وادی کھوت کے بڑے منصوبےواٹر سپلائی اسکیم میں بدترین کرپشن کا انکشاف۔۔۔۔۔

چترال(نمائندہ چترال ایکسپریس)اہلیان کھوت نے ایک اخباری بیان میں کہا ہے کہ2009 میں وادی کھوت میں شروع ہونے والا واٹر سپلائی اسکیم تاحال نامکمل ہے بتایا جارہا ہے کہ اس منصوبے کے لئے دو کروڑ کے لگ بھگ فنڈ مہیا کئے گئے تھے اور بعد ازاں پراجیکٹ کی تکمیل سے پہلے ہی ٹھیکدار نے مرمت کے نام مزید چھپن لاکھ روپے لیکر غائب ہیں اس پراجیکٹ کو اگر احسن طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جاتا تو وادی کھوت کی 80 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی کی سہولت سے مستفید ہوسکتی تھی لیکن بدقسمتی سے ٹھیکدارعوامی فنڈ کو مال غنیمت سمجھ کر ہتھیا گئے اور مزے کی بات ہے کہ کسی ادارے کے فرد کو توفیق نہیں ملی کہ سات سال تک چلنے والے اس پراجیکٹ کا ایک بار معائنہ کرتا ۔ پائپ لائن کے لئے وادی کھوت میں عام طور پر دو سے ڈھائی فٹ کھدائی کی ضرورت پڑتی ہے لیکن اس پائپ لائن کے لئے بمشکل چھ انچ کھدائی کی گئی تھی اور لائن بھی مین روڈ پر بچھائی گئی ہے جس کی وجہ سے گاڑیوں موٹر سائیکلوں اور پیدل چلنے والے افراد کے لئے شدید مشکلات پیش آرہی ہیں پائپوں کے اوپر سے مٹی نکل چکی ہے اور پائپ سڑک کی سطح سے بھی اوپر پڑے ہوئے ہیں ۔وی سی ناظم کھوت عبدالحمید نے اس کے خلاف احتجاج درج کرایا ہے کہ اس پراجیکٹ میں ہونے والے کرپشن کی انکوائری کی جائے اور منصوبے کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچایا جائےاُنہوں نے کہا کہ ہم اہلیان کھوت ناظم  کے ساتھ ہیں اور متعلقہ اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ سرکاری خزانے کو جس بے دردی سے لوٹا گیا ہے اس کا حساب ذمہ داروں سے لیا جائے ڈھائی کروڑ میں سے ٹھیکدار نے بیس لاکھ بھی اس پراجیکٹ پر خرچ نہیں کیا ہے ، اس سلسلے میں کچھ ذمہ دار افراد سے رابطہ کیا گیاہے  مگرانہوں نے انکوائری کی یقین دہانی تو کرائی ہے لیکن تاحال وہ سب خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں صوبائی حکومت سرکاری فنڈ کے درست استعمال پر توجہ نہیں دے رہی جس کا فائدہ کرپٹ عناصر اٹھا رہے ہیں آپ تمام دوستوں سے گزارش کہ علاقے کی وسیع تر مفاد کومد نظر رکھتے ہوئے ناظم صاحب کی آواز پر لبیک کہ کر بھرپور احتجاج کے لئے تیار رہے اور اس آواز کو صوبائی حکومت متعلقہ افراد اور اداروں تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔