے موثر بارڈر مینجمنٹ کے علاوہ ائیر پورٹوں اور بندوگاہوں پر بھی سخت نگرانی کرنی ہوگی اگلے 10 سال پاکستان میں امن اور سلامتی کے حوالے سے بیحد اہم ہیں ان خدشات کے باوجود افغان حکومت نے مہاجرین کی اباد کاری کے لئے قابل عمل منصوبہ ترتیب دیکر نے مثبت قدم اُٹھا یا ہ

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔