پاکستان روس تعلقات، نئی گریٹ گیم؟

انڈیا کے دیرینہ اتحادی ملک روس کی افواج کا دستہ پہلی مرتبہ پاکستان کی افواج کے ساتھ مشترکہ جنگی مشقوں کے لیے پاکستان پہنچا ہے۔

گو کہ یہ مشقیں پہلے سے طے شدہ تھیں لیکن ایک ایسے وقت میں جب انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے، روس اور پاکستان کی مشترکہ جنگی مشقیں خاصی اہمیت کی حامل ہیں۔

روس کیا جنوبی ایشیا میں بھارت کے بعد کسی نئے اتحادی کی تلاش میں ہے اور پاکستان سے دفاعی تعلقات استوار کرنا کیا نئے تعلقات کی شروعات ہیں؟

ماضی میں پاکستان امریکہ اور مغربی ممالک کے قریب رہا اور افغانستان میں سویت یونین کے خلاف امریکہ کی جنگ میں اہم کردار ادا کرنے کے بعد پاکستان اور روس کے درمیان رشتے بھی ماسکو کے سخت موسم کی ماند سرد رہے ہیں لیکن اب کچھ برف پگھلی ہے۔

پاکستان کی سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کا کہنا ہے کہ روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ ماضی میں جو ممالک ایک کیمپ میں تھے وہ جدا ہو گئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’پاکستان سے تعلقات روس کے اپنے مفاد میں ہیں انڈیا کے امریکہ کے ساتھ غیر معمولی دوستانہ تعلقات استوار ہو رہے ہیں اور پاکستان اور امریکہ کے تعلقات گزشتہ دہائی سے تناؤ کا شکار ہیں۔‘

حنا ربانی کھر کا کہنا ہے کہ پاکستان کو خارجہ پالیسی کا زیادہ فوکس اپنے خطے میں ہونا چاہیے اور علاقائی ممالک سے تعاون بڑھنا ہی خارجہ پالیسی کی کامیابی ہے۔

پاکستان کی سینیٹ کی خارجہ اُمور کی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ پاکستان اور روس کے تعلقات انڈیا کا امریکہ کی جانب جھکاؤ کا ردعمل ہیں کیونکہ اس سے خطے کی بین الاقوامی سیاست تبدیل ہو رہی ہے۔

گذشتہ سال پہلی مرتبہ روس نے پاکستان کو دفاعی ہتھیار اور ہیلی کاپٹر دینے کے اعلان کر کے نئے دوست بنانے کا عندیہ دیا تھا

یاد رہے کہ گزشتہ چند برسوں میں انڈیا اور امریکہ کے مابین اربوں ڈالر کے دفاعی معاہدے ہوئے جس کے بعد چین پاکستان، وسطیٰ ایشیائی ممالک، روس اور ایران کے مابین تعلقات بڑھ رہے ہیں۔

دوسری جانب گزشتہ سال سنہ 1968 کے بعد پہلی مرتبہ روس نے پاکستان کو دفاعی ہتھیار اور ہیلی کاپٹر دینے کے اعلان کر کے نئے دوست بنانے کا عندیہ دیا تھا۔

سینیٹر مشاہد حسین کے مطابق انڈیا اور امریکہ کے تعلقات سے خطے میں ایک نئی گریٹ گیم شروع ہو گئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’بظاہر لگتا یہ ہے کہ انڈیا اور امریکہ ایک نئی سرد جنگ کی کوشش کر رہے ہیں۔ انڈیا کی جنگ چین کے خلاف اور امریکہ کی جنگ یورپ میں روس کے خلاف ہے اور سفارتکاری کے لحاظ سے اس سرد جنگ کا مقابلہ اقتصادی تعلقات اور تعاون بہتر کر کے کیا جا سکتا ہے۔‘

تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ انڈیا امریکہ کے تعلقات مضبوط ہوئے ہیں لیکن انڈیا کے دفاعی پیدواری نظام کا انحصار روس پر ہے، اس لیے روس کے ساتھ اُن کا رشتہ کمزور ہو سکتا ہے لیکن ٹوٹ نہیں سکتا۔

انھوں نے کہا پاکستان روس سے اسلحہ خریدنا چاہتا ہے اور تعلقات بہتر ہونے سے دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعلقات کو وسعت ملے گی۔

ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا ہے کہ’پاکستان چاہتا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں روس اگر غیر جانبدار کردار ادا کرے تو پاکستان اسے سفارتی کامیابی قرار دے گا۔‘

سینیٹر مشاہد حسین کا کہنا ہے کہ روس کے ساتھ تعلقات کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیے مزید آپشنز کھل گئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس خطے اور خاص کر مسلم ممالک کے لیے امریکہ کی خارجہ پالیسی ناکام ہو گئی ہے۔ روس کے ساتھ تعلقات کے آغاز سے پاکستان کو انڈیا کے سفارتی دباؤ کو روکنے میں مدد ملے گی۔

مشاہد حسین کا کہنا ہے کہ ’سلامتی کونسل کے دو مستقل رکن چین اور روس اگر پاکستان کے اچھے دوست ہوں تو یقینی طور پر اُسے سلامتی کونسل میں سفارتی مدد ملے گی‘

سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے مطابق دوسرے ممالک کی توقعات کی بنیاد پر خارجہ پالیسی تشکیل دینا ہی ہماری خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی خامی ہے۔

’ہمیں اپنے مفاد کو مدنظر رکھ کر خارجہ پالیسی تشکیل دینی ہے اور اس میں علاقائی ممالک سے بہتر تعلقات سب سے اہم ہیں لیکن موجودہ حکومت اس پر زیادہ توجہ نہیں دے رہی۔‘

دفاعی اور بین الاقوامی اُمور کے تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان اور چین کے درمیان مضبوط تعلقات نے روس کے ساتھ روابط بہتر بنانے کے لیے راہیں ہموار کی ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں چین کے بعد روس پاکستان کا اہم اتحادی ہو سکتا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کی تکمیل، روس اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات بحال ہونے سے خطے میں استحکام آئے گا۔

مشترکہ جنگی مشقیں اور دفاعی سازوسامان کی خریداری بظاہر پاکستان اور روس کے درمیان رومانس کی ابتدا ہے لیکن اس بیل کو منڈھے چڑھانے میں ابھی کافی وقت درکار ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔