۔۔رُموز شادؔ ۔۔ ’’دوسروں کے جذبات کی قدر کریں

 ‘‘۔۔ارشاد اللہ شادؔ ۔۔بکرآباد چترال

انسان کی زندگی خواہشات امیدوں اور ذمہ داریوں سے عبارت ہے، اپنی ابتدائی زندگی میں وہ صرف اپنے لئے خواہشات اور امیدیں رکھتا ہے لیکن اسے بہت جلد احساس ہوجا تاہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے میں رہتاہے جہاں اسے صرف اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کیلئے بھی بہت کچھ کرنا ہے تب اس کی خواہشات اور امیدوں میں کچھ ذمہ داریاں بھی شامل ہو جاتی ہیں۔ اور ایسے موقع پر اپنی شخصیت کو قابل قدر اور قابل قبول بنانا بھی ایک اہم ضرورت ہے۔ ایسا کرتے ہوئے جہاں چند نادانستہ اور فطری اور ذہنی عوامی شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ وہاں خود انسان بھی لوگوں میں اپنی ذات کو تبدیل کرنے لگتاہے ، یہ ایک ایسا حساس مرحلہ ہوتاہے کہ اکثر اوقات انسان اپنی ترجیحات اور پسند کی بھی یکسر فراموش کر بیٹھتاہے وہ اپنے ’’ لئے نہیں ‘‘ دوسروں کیلئے جیتاہے۔
بعض نا خواشگوار سچائیاں ، تلخ حقیقت اور واقعات سے ہم کچھ نہ کچھ سیکھتے رہتے ہیں ۔ چہرے کی تاثرات اور جسمانی حرکات و سکنات کے ذریعے اپنے اندرونی احساس و جذبات کو ظاہر نہ کرنا بھی سیکھ لیتے ہیں۔ہماری شخصیت کا یہ بنا وٹی نقاب کئی لحاظ سے ہمارے لئے سود مند ثابت ہوتاہے ۔ ذرا تصور تو کریں کہ اگر ہمارا چہرہ کسی آئینے کی طرح ہمارے اندرونی خیالات و احساسات کی عکاسی کرنے لگے تو زندگی کیسی ہو جائیگی ؟ ہو سکتا ہے ہم میں سے اکثر اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ازدواجی زندگی بھی متاثر اور انتشار کا شکار ہو جائیں ۔ کوئی دوست ہو اور نہ کوئی رشتہ دار، کیونکہ اپنے چہرے سے جھلکنے والے سچے تاثرات کے جرم میں ہم سب کو اپنا دشمن بنا چکے ہونگے، لہذا اب اس بات کیلئے پریشان نہ ہو کہ آپ کی شخصیت میں منافقت یا دوغلہ پن کا عنصر کیوں موجود ہیں ، یا آپ تضاد سے سمجھوتہ کر رہے ہیں ۔ آپ اسے مصلحت کا نام بھی دے سکتے ہیں ۔ ایک ایسی مصلحت جو سماجی تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے نہایت ضروری ہے۔
ہم معاشرے میں مختلف لوگوں کے ساتھ کس طرح پیش آئے، اس کا دارومدار ہماری ذہانت اور معاشی حالت پر ہے۔ معاشرے کے مزاج کے مطابق ہم کس طرح ہم اپنی جذبات کا اظہار کریں یہ چیز روّیوں کے بننے میں اہم رول ادا کرتی ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم ان کی پسند و نا پسند کے مطابق اپنی شخصیت کو بنائیں، قطع نظر اس سے کہ ہمارے کیا احساسات ہے اور فطرتاََ ہمیں کیا بات اچھی لگتی ہیں اور کیا بری، وہ مسلسل اپنی منوانے پر تلے رہتے ہیں جو شخص اپنے آپ کو ان سے ہم آہنگ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے وہ اپنی زندگی کو کامیاب و کامران بنا دیتاہے اور جو اس سے بغاوت کرتاہے اس نے گویا خود کو لوگوں کی نظرمیں برا بنا دیا لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ آپ مکمل طور پر اپنی شخصیت کو فراموش کردے۔
’’جب بلندی پر پہنچ جاتے ہیں لوگ
کس قدر چھوٹے نظر آتے ہیں لوگ‘‘
ذرا غور کریں! زندگی کے چھوٹے چھوٹے سانحات یا واقعات کو اگر ہم یاد رکھیں تو زندگی کتنی تکلیف دہ ہو جائے گی ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’ ’ اگر آ پ اپنے تعلقات کو خوشگوار اور دیر پا بنانے چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ آپ کی یاداشت محدود ہو ‘‘۔ فراموشی کی یہ عادت ایک اور افادیت رکھتی ہے اکثر اوقات لوگ کسی خوفناک واقعے سے دوچار ہوتے ہیں ۔(مثلاََ ایکسیڈنٹ، قتل، یا کوئی قدرتی سانحہ ) تو ان کا دماغ ان کے اثرات سے بچنے کیلئے اپنی یاداشت کی دھند میں اسے چھپانے کی کوشش کرتاہے۔ نتیجتاََ دماغ پر ایک خود فراموشی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہیں ۔ اس خود کار دفاعی عمل کی وجہ سے جسمانی اعصاب پر برے اثرات نہیں پڑتے ۔ جن لوگوں میں تلخ اور نا پسندیدہ باتوں کو فراموش کرنے کی عادت نہیں ہوتی وہ زیادہ تر پریشان کن زندگی سے دوچار رہتے ہیں۔اور لوگوں سے ان کا رویہ بھی تلخ رہتاہے۔
آپ کا لوگوں کے ساتھ جذباتی رویہ کیسا ہوتاہے ؟ یہ چیز معاشرے میں خود کو ہر دلعزیز بنانے کیلئے بہت ضروری ہے ۔بہت سے افراد ذہانت اور قابلیت کے مالک ہوتے ہیں لیکن وہ لوگوں کے جذبات کی قدر نہیں کر پاتے ، انہیں صرف اس بات کی پرواہ ہوتی ہے کہ لوگ ان کی شخصیت کو سمجھنے کی کوشش کریں اور یہی چیز انہیں معاشرتی طور پر نقصان پہنچاتی ہے، جب کہ اکثر لوگ ذہنی طور پر اتنے قابل نہیں ہوتے لیکن چونکہ وہ دوسروں کے جذبات کا پورا پورا خیال رکھتے ہیں اور سمجھدار افراد سے بھی زیادہ ذہین نظر آتے ہیں ۔
معاشرے میں دولت اور ظاہری خوبصورتی کی بنیاد پر انسان کو اہمیت دی جاتی ہیں اور اسی بنیاد پر دوسروں کے جذبات کا خیال رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی شخصیت مکمل طور پر تصنع اور بناوٹ بن کر رہ جاتی ہیں ان کے دل میں کچھ ہوتا ہے اور زبان پر کچھ، انہیں خود اپنی شخصیت پر یقین نہیں ہوتا کہ وہ کیا ہیں؟ اور ان کی حقیقی قدر و قیمت کیا ہیں؟ یہ ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے ، جس میں انسان کی ’’انا‘‘ اندر ہی اندر گھٹ کر رہ جاتی ہے ۔ ہم میں سے بھی ہر ایک شخص اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی اس کیفیت سے ضرور دو چار ہوتا ہے اور اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرتاہے کہ وہ کبھی اس مرض میں مبتلا نہیں ہوتا تو وہ غلط بیانی سے کام لے رہا ہے ۔یہ انسان پر منحصر کر تا ہے کہ اس بناوٹی ماحول سے نکلنے کی کس قدر صلاحیت رکھتا ہے اور یہ حوصلہ مندانہ قدم جتنی جلدی اٹھایا جائے گا ، ایک متوازن اور اچھا انسان بننے کیلئے اتنا ہی بہتر ہوگا ۔
ہم اپنی زندگی میں بعض مواقع پر ایسی باتیں کہتے ہیں جس سے ہمارے خیالات و احساسات کی ترجمانی نہیں ہوتی اور اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ ہم مروتاََ دوسروں کو ناراض کرنا نہیں چاہتے ہوں یا پھر دوسرے کے دل سے تعریف کرنے کی خواہشمند نہ ہو لیکن اخلاقاََ کرنا پڑتا ہو ۔ اسی طرح بعض اوقات اپنی ذات کیلئے بھی اپنے حقیقی احساسات کو چھپانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو، سچ تو یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کا زیادہ حصہ ، آدھے سچ اور آدھے جھوٹ، کے سہارے بسر کرتے ہیں ۔ ایک شخص کتنا ہی ’’ انا‘‘ پرست یا خود دار ہونے کا دعویٰ کیوں نہ کرتا ہو وہ ساری زندگی اپنی انا کے حصار میں نہیں جی سکتا ۔ کہی نہ کہی اسے لازمی طور پر خود پر دوسروں کی خاطر تھوڑا سا منکسر المزاج اور لچکدار بننا پڑتا ہے اور اکثر اوقا ت نہ چاہتے ہوئے بھی دوسروں کے جذبات کا خیال رکھنا پڑتاہے۔۔۔!

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔