دادبیداد………..تحریک انصاف کی حکمت عملی

………….ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ ………..

پاکستان تحریک انصاف کے گزشتہ 4سالوں میں اپنی عوامی طاقت یا سٹریٹ پاور کو تسلیم کر الیا ہے مئی 2018میں عام انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوگا نومبر تک تمام پارٹیاں انتخابی معرکے میں ہونگی پی ٹی آئی کے پاس صوبے میں حکومت کرنے کے لئے ڈیڑھ سال رہ گئے ہیں اور انتخابی مہم میں نتیجہ لانے کے لئے دو سال کا عرصہ ہے ریلی ،جلسہ اور دھرنے میں آنے والے 10لاکھ لوگوں کو ،اگر 50حلقوں میں ووٹ ڈالنے کے لئے کہا جائے تو بمشکل 5ممبران اسمبلی منتخب ہوسکینگے کیونکہ اصل کام پولنگ اسٹیشن میں نتیجہ دکھانا ہے ریلی میں لودھرا ں کا بندہ بھی آتا ہے ،چترال کا بندہ بھی آتا ہے ان دونوں کا ووٹ الگ الگ حلقوں میں ہے اور جو لوگ انٹرنیٹ پر سیاسی سر گرمیوں میں مصروف ہیں ان کا کوئی ووٹ بھی نہیں 12سال کا بچہ مخالف سیاستدان کا خوبصورت کارٹون بنا سکتا ہے اُس کے نا پسندیدہ جانوروں سے تشبیہ دے سکتا ہے مگر پولنگ اسٹیشن پر آکر ووٹ نہیں ڈال سکتا 2013 کے الیکشن میں ایسا ہی ہوا تھا پنجاب ،سندھ ،اور بلوچستان پی ٹی آئی کے ہاتھ سے نکل گئے خیبر پختونخوا میں قومی وطن پارٹی اور جماعت اسلامی کے تعاون سے حکومت بن گئی 2018کے انتخابات میں بہتر کا کردگی دکھانے کے لئے پی ٹی آئی کے بانی آراکین نے کامیاب حکمت عملی وضع کی ہے مگر شرط یہ ہے کور کمیٹی بھی بانی اراکین کی تجاویز سے اتفاق کرے اس حکمت عملی کے چار اجزاء ہیں اس کا پہلا جز وہ یہ ہے کہ پارٹی کی تما م تنظیموں کو بحال کیا جائے 2012کے انٹر ا پارٹی الیکشن میں جو تنظیمی ڈھانچہ قائم ہوا تھا ۔ اس تنظیمی ڈھانچے کو اختیارات دیکر فعال کیا جا ئے اور اسی تنظیمی ڈھانچے کو لیکر 2018 کی انتخابی مہم کے لئے تیاری کا آگاز کیا جا ئے۔ تاکہ ریلی ، جلسہ، دھرنا وغیرہ کے لئے وزرا ء کو ٹاسک دینے کے بجائے پارٹی کے ضلعی عہدیداروں کو زمہ داریاں سونپ دی جائیں۔ وزراء پارٹی عہدیداروں کی مدد کریں۔ الیکشن مہم کے دوران موجودہ وزراء اپنے عہدوں پر نہیں ہونگے ، ان میں سے ہر کوئی اپنے حلقے میں جاکر انتخابی مہم چلا رہا ہوگا پارٹی کی تنظیم صوبائی اور ضلعی سطح پر انتخابی مہم کو مر بوط اور منظم کریگی ۔ پارٹی کے سر براہ کا استقبال کریگی۔ اس کے لئے جلسوں کا انتظام کریگی۔ اس حکمت عملی کا دوسرا جزو یہ ہے کہ صوبائی بجٹ اور سالانہ ترقیاتی پروگرام کو خرچ کرنے کا پلان تیار کیا جا ئے۔ 3 بجٹ خرچ کئے بغیر واپس کئے گئے ۔ چوتھے بجٹ کا ایک سہ ماہی گزر گیا۔ 30 فیصد خرچ ہونا چا ہیئے تھا 5 فیصد خرچ نہیں ہوا۔ ٹھیکدار بے روز گار ہے۔ کاریگر بے روزگار ہے۔ عوام ترقیاتی سکیموں سے محروم ہیں۔ اگلے انتخابات میں یہ طبقہ تحریک انصاف کے سامنے دیوار بن کر کھڑا ہو جا ئے گا۔ عوامی نشنیل پارٹی کی جو اسکمیں چار سالوں سے ادھوری پڑی ہیں وہ تمام سکمیں PTI کے مخالفین کو جیتنے کے مواقع فراہم کرینگی۔اس لئے ترقیاتی پروگرام پر عمل درآمد بہت ضروری ہے ۔ تیسرا جرو بیحد آسان اور بہت اہم ہے۔ پنجاب ، سندھ ، بلوچستان ، آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان میں پارٹی کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا کی سابقہ کامیابی سے بھر پور فائدہ اٹھایا جا ئے۔ پاکستان میں حکومت لے آنے اور اور تبدیلی کے ایجنڈے پر عمل در آمد کرنے کے لئے پورے ملک میں پارٹی کی تنظیم ہونی چا ہیئے۔ پنجاب میں شاہ محمود قریشی ، جہانگیر ترین اور چودھری محمد سرور کے باہمی اختلافات سے جو مسائل پیدا ہو ئے ہیں ان پر قابوپانا بہت ضروری ہے خیبر پختونخوا میں اس قیصر نے پارٹی کو جس طرح منظم کیا تھا ۔ وہ مثالی تنظیم تھی۔ اس تنظیم کی وجہ سے اے این پی سیمت پشاور ، نو شہرہ ، مرادن ، سوات ، جنوبی اضلاع اور ہزارہ میں پارٹی کو کامیابی مل گئی۔تجربہ سامنے ہے اس تجربہ سے دوبارہ فائدہ اٹھانا چاہئے اس حکمت عملی کا چوتھا جز و اگر چہ کامیابی کنجی ہے لیکن قابل عمل نہیں ہے حکمت عملی یہ کہ تحریک کے چیئر مین کو اگلے دو سالوں کے لئے پشاور کو مرکز بنانے کا مشورہ دیا جائے مہینے میں 15دن پشاور میں گزار دیں یہاں کے لوگوں سے ملیں ،مسجدوں میں نماز پڑھیں ،اضلاع کے دورے کریں کارکنوں کے کنوشن منعقد کریں بلدیاتی نمائندوں کے کنونشن منعقد کریں ہوسکے تو اپنے دو نوں بیٹیوں کو پشاور کے سرکاری سکولوں میں داخل کریں یہاں مثالی پولیس آگئی ہے مثالی نظام تعلیم آگیا ہے چیئرمین کے دونوں بیٹے پشاور میں ورسک روڈ پر صوبے کے بہترین سرکاری سکول میں داخل ہونگے تو صوبے کے عوام کے لئے بہت بڑی خوش خبری ہوگی اساتذہ ،طلبہ اور سرکاری افیسروں کے لئے بڑا کارنامہ ہوگا اعزاز ہوگا خان صاحب خیبر پختونخوا کے اخبارات پڑھینگے یہاں کے صحافیوں سے ملنگے ،وکلاء،ادیبوں ،شاعروں ،فنکاروں اور کھلاڑیوں سے ملینگے اینکر پرسنز کو بلائینگے تجریہ کاروں ،پرو فیسروں اور کالم نگاروں سے ملاقاتیں کرینگے تو عوامی رابطے میں آسانی ہوگی اور قومی اسمبلی کی 20سیٹیں صوبائی اسمبلی کی 65سیٹیں خیبر پختونخوا سے جیت سکنیگے پنجاب سے قومی اسمبلی کی 100اور صوبائی اسمبلی کی 180سیٹیں آگئیں تو آسانی سے پی ٹی آئی کی حکومت آئیگی اس کے سوا تبدیلی کے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے یہ تجا ویز مخالفین نے نہیں دیں پارٹی کے بانی اراکین نے دی ہے یہ وہ لوگ ہیں جو 1992سے اب تک عمران خان کے مداح ہیں ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔