صدا بصحرا۔۔۔۔۔۔۔۔کُھمبیوں کی طرح اگنے والی پارٹیاں

……………ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی……………

الیکشن کمیشن کے ذرائع سے خبر آگئی ہے کہ 2018 ؁ء کے انتخابات میں 27 نئی سیاسی جماعتیں حصہ لینگی ایک سیاسی جماعت کا انتخابی نشان شُتر مرُغ بھی ہوگا الیکشن کمیشن میں رجسٹر یشن حاصل کر نے والی سیاسی جماعتوں کی تعداد 2013 ؁ء میں 147 تھی 2016 ؁ء میںیہ تعداد 174 ہوگئی ہے اس لئے ایک تبصر ہ نگا رنے اس کو کھمبیوں سے تشبیہ دی ہے جو برسات میں کسی جنگل کے اندر اگتی ہیں مگر ان کی کوئی عمر نہیں ہوتی ان کو پیٹر ، پودا ، پھول ، پھل والا درخت بنتے کسی نے نہیں دیکھا پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا ایسا ہی حال ہے پاکستان کی سیاست پر ڈاکٹر صفدر محمود کی کتاب 1980 ؁ء کے عشرے میں شائع ہوئی تھی اپنی تحقیقی کتاب میں محقق نے صرف جماعت اسلامی کو معروف معنی میں سیاسی جماعت قرار دیا تھا اور اس کے لئے چار دلائل دئیے تھے جماعت کے اندر انتخابات باقاعدگی سے ہو تے ہیں پورے پاکستان میں دفاتر اور عہد یدار ہیں فنڈ کا آڈٹ ہوتا ہے وکلا ء ، اساتذہ ڈاکٹر وں کسانوں ، مزدوروں ، طالب علموں کے لئے الگ الگ شعبے قائم ہیں اور سب کی سیاسی تربیت ہوتی ہے اس معیار پر آج بھی کوئی دوسری پارٹی پوری نہیں اترتی اس معیار کو دوسری طرف رکھ کر اگر زمینی حقائق اور انتخابی نتائج کو دیکھا جائے تو دائیں بازو کی جماعتوں میں کوئی بھی جماعت مسلم لیگ کا مقابلہ نہیں کرسکتی اور بائیں بازو کی جماعتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کا ووٹ بنیک سب سے زیادہ ہے گو یا وطن عزیز میں دو جماعتیں عملی طور پر سیاست کر رہی ہیں باقی 172 جماعتیں رجسٹر یشن پر گذارہ کر رہی ہیں نظر یاتی لحاظ سے تجزیہ کیا جائے تو مارے شرم کے ہمارا سرجھک جاتا ہے سرمایہ دارانہ نظام کے لئے میدان میں آنے والی جماعتیں انتخابات میں کمیو نسٹ اور سو شلسٹ جماعتوں کے ساتھ اتحاد کر لیتی ہیں نفادشریعت کا دعویٰ لیکر اُٹھنے والی جماعتیں انتخابات میں ایک سیٹ جیتنے کے لئے سیکو لر جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرکے اپنے نظر یہ کو ٹھو کر ماردیتی ہیں اس طرح قوم پرست جماعتیں ایک وزارت کے لئے اپنے مخالفین کی منت سماجت کر کے حکومت میں شامل ہوجاتی ہیں اور دو پیسے کا مفاد حاصل کرلیتی ہیں نہ کوئی شریعت کے لئے اپنے موقف پر قائم ہے نہ سیکو لر ازم کے لئے کوئی مضبوط موقف رکھتا ہے نہ قوم پرستوں کے اندر اپنی قوم کا درد نظر آتاہے نہ سو شلسٹو ں کے ہاں سو شلزم کاکوئی ایجنڈا ہمیں ملتا ہے سیاست ایک بازار ہے جس میں لوگوں نے دکانیں بنا ئی ہوتی ہیں مال لگا یا ہوا ہے سب دو نمبر مال ہے گا ہک حیران ہے کہ کس دکان کا رُخ کر ے یہ اُس ملک کی سیاست ہے جس کے بارے میں سب سے مقبول مفروضہ یہ ہے کہ اس کو اسلام کے نام پر بنا یا گیا اور علمائے کرام کی مخالفت کے با و جود سیکولر ذہنیت کے لوگوں نے بنایا اس پر سہیل وڑائچ کا جملہ صادق آتا ہے ’’ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ؟‘‘الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق مئی 2013 کے انتخابات کے بعد اُسی سال صرف ایک جماعت کو رجسٹر یشن دی گئی گئی اس کا نام اللہ اکبر پارٹی تھی اور اس نے سوچ سمجھ کر ’’ کوّے ‘‘ کا انتخابی نشان الاٹ کرایا ذرا غور فرمائیے پارٹی کا نام اللہ اکبر اور انتخابی نشان کوّا ایک پاک ہے دوسرا ناپاک ہیں اور سرا سر ناپاک ہے الیکشن کمیشن کے پاس اچھے اور برے میں تمیز کا کوئی معیار نہیں اس پر علامہ اقبال کا یہ مصر عہ خوب جچتا ہے ’’ ذرا غوں کے تصرف میں عقا بوں کے نشیمن‘‘ علامہ اقبال نے ایک شعر میں بھی اس فرق کو نمایاں کیا ہے
پرواز ہے دونوں کی اسی اک فضا میں
شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور
2014 میں 16 جماعتوں نے رجسٹریشن کروائی ان میں نمایاں جماعت موآن پاکستان تھی جس نے شتر مرغ کا انتخابی نشان الاٹ کر ایا شتر مرغ بھی کو ے کی طرح پرند ہ ہے مگر اس کی ایک اور خصو صیت مشہور ہے دشمن کو دیکھ کر یہ اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے تاکہ دشمن اس کو نہ دیکھ سکے مو آن (Move on) انگر یزی میںآگے بڑھنے کو کہتے ہیں دشمن کے سامنے شتر مرخ کی طرح آنکھیں بند کر کے پاکستان کس طرح آگے بڑھ سکتا ہے ؟ اس کا اندازہ آپ بخوبی لگاسکتے ہیں کئی جماعت نے اس کا اندازہ نہیں لگا یا الیکشن کمیشن نے شتر مرغ کی طرح آنکھیں بند کر کے موآن پاکستان کو انتخابی نشان الاٹ کر دیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کر نا مشکل نہیں کہ سیاسی جماعتیں کس تیاری ، ہو م ورک ،غور و خوص کے بغیر بنتی ہیں اور الیکشن کمیشن آنکھیں بند کر کے ان کو رجسٹریشن الاٹ کر دیتی ہے اس کا کوئی معیار نہیں ہے کوئی قانون نہیں ہے کوئی دستور اور قاعد ہ یا ضابطہ نہیں ہے ہر مسخر اسیاسی جاعت بنا سکتا ہے اور انتخابی نشان الاٹ کر اسکتا ہے یہ قوم کیساتھ ، ملک کے ساتھ ، قانون کے ساتھ ، آئین کے ساتھ ،پارلیمنٹ کے ساتھ کھلا مذاق ہے سیاست پر بد نما داغ ہے آئین میں کہا گیا ہے کہ ہر شخص کو سیاسی آزادی حاصل ہو گی مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ 18 کروڑ عوام کی18 کروڑ پارٹیاں ہونگی قاعدہ قانون یہ ہوناچاہیے کہ پاکستان کے 105 اضلاع میں سے کم از کم 78 اضلاع میں پارٹی کادفتر ہو پارٹی کے عہد یدار ہوں پارٹی کی مجلس عاملہ کے 100 اراکین میں کم از کم 25 اراکین قومی سطح پر مشہور شخصیات ہوں سیاست ، سماجی خدمت ، ادب کھیل ، ثقافت یا کسی او رشعبے میں اُن کا مقام مسلّمہ ہو اس طرح پارٹی کا منشور اس کا مالیاتی نظام بھی جا نچا جائے تب جا کر اس کو رجسٹریشن دی جائے ،یہاں 174 سیاسی جماعتوں میں سے صرف 18 سیاسی جماعتیں ایسے ہیں جنکے سر براہوں کے نام گوادر سے خیبر تک ملک میں مشہور ہیں 156 جماعتوں کے سربراہ بھی اپنے گھر اور محلے سے باہر کوئی شہرت اور پہچا ن نہیں رکھتے اب پارٹیوں کے نام بھی ختم ہوگئے انتخابی نشان ختم ہوئے اگلے ماہ کوئی پاکستانی اگر سیاسی جما عت بنا کر اس کی رجسٹریشن کر انا چاہے گا تو اس کے پاس شفیق الرحمن کی کتابونں کے دو نام دستیاب ہونگے ’’ حماقتیں ‘‘ اور ’’ مزید حماقتیں ‘‘ انتخابی نشانات میں سے برتنوں میں لوٹا دسیتاب ہے اور پرندوں میں الّو، بسم اللہ کیجئے دو اور سیاسی جماعتیں بنائیے یہی نام رکھئے اور یہی نشانات الاٹ کیجئے ’’ صلائے عام ہے یا رانِ نکتہ داں کے لئے ‘‘

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔