باہمی محبت کا نسخہ

………….تحریر :اقبال حیات آف برغذی………..

پیدل سامان پیٹھ پر اٹھائے سفر کرنے کے دور کا زکر ہے کہ ایک شخص بالائی چترال کے ایک گاؤ ں سے گزر رہا تھا ۔سڑک سے متصل کھیت میں مویشیوں کو چرانے والی تین خواتین بیٹھی تھیں۔مسافر جب خاموشی سے ان کے قریب سے گزرا توایک خاتون کہتی ہیں کہ’’یہ تو بالکل وہ ہے’’دوسری خاتون کہتی ہیں‘‘مگر اس کے وہ نہیں ہیں’’ تیسری خاتون کہتی ہیں کہ ’’ان کے نہ ہونے سے کیا وہ نہیں ہوسکتا ‘‘ اس ’’تورکہو ویچی وار‘‘یعنی پہیلی قسم کے الفاظ کے پس پردہ جوبات پوشیدہ ہے وہ اس مسافر شخص کی طرف سے خواتین کو سلام کئے بغیر گزرنا ہے۔ جس کی وجہ سے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں بغیر سینگ کے بیل سے منسوب کیا گیا ہے۔ یہ اس لاعلمی کے دور میں سلام کو انسانیت کی نشانی تصور کرنے کا مظہر ہے۔ درحقیقت سلام سلامتی سے ماخوذ ہے۔ اوریہ ایک مسلمان معاشرے کی نشانی ہے۔ اور ایک مسلمان کے اپنے مسلمان بھائی کے لئے نیک خواہشات اور آرزوں کی حیثیت رکھنے کے ساتھ ساتھ آپس کے حقوق میں شامل ہے۔ آدم علیہ السلام کی طرف سے فرشتوں کو سلام کہلوانے اور فرشتوں کی طرف سے جواب دینے سے سلام کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ سرکار دو عالم ﷺ سلام کو عام کرنے اور پھیلانے کی تاکید فرماتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے معاشرے کے اندر باہمی محبت،اخوت اور یگانگت کو فروغ اور بڑھاوا ملے ۔سلام میں پیشر فت کرنے والا زیادہ ثواب کا حقدار ہوتا ہے۔ البتہ سلام کے قواعد و ضوابط بھی اسلام میں وضع کئے گئے ہیں۔جن کی پاسداری بھی ضروری ہے۔ سوار کو پیدل چلنے والے کو ،پیدل چلنے والابیٹھے ہوؤں اور چھوٹوں کو بڑوں کو سلام میں پہل کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ سلام کہنا سنت رسولؐ اور جواب دینا واجب ہے ۔بدترین دشمن کو بھی سامنے آنے پر سلام کہا جائے تو قدرتی طور پر اس کے دل میں دشمنی کی آگ مدہم ہونا یقینی امر ہے۔ سلام کرنے کے لئے جان پہچان اور آنجان کی کوئی تفریق نہیں ہونی چاہیے ۔بلکہ ہر سامنے آنے والوں کو ان نیک آرزوں سے ایک دوسرے کو نوازنا ہے۔ سلام کی ادائیگی سلام کے بتائے ہوئے الفاظ پر مبنی ہونا چاہیے۔ سر ہلا کر یا ہاتھ کے اشارے سے سلام کا کوئی رنگ دین اسلام میں نظر نہیں آتا ۔حقیقی الفاظ کے زریعے مسلمان مرد وخواتین کا ایک دوسرے کو سلام کا سوغات پیش کرنے کے سوا کسی دوسرے الفاظ اور انداز کی کوئی اہمیت نہیں۔البتہ اگر کوئی انانیت کی بنیاد پر دوسروں کی طرف سے سلام کو اپنا حق تصور کرتاہو تو اس کو سلام نہ کہنے کی ہدایت ملتی ہے۔تاکہ اس کی کبرونخوت اور رعونت کو بڑھاوا نہ ملے ۔خطوط اور دوسروں کی وساطت سے بھی سلام کا تبادلہ کیا جاسکتا ہے۔ اور محبت وخیر خواہی کا یہ گلدستہ دوست احباب اور اہل وعیال کو بیجھا جاسکتا ہے۔
اصولی طور پر بچپن سے ہی اپنے بچوں کو سلام کے الفاظ سے آشنا کرنے اور اس کی عادت ڈالنے کی طرف توجہہ دینے کی ضرورت ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہم بحیثیت مسلمان اپنے بچوں کو اغیار کی نقالی کی طرف راغب کررہے ہیں۔ سلام کی بجائے ٹاٹا، بائی بائی ،ہیلو وغیرہ الفاظ کی ادائیگی پر فخر محسوس کرتے ہیں۔جو نہ صرف اسلامی اقدار سے انحراف بلکہ غلامانہ ذہنیت کی علامت ہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔