آہ ماسٹر رحمت نگاہ

…………احسان شہابی……..

کچھ لوگ بہت کم جیتے ہیں مگر بھر پور جیتے ہیں۔ زندگی کو اس انداز سے برتتے ہیں کہ ان کے جانے کے بعد پیدا ہونے والا خلا پر ہونے کا نام نہیں  لیتا ۔  بلکہ عرصے تک تو ان کے انتقال کا یقین بھی نہیں آتا۔ جب یہ گہر ہائے آبدار مٹی تلے جا سو تے ہیں تو دل سے صدا اٹھتی ہے ۔
مقدور ہوخاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گہر ہائے گراں مایہ کیا کیے
ان کی وفات کا مہینہ گزر گیا ، میں نے بار ہا کوشش کی کہ ان کی شخصیت پر چند سطریں  لکھنے کی کوشش کروں مگر ہر مرتبہ قلم نے جواب دیا ۔
دھیمے او میٹھے لہجے میں باتیں کرنے والا ماسٹر رحمت نگاہ کا تعلق چترال کے شمال میں واقع تحصیل تور کہو کے گاوں ریچ تھا ۔ آپ اس پسماندہ گاوں کے اپنے زمانے کے گنے چنے تعلیم یافتہ لوگوں میں شمار ہوتے تھے ۔ گریجویشن کرنے کے بعد مقامی پرائیو یٹ سکول میں مدرس کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیتےرہے  ۔ طبیعت  میں حلم اور بردباری کا عنصر غالب تھا ۔ اس لیے سب ان کا احترام کرتے تھے ۔ اس فتنہ ساماں دور میں جبکہ نیکی اور بدی کی تمیز اٹھ گئی ہے ایسے حلیم و ابریشم مزاج لوگ کہاں ملتے ہیں۔ مدرسی کے ساتھ ساتھ سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ۔ اسماعیلی برادری کے لوکل طریقہ بورڈ کے صدر بھی رہے ۔ اس پلیٹ فارم سے ہمیشہ مقامی غریب لوگوں کی داد رسی کی کوشش کی ۔   اپنی بساط کے مطابق ہمیشہ آسانیاں بانٹتے رہے۔ آپ ایک بہترین استاد ،مستقل مزاج سماجی کارکن تھے ۔ جیتے جی  مصروف رہنے والے اس انسان  کو میں نے  بےکار بیٹھے نہیں پایا ، کار استاذی سے فراغت ملتی تو سماجی کاموں میں مصروف ہوتے ان سے فرصت ملتی تو گھر کے کام کاج میں جت جاتے۔ حقیقت پسندی میں فرد تھے ، کھاتے پیتےگھرانے سے تعلق ہونے کے باوجود ہمیشہ انکساری ، تواضع اور بردباری کا راستہ اختیار کیا ۔ اس لیے ہر عمر کے لوگوں اور شاگردوں میں ہمیشہ مقبول اور پسندیدہ رہے ،  درس و تدریس کے پیشے سے عشق تھا اس لیے قلیل معاوضے کے باوجود تادم مرگ اس پیشے سے منسلک  رہے ۔ ان کے شاگردوں کا خیال ہے ایک بہترین استاد کی ساری خوبیاں ان میں موجود تھیں ۔ ہنسی مزاق اور خوشگوار ماحول میں  تفہیم و تدریس کا عمل موثر انداز سے آگے بڑھتا ہے اور ماسٹر رحمت نگاہ اس فن سے خوب واقف تھے۔ انہیں دیکھتے ہی طلبہ وطالبات کے معصوم چہرے کھل اٹھتے تھے۔ انسان کی بڑھائی کے سارے معیار مصنوعی ہیں سوائے جائز پیشے کے۔ جو اپنے پیشے کے ساتھ مخلص او ر اپنے کام میں ماہر ہوتا ہے حقیقت میں وہی بڑا انسان ہے۔ ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے سب قائل تھے۔
بیمار ہوئے تو اتنے سخت جان تھے کہ درد کو عرصے تک سہتے رہے ۔ آخر کار گھر والوں کی اصرار پر علاج کے لیے پشاور گئے ۔ مرض کینسرتشخیص ہوا ، اپنی بساط سے بڑھ کر علاج معالجہ کرایا مگر  مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ جب جانا ٹھرتا ہے تو کو ئی دارو دوا کب اثر کرتا ہے۔
بیماری کے دنوں میں اس بظاہر نرم دل اور نرم مزاج شخص کی سخت کوشی اور بہادری دیکھ کر میں چکرا گیا ۔ بستر مرگ پہ قہقہے لگانے والا یہ پہلا شخص تھا جو میں نے زندگی میں دیکھا ۔ اس کی مزاج پرسی کو جاتا تو ڈھیڑ ساری باتیں کرتا ، افاقہ ہوتا تو ہنسی مزاق ہوتی اور قہقہے تک نوبت آتی ۔ اس کے قہقہے بے حد دلفریب ہوتے تھے ۔ بالکل پہاڑی جھرنوں کی سی ۔ سردیوں کی دوپہروں میں ہم گاوں کے کچے گھروں کی چھتوں پہ بیٹھ کر جب تاش کھیلا کرتے تھےتو کبھی کبھی وہ بھی شامل ہوتے اور ایکا چھپا کر پتا جیت لیتے اور ہنسنا شروع کرتے تو ارد گرد کے پہاڑ بھی گونچ اٹھتے۔ حس مزاح بھی بڑا اچھا پایا تھا اس لیے بات بات پر ہنستے ، ہنساتے اور لوٹ پوٹ جاتے ۔ امور خانہ داری  اور بچوں کی تربیت میں چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھتے تھے ۔ اللہ نے انھیں چار بیٹوں سے نوازا ہے ۔جو کہ ہر لحاظ سے بے مثل ہیں ۔ ان کو اپنی موت کا یقین تھا لیکن وہ اتنے حقیقت پسند اور بہادر  تھے کہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آخری دم تک مسکراتے رہے ۔ انسان کی حقیقت پسندی یہ ہے کہ موت جیسی حقیقت کو تسلیم کریں ۔
محنت ، عظمت اور انسان دوستی پر یقین رکھنے والا یہ جی دار شخص مرنے کے بعد اپنے خاندان ، برادری  اور شاگردوں سمیت ڈھیڑ سارے لوگوں کو اداس کر گیا ۔ کیوں اس نےزندگی میں سب کو امن و آشتی ، محبت ، حقیقت پسندی اور محنت کا درس دیا اور خود بھی ان پر کار بند رہا ۔ کسی کو ستایا نہیں ، جھوٹ نہیں بولا ، شیخیاں نہیں بگھاری ، کسی کو دکھ نہیں پہنچایا ۔
مجھے کبھی کبھی ان کی موت جھوٹ لگنے  لگتی ہے ، میرے اندر سے آواز آتی ہے بھلا ایسے لوگ بھی مرتے ہیں کیا ۔ لیکن پھر اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ قہقہے اور جھرنوں کی سی ہنسیاں ہمیشہ کے لیے تہہ خاک چلی گئیں ۔تیز تیز قدموں سے چلتے وہ دھان پان تھا انسان تا حشر پھر دکھائی نہیں دیگا۔
حق معفرت کرے عجب آذاد مرد تھے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔