دھڑکنوں کی زبان ….. ’’پی پی سی کالج بمبوریت‘‘

…………….محمد جاوید حیات……..
pa152395
’’استاد ریٹائرڈ نہیں ہوتا ۔۔۔استاد معمار قوم ہے ۔۔۔استاد کے سینے میں قوم کا درد ہوتا ہے ۔۔‘‘یہ سارے جملے عام لوگوں کے لیے مفروضے ہیں ۔مگر بعض لوگ اس کا عملی نمونہ بن کر ان سب مفروضوں کو سچ ثابت کر کے دیکھاتے ہیں ۔شاہ جہان صاحب محکمہ تعلیم میں مختلف بڑے انتظامی عہدوں اور سکولوں میں پرنسپل کے عہدوں پر خدمات انجام دے کر فارغ ہوئے ۔۔یہ بھولے بھالے مرنجان و مرنج ہستی تھے ۔سیدھے سادھے فقیر منش کوئی پروٹوکول ، نہ کوئی توقیر کی پریکٹس،کوئی جی سر یس سر کچھ بھی نہیں ۔۔۔سب کے کندھے سے کندھا ملا کر زندگی کے دن کاٹنے والے ۔۔۔خاندان کی طرف سے آسودہ ،صاحب جائیداد دھن دولت کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔انھوں نے ملازمت ایک استاد کی طرح سے گذارے ۔۔غریبوں کی مدد ،کسی کو کتابیں ،کسی کے لئے یونیفارم ،کسی کی سرٹفیکیٹ غرض سارے مسائل کے حل میں پیش پیش ۔۔اس لئے محکمہ تعلیم ایک غریب پرور آفیسر پہ فخر کرتا رہا ۔۔۔
شاہ جہان صاحب جب سروس سے ریٹائرڈ ہوئے تو اس عبادت نما کام کو چھوڑا نہیں ۔۔چترال کا پسماندہ ترین علاقہ بمبوریت میں سیکنڈ شفٹ میں پی پی سی کالج کھول کر علاقے میں جہالت کے اندھیروں میں ایک چراغ بن کر اُبھرے ۔۔اس کا یہ قدم خاص کر علاقے کی بچیوں کیلئے بہت مبارک ثابت ہوا ۔کہ اس علاقے کی بچیاں جو دسویں جماعت پاس کرنے کےpa152396 بعد گھر بیٹھی تھیں اپنے گھر کے دہلیز پہ تعلیم کی روشنی سے منور ہونے لگیں ۔۔2009ء کو کالج کھولا گیا اور2016ء تک کئی بچے بچیاں یہاں سے ایف اے ایف ایس سی کرکے مختلف کالجوں اور یونیورسیٹیوں میں زیر تعلیم ہیں ۔۔کئی مختلف محکموں میں خدمات انجام دے رہے ہیں ۔شاہ جہان صاحب شروع میں بچوں سے برائے نام فیس جمع کراتے جو صرف سرکاری بلڈنگ کے کرائے کے لئے جمع کی جاتی ۔۔کئی بچے بغیر فیس کے تھے فیس 250روپے تھی کالج کے فکلیٹی ممبرز مفت پڑھاتے ۔ قاری جمیل صاحب اس کالج کے بانیوں میں سے ہیں کالج بہترین نتیجہ دیتا رہا۔2014ء اور2015ء کو کالج نے سو فیصد رزلٹ دیا ۔علاقے کے لوگ کالج کے سرپرست کے لئے دعا گو ہیں ۔۔اس دور میں جب کہ بمبوریت میں تعلیمی پسماندگی تھی کالج کا قیام ایک تحفے سے کم نہ تھا ۔۔شاہ جہان صاحب کا یہ قدم ایک درمند اور علم سے عشق رکھنے والے ماہر تعلیم کا ہے جو ایک قومی خدمت ہے ۔۔وہ پیسہ بنا سکتا تھا دولت کما سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا اس نے بمبوریت جیسے علاقے میں جہاں پر لوگ رنگینی حیات سے لطف اندوز ہونے کے لئے آتے ہیں ۔دنیا کی انوکھی تہذیب دیکھنے کے لئے آتے ہیں ۔اپنا خواب لے کے آتے ہیں اور اپنا خواب لے کے واپس ہوتے ہیں ان لوگوں کو اس علاقے سے اس کی پسماندگی سے اور یہاں کے باشندوں کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اپنے دردمند ہونے کا ثبوت دیا ۔۔pa152394علاقے کے لوگ یہ سب محسوس کرتے ہیں اور اپنے محسن کے احسان کو مانتے ہیں ۔۔علاقے کا ایک فعال بیٹا شیر جہان استاد اس کالج کو ترقی دینے میں ایک فعال کردار ادا کر رہے ہیں ۔۔کالج کے سارے کام وہ نہایت زمہ داری سے انجام دیتے ہیں ۔۔اس مادہ پرستی کے دور میں ایسے مخلص کارکن اور علاقے کے لئے درد رکھنے والے شاید ہی مل جائیں ۔۔۔یہ ا س علاقے کی خوش قسمتی ہے کہ اسے ایسے بیٹے مل گئے ہیں کہ وہ مستقبل کو سوچتے ہیں ۔۔بے شک یہاں پر بلڈنگیں بنیں گی ،سڑکیں بنیں گی ،تعمیرات ہونگی مگر جہالت کے اندھیروں کو جس روشنی کی ضرورت ہے وہ تعلیم ہے جو شاہ جہان صاحب کے دست راست بن کر شیرجہان صاحب پھیلا رہے ہیں ۔۔ورنہ تو اس رنگیں علاقے کا بچہ بچہ بگڑ جائے گا وہ تعلیم تہذیب اور تربیت سے محروم ہو جائے گا ۔اور خدا نہ کرے کہ وہ سمو کر ڈرنگکربن کر اپنی زندگی تباہ و برباد کرے گا۔یہ اچھے لوگ اس بات کا احساس کرتے ہیں اس لئے علاقے میں علم کا چراغ جلا رہے ہیں اور ان کی تعلیم و تربیت میں اپنے خون جگر پیش کر رہے ہیں ۔۔پی پی سی کالج کی کارکردگی ان کی کوششوں کا ثبوت ہے علاقے کے لوگوں کو اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں ان لوگوں کا ہاتھ بٹا نا چاہئیے اور کل کا تعلیم یافتہ بمبوریت یقیناًان کی کوششوں کا نتیجہ ہوگا۔۔زمانہ ایسے ایسوں کو یاد رکھتا ہے ۔۔۔۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔