دھڑکنوں کی زبان ……….’’ایک ہفتہ ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال میں‘‘

…………….محمد جاوید حیات ………….

میں ڈی ایچ کیو ہسپتال کے سرجیکل فیمل وارڈ کے باہر لان میں سردی سے ٹھٹھر رہا تھا ۔غمزدہ لوگ آ جا رہے تھے ۔کسی کی ماں بیمار تھی ۔کسی کا بچہ ۔کسی کا باپ ۔۔ کوئی بہن کے غم میں تھا ۔کوئی بھائی کے درد میں ۔۔سبوں کی زندگی سکڑ گئی تھی ۔کسی کے ہاتھ میں دواوں کی چٹ تھی ۔کوئی ٹسٹ رپورٹ اٹھائے ہوئے دوڑرہا تھا ۔۔کوئی ایکسرے کے ساتھ تھا ۔۔چہرے بتا رہے تھے کہ درد کے ماروں کی کیسی زندگی ہوتی ہے ۔۔کبھی کبھی دو مصیبت زادے ایک دوسرے کے قریب آتے چہرے پڑھتے ’’درد‘‘کے حوالے سے تعارف ہوتا ۔۔انسان غم غلط کرتا ہے ۔۔مگر افسردگی دور نہیں کر سکتا ۔۔۔ڈاکٹروں کا بے تابی سے انتظار ہوتا ۔۔مسیحا آتے ۔۔پھر چلے جاتے ۔کسی کی خاص ڈھارس نہ بندھاتے ۔نہ مریض کے نہ تیمار دار کے ۔۔۔یہ کھاؤ ۔۔وہ مت کھاؤ ۔۔یہ لو وہ نہ لو ۔۔پھر بھی تیمار دار ان کی مسیحائی کے قربان ہو جاتے ۔۔وقت گویا تھم سا جاتا ۔۔کب شام ہوتی کب صبح ہوتی ۔۔کسی کو اندازہ نہ ہوتا ۔۔تیمارداروں کی افسردگی مریضوں کی آہ وکراہ کی وجہ سے تھی ۔ان کی کراہ تھم جاتی ۔تو تیمارداروں کی آہ بھی رفو ہوجاتی ۔۔ان بے چین تیمار داروں کے اضطراب میں اس وقت مزید اضافہ ہوجاتا ۔جب جب کسی ڈاکٹر یا نرس کا انتظار ہوتا ۔۔نرسیں ہمہ وقت ڈیوٹی پر ہوتیں ۔۔وارڈ کے ایک کنارے ان کے لئے ایک بوتھ بنا ہوا یہ چوبی گیلری نما چھوٹا سا دفتر تھا ۔۔یہ اپنی کر سیوں پر ہوتیں ۔۔وقتا فوقتا آآکر مریضوں کی مسیحائی کرتیں ۔۔پھر وہاں جا کر بیٹھ جاتیں ۔۔سر نیچے کرکے اپنے موبائل سے کھیلتیں ۔ ۔کسی تیماردار کے بلانے پہ جھٹ سے پہنچ جاتیں ۔دارو دوا کرتیں وارڈ کا ماحول گھر کا سا تھا ۔۔دردمشترک ،ضرورت مشترک ،غم مشترک تھے ۔دل ایک ساتھ دھڑکتے تھے ۔۔مرد حضرات وارڈ کے اندر نہیں جا سکتے تھے۔کوئی کسی مجبوری پہ جاتے ۔تو نرسوں کی طرف سے شکایت نہ ہوتی ۔۔ اس کی مجبوری محسوس کی جاتی ان کے درد پڑھے جاتے ۔۔یہ میرا چھٹا دن تھا ۔میری مریض کی آہیں اور کراہیں مسکراہٹوں میں بدل گئیں تھیں ۔رب نے مجھ پہ کرم کیا تھا ۔۔مجھے ڈاکٹرون کے سلوک اور نرسون کی خدمت شرافت اور بہترین سلوک پہ پیار آیا ۔۔یادوں کی کتاب میں سب الفاظ بن کر ثبت ہوگئے ۔۔ڈ اکٹرنور الدین صاحب کی اصول پرستی کا احساس تھا ۔پورے چترال میں ایک سرجن اپنے معاون ڈاکٹر رشید کے ساتھ چوبیس گھڑی قوم کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں خدمت میں خلوص ہو توخدمت عبادت بن جاتی ہے ۔۔کسی کی تعریف کرنا اگر چہ ٹھیک نہیں مگر خدمت کا اعتراف زندہ قوموں کی پہچان ہے ۔۔زندہ قومیں اپنے سپوتوں سے زندہ رہتی ہیں ۔۔مجھے اچھا لگا ۔۔جب نوجوان ڈاکٹر صہیب ،ڈاکٹر اسرار اور ڈاکٹروں کو اپنے کام میں ہمہ تن مصروف اور مریضوں کے ساتھ ان کا رویہ دیکھا ۔اس کے چہروں پہ مسیحائی کی چمک تھی ۔ان کی اکھیوں میں خدمت کا جذبہ تھا ۔اچھا لگا ۔جب انتہائی نگہداشت کے سٹور کے انچارج شرف الدین کو ہر ایک سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ ’’دوائی باہر سے نہ خریدو یہاں پہ دستیاب ہیں ۔‘‘سب غمزدوں کے دلوں سے خود بخود ان کے لئے دعا نکل رہی تھی ۔۔سرجیکل وارڈ کے سٹور کے کے انچارج ولایت خان کا حسن سلوک اور وارڈ میں رات کو ڈیوٹی دینے والے ایوب الرحمن کا اپنی نیند کا قربان کرنا ۔۔۔مجھے اس خدمت اور فرض شناسی پہ فخر ہوا جو نرسیں اس وارڈ میں انجام دے رہی تھیں ۔۔ہاں یہ میرا چھٹا دن تھا ۔میں ڈرتے ڈرتے نرس تیغون نساء کے پاس گیا ان کی اور فاطمہ جمال کی خدمت کا دبے لفظوں اعتراف کیا ۔۔ان کو اپنے جاب پہ فخر ہے ان کی آنکھوں میں مسیحائی کی چمک ،لفظوں میں اعتماداور ہاتھوں میں شفقت ہے ۔۔ان کو احساس ہے کہ ان کا تعلق مجبوروں سے ہے ۔۔وہ ہمہ وقت درد کے ماروں کے درمیان ہوتے ہیں ۔ان مجبوروں کی حالت زار پہ ان کے بھی دل دھڑکتے ہیں ۔ان کی آنکھوں میں بھی آنسو آتے ہیں ۔۔مگر ان کا کام مرض کو شکست دیناہے ۔درد مٹانا ہے ۔تکلیف کے سامنے ڈٹ جانا ہے ۔سفینہ حسین ،ہاجرہ اسلام اور شریفہ کو اپنی ڈیوٹیوں میں مخلص پایا ۔۔قوم کی بیٹیاں قوم کا درد محسوس کر رہی تھیں ۔انھوں نے اپنے وارڈ کو خدمت سے بھر دیا تھا ۔انھوں نے بیمار پرسی اور تیمارداری کو ایک مہذب کلچر میں بدل دیا تھا ۔۔۔ ۔۔آج نرسو ں کی تعداد ۸۰ سے زیادہ ہے ۔ہسپتال کا چلڈرن وارڈ اور لیبر روم دوسری عمارت میں شفٹ ہو گئی ہے ۔۔ڈاکٹروں کی تعداد بڑھی ہے ۔۔دو د وارڈوں کے لئے ایک ڈاکٹر ڈیوٹی پہ ہوتا ہے ۔انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں ہمہ وقت ڈاکٹر ڈیوٹی پہ ہوتا ہے ۔ٹسٹ ہورہے ہیں ۔الٹرا ساونڈ کا ماہر ڈ اکٹر موجود ہے ۔مگر اس کے ساتھ احساس ضرورت کو اور شدد سے محسوس کیا گیا ۔۔محسوس کیا گیا کہ ڈاکٹروں اور نرسوں کے لئے ہسپتال کے اندرہی رہائشی کواٹر ز بنائی جائیں ۔تاکہ وہ ہنگامی صورت حال میں موجود رہیں ۔۔ڈاکٹروں کی تعداد اور زیادہ ہو۔جدید مشینیں نصب کی جائیں ۔ماہرین امراض قلب موجود ہوں۔سی ٹی سکین ،ایم آر ائی کی سہولیات موجود ہوں ۔ورنہ ڈاکٹرز جدید طریقہ علاج سے عاجز ہوتے ہیں ۔اس وارڈ سے ملحق واش رومز گرائے گئے ہیں ۔ضلعی انتظامیہ ان کی دوبارہ تعمیر کے لئے کوشان ہے ڈپٹی کمشنر چترال اگر درد کا مزید احساس کرے ۔اور اپنی بہنوں ،بیٹیوں اور ماؤں کو ویل چیر میں بیٹھ کردور واش روم جا کر منہ ہاتھ دھو کر واپس آنے سے بچائیں ۔۔اور ڈھیر ساری دعائیں ضلعی انتظامیہ کے حصے میں آئیں ۔۔ایک مرحلے پہ دل چاہا کہ آواز دوں ۔۔آو درد کے مارو اپنے ہسپتال کو صاف کرتے ہیں کوئی ملک پیک کا خالی ڈبہ اٹھاؤ،کوئی جوس کا ،کوئی خالی شاپنگ بیگ اٹھاؤ کوئی کجرے اٹھاؤ ۔۔پھر میری آواز خلق میں اٹک گئی ۔۔۔مجھے یقین ہے کہ میری قوم میں غیرت آگئی ہے ۔اللہ میری پاک سر زمین کو سلامت رکھے ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔