ثقافتی جشن یا آوارگی   ….فکرو خیال  ۔

……….. ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ ۔فرہاد خان

کسی بھی معاشرے کی مظبوطی اور پائیداری میں اس کی ثقافت کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ ثقافت معاشرے میں بسنے والے لوگون کی مختلف النوع قدرون، بودو باش، طرز زندگی ،عادت و اتوار، مذہب ،تہوار و دیگر مراسم اور دوسرے بہت سے عوامل کا نام ہے جو ایک علاقے یا ملک کے لوگون کو دوسرے علاقے یا ملک کے لوگوں سے بلکل جداگانہ اور منفرد مقام عطا کرتی ہے اگر کسی بھی معاشرے کے ثقافتی اقدار کمزور ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ معاشرہ جلد بربادی کے دہانے پر پہنچنے والا ہے۔ اپنے پچھلے کالم میں جو کہ غالبا ایک سال پہلے لکھا تھا ۔ جس میں میں نے معاشرے کے ایک اہم ثقافتی پہلو شادی بیاہ کے موقع پر ہونے والی ہماری ثقافتی موسیقی اور اس میں شامل ہونے والی غیراخلاقی اور انتہائی غیر مہذب سرگرمیوں سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی تھی۔ میں اُن تمام دوستون،مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگون، بیرون ملک کام کرنے والے اپنے اُن بھائیوں جنہون نے نہ صرف میرے اس کالم کو سراہا بلکہ اپنے قیمتی ارا سے بھی نوازا کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ انہون نے معاشرے میں ثقافت کے نام پر ہونے والی اس بے ہودگی اور غیر مہذب افعال کی نہ صرف حوصلہ شکنی کی بلکہ ان معاشرتی ناسور افعال کی روک تھام کے لئے تجاویز بھی دیں۔ مگر افسوس صد افسوس کے ساتھ میں آج اس اہم مسلے پر پھر سے قلم اُٹھانے پر مجبور ہُوا ہوں کیونکہ ایک سال گزرنے کے باوجود اور اس مسلے کی تدارک کے لئے اسماعیلی کونسل گرم چشمہ کی جانب سے کئی بار گزارشات اور احکامات کے باوجود بھی لوگون کے کانون میں جوں تک نہیں رینگی اور بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہم نے پھر سے وہی کرتوت اور وہی بے ہودگی کا نہ صرف مظاہرہ کیا بلکہ اس سے بھی دو قدم آگے نکل گئے۔نہ شراب بند ہوا اور نہ میخانے ختم ہوئے، نہ شرابی نوجوان سے کوئی پوچھنے کی اور اُسے جھنجھوڑنے کی جسارت کی گئی۔ نہ نوٹون کی بارش کا سلسلہ تھم گیا اور نہ ہی دولت کے اس بے دریغ استعمال پر کسی سے پوچھ گچھ کی ہمت کی گئی۔ کھل عام شراب کے استعمال پر نہ کسی کے خلاف پرچی کٹی اور نہ مست شرابی نوجوان کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر داخل زندان کیا گیا۔ یہ ہے ہمارے معاشرے کے مہذب موسیقی کا وہ حال جو قدیم دور کے انتہائی شائستگی اور مہذب محفل سے نکل کر اب جدید معاشرے کے نام سے ہونے والی خرافات کی بھینٹ چڑ ُچکاہے اور ہزار سعی کے باوجود بربادی کے دھانے پر ہے۔ یہاں میں ہرگز کسی ثقافتی محفل یا دھول ژیری کی مخالفت نہیں کررہا کیونکہ یہی موشیقی ہماری ثقافت کا ایک بہت اہم عنصر اور پہچان ہے ،میں صرف اور صرف اس میں شامل ہونے والی ان غلط اور بے ہودہ عادات کے خلاف برملا اواز اٹھانے کی پہلے بھی کوشش کی ہے اور اب بھی اور ائندہ بھی اس روح پرور موسیقی میں شامل کئے جانے والی ان بد عادات اور غیر مہذب افعال کے خلاف لکھتا رہوں گا جب تک ان کا تدارک نہ کیا جائے۔ ہماری پولیس روایتی طور پر اور حسب سابق ایسے محفلون میں نہ کسی کے خلاف پرچی کٹواتی ہے اور نہ ان زمہ دارون کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں لاتی ہے کیونکہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے مواقع پر اکثر یہ کارندے اُس رات کسی نہ کسی ساقی کےہاں مہمان بن وارد ہوتےہیں اور اس محفل کو انجوائے کرنے پہنچ جاتے ہیں ۔ جب قانون کے رکھوالوں نے ہی کھلی چھوٹ دے دی ہو تو پھر ڈر کس بات کا۔ ساری رات محفل سے پہلے، دوران اور اختتام تک شرابی نوجوانون کا یہ ٹولہ عیش اور بےہودگی کا داستان رقم کرتے ہیں ۔ لڑائی جھگڑون کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور گروپ در گروپ ناچنے کے دوران ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی تگ و دو جاری رہتی ہے یوں ثقافت کی اصل روح اور لطافت ختم ہوجاتی ہے ۔ بڑے بڑے نامور شخصیات کے بارے میں ُسنا ہے اور لوگ عینی شاہد بھی ہیں جو پیسون کی بارش کرنے اور شراب سے لطف اندوز ہونے کے لیے اس محفل میں پہنچ جاتے ہیں اور پھر اس اوارگی اور بے ہودگی پر کوئی بولنے والا نہیں ہوتا۔ علاقے کے معزز بزرگ کا کون پوچھتا ہے ، یا گاون کے مکھی کامڑیا کی بات کون سنے اور حد تو یہ ہے کہ کونسل کے پریزیڈنٹ کے واضح احکامات کے باوجود کوئی سننے اور ثقافت کے نام پر ہونے والی اس بد تہذ یبی کو روکنے پر تیار نہیں ۔ نہ والنٹرز کا پوچھا جاتا ہے اور یوں ہم انکھون سے دیکھنے اور کانون سے واضح سننے کے باوجود اندھے اور بہرے بن کر تہذیب کی اس کھل عام موت پر رقصان ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ اب مردون کی اس محفل میں زنانے اتنے قریب آکر بیٹھتے ہیں کہ کسی بیرون کلب کا گمان ہوتا ہے ہمارے اس کمزروری اور بے حسی سے فائدہ اٹھا کر دور دراز سے شرابی نوجوانون کا قافلہ بھی آن پہنچتا ہے اور پھر بے ہودگی کی انتہا اور ہم ہیں کہ ُبت کی طرح ساکت رہ کر اپنے اس بے حسی پر کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ِان خواتیں کو اس محفل میں انے کی اجازت ہی نہیں ہونی چاہیئے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اب دھول ژیری میں صرف اس مخصوص گاون کے لوگ ہی شامل نہیں ہوتے بلکہ شراب اور بھنگ کے دیوانے جہان کہیں بھی ہوں وہ وہان ان پہنچتے ہیں اورپھر شراب سے لت اس نوجوان کا کیا بھروسہ ۔ اس اہم اور سنجیدہ موضوع کو زیر بحث لانے کا مقصد یہ ہے کہ اب دھول ژیری میں کوئی مہذب ڈانس کرنے، اس روح پرور موسیقی سے دل بہلانے اور انجوائے کرنے نہیں آتا بلکہ نہایت ہی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان میں اکثریت ان لوگون اور نوجوانون کی ہوتی ہے جو شراب اور دیگر منشیات سے لت ہوکرصرف اور صرف لڑکیان دیکھنے اتے ہیں اور کچھ نہیں ۔ اگر اس دھول ژیری میں خواتین کا آنا بند کر دیا جائے تو خدا کی قسم میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس میں صرف اور صرف 10 فیصد لوگ شرکت کرین گے اور وہ بھی مہذب اور موسیقی سے اصل محبت رکھنے والے لوگ ، بلکہ یہ کہنا کہ رات کی موسیقی کا رواج اسی طرح دھیرے دھیرے سے ختم ہوجائےتو بے جا نہ ہوگا۔ اور اس سے یہ بات روزِروشن کی طرح عیان ہوگا ہم میں سے کتنے اپنے اس شاندار موسیقی سے محبت کرتے ہیں اور خرابات کے دلدادے کتنے ہیں۔ ایک بار پھر میں یہ بات دھراتا چلوں کہ دھول ژیری ہماری روایتی موسیقی ہے ،اس کی دل نشینی اور اس کی شرینی کا جواب نہیں لیکں ہم ہی نے اسے تسکین روح بنانے کی بجائے اور اس سے قدرتی طور پر محسور ہونے کی بجائے اسے شراب اور دیگر معاشرتی ناسور افعال کے حوالے کرکے اپنی شاندار اور روح پرور ثقافت کےاس اہم عنصر کا جنازہ نکال دیا ہے ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔