داد بیداد ………دو پارٹیوں میں یونیورسٹی حرام

……….ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ…………..

اگر چہ بات رسوائی کی ہے مگر بات سچ ہے کہ سال 17 – 2016 کی اے ڈی پی میں خیبر پختونخوا کی حکومت نے چترال کے لئے جو یونیورسٹی رکھی ہے وہ یونیورسٹی بننے والی نہیں ہے صوبے کے اندر پاکستان تحریک انصاف یہ سمجھتی ہے کہ یونیورسٹی بنانے کا فائدہ جماعت اسلامی کو ہوگا صوبے سے باہر ایسا ظلم ہوا ہے کہ وزیر اعظم محمد نواز شریف نے چترال میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے چترال کے یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا مسلم لیگ (ن)کی قیادت کے ساتھ صوبائی حکومت کی پکی دشمنی ہے اگر یونیورسٹی بن گئی تو اس کا فائدہ مسلم لیگ کے کھاتے میں جانے کا خطرہ اور خدشہ ہے اس لئے صوبائی حکومت اور صوبائی سطح پر ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے یونیورسٹی کے منصوبے کو سرد خانے میں ڈال دیا ہے اے ڈی پی کے چھ مہینے گزر گئے ابھی تک ایک ورق کا غذ نہیں لکھا گیا صرف وزیر اعلیٰ کی زیر صدارت میٹنگ میں اعلیٰ تعلیم کے دیگر اداروں کے ساتھ چترال یونیورسٹی کا بھی ذکر آیا تھا آگے پھر اندھیرا چھا گیا چترال کی مجوزہ یونیورسٹی 2014 سے زیر غور ہے اس کے چار فریق ہیں سرکاری عمارت میں قائم عبد الولی خان یونیورسٹی اپنی عمارت ،اپنا انفرااسٹرکچر اپنا کیمپس چترال یونیورسٹی کو دینے پر 2014 میں بھی آمادہ تھی اب بھی امادہ ہے اس کی عمارت میں چترال یونیورسٹی کے آٹھ تدریسی شعبوں کے ساتھ ایک انتطامیہ شعبے کو جگہ دینے کی گنجائش مو جود ہے اور یونیورسٹی انتظامیہ تعاون کر رہی ہے دوسرا فریق کرائے کی عمارت میں کیمپس قائم کرنے والی شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی شیر ینگل ہے اس کی انتظامہ 2014 سے اب تک چترال کے لئے الگ یونیورسٹی کو نہیں مانتی اپنے کیمپس نئی یونیورسٹی میں ضم کرنے پر آمادہ نہیں تیسرا فریق صوبائی حکومت کا ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ہے اور چوتھا فریق وفاقی حکومت کا ہائیر ایجوکیشن کمیشن (HEC) ہے نئی یونیورسٹی بنانے کا اصول یہ ہے کہ اس میں کم از کم سات تدریسی شعبے ہوں کم از کم 50 پی ایچ ڈی اساتذہ ہوں کم از کم 600 طلبہ اور طلبات کی تعداد ہو دونوں کیمپس ضم ہوجائیں تو تینوں میں سے دو لوازمات پوری ہوتی ہیں عبدالولی خان یونیورسٹی کے پاس پی ایچ ڈی اساتذہ بھی دستیاب ہیں اُن کے کیمپس میں مینجمنٹ سائنسز ،پولیٹکل سائنس ،اکنا مکس اور سوشیالوجی کے 4 شعبے قائم ہیں سٹیٹ آف دی آرٹ بلڈنگ موجود ہے شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی کے پاس انگلش ،کمپیوٹر سائنس ،باٹنی اورزوالوجی کے 4 تدریسی شعبے ہیں کیمپس کی تعمیر کیلئے صوبائی حکومت نے سیدآباد کے مقام پر زمین خریدی ہے تعمیراتی کام ابھی شروع نہیں ہوا اگر سیاسی دشمنی کے مسائل سامنے نہ ہوتے اور بونیر،صوابی ،پلوسی ،اپر دیر ،لوئر دیر ،سوات ،مردان یا کوہاٹ کی طرح چترال کو الگ یونیورسٹی دینے کا معاملہ زیرغور ہوتا تو اگست 2016 ء میں کسی بڑے یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی سطح کے تجربہ کار افیسر کو اپراجیکٹ ڈائریکٹر مقرر کر کے اختیارات اس کو دیدئے جاتے گریڈ22 افیسر مثلاً ڈاکٹر ناصر علی خان یا ڈاکٹر احسان علی یا ڈاکٹر خان بہادر مروت کو اس کا پراجیکٹ ڈائریکٹر مقرر کیا جاتا تو اس کیلئے چاروں فریقوں کو ایک میز پر لاکر بات کو آگے بڑھانا آسان ہوتا ایک چارٹر ڈ اکاوٹنٹ فرم کے ذریعے دونوں یونیورسٹیوں کے کیمپسز کے اندر اثاثہ جات اور قابل ادائیگی حسابات (Assets and laibilities) کا جائزہ لیکر پروفیشنل رپورٹ تیار کی جاتی پھر داخلے کے اعلانا ت کئے جا تے داخلے کے اعلانات کے ساتھ دونوں کیمپسز کو یونیورسٹی آف چترال کا درجہ مل جاتا ان کا باقاعدہ انضمام ہو جاتا نومبر میں نئی یونیورسٹی کام شروع کرتی اگر جنوری یا فروری میں گریڈ 22 کے پراجیکٹ ڈائریکٹر کا تقرر ہواتو اگلے سال جولائی میں گریجویٹ پروگرام کے داخلوں کا اعلان ہونا ممکن ہو جائے گا ورنہ 2017 میں بھی چترال یونیورسٹی نہیں بنے گی اخباری بیانا ت میں سیاسی کارکنوں ،سماجی اداروں اور معاشرتی و ثقافتی تنظیموں کی طرف سے جو مطالبات سامنے آتے ہیں ان میں سطحی طورپر یونیورسٹی کے قیام کو پرائمیری سکول یا ویلج کونسل کی طرح آسان کام سمجھا جاتا ہے حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے ایک پروفیسر 35 یا 40 سال سروس کرتا ہے بین لاقوامی جرائد میں اس کے 200 ایمپیکٹ فیکٹر تحقیقی مقالے شائع ہو تے ہیں دو یا دو سے زیادہ کامیاب یونیورسٹیوں کی کامیاب سربراہی کا تجربہ رکھتا ہے تب کہیں جا کر وہ نئی یونیورسٹی قائم کر سکتا ہے نئی یونیورسٹی کے قیام میں تین بڑے امور زیرغور ہوتے ہیں سب سے پہلا کام اکیڈمکس کا ہوتا ہے کم از کم 8 تدریسی شعبوں کے لئے پی ایچ ڈی اساتذہ ،لائبریری ،لیبارٹری وغیرہ کا انتظام سب سے مقدم ہوتا ہے یونیورسٹی کے ساتھ ملحقہ کالجوں کی نگرانی بھی اس میں شامل ہے چار سالہ گریجویٹ پروگرام آنے کے بعد یہ کام بہت مشکل ہوگیا ہے اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کے لئے فنڈ نگ اور اس سلسلے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کر کے کم سے کم مدت میں زیادہ سے زیادہ فنڈنگ کا حصول بیحد ضروری ہے اس کو پروفیشنل انداز میں لیا جانا چاہئے تیسرا بڑا کام یہ ہے کہ یونیورسٹی کیلئے ملکی سطح پر اور بیرون ملک دیگر یونیورسٹیوں کا تعاون و اشتراک حاصل کیا جائے ملاکنڈ یونیورسٹی کے پہلے چھ سال ضائع ہوگئے شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی کے ابتدائی 4 سال ضائع ہوگئے نئی یونیورسٹی کا قیام کے وقت ماضی کے نام تجربات کوبھی سامنے رکھا چاہئے اعلی تعلیم کا ادارہ قوم کا مستقبل ہوتا ہے اُس کی بنیادیں مستحکم ہونی چاہئیں اس کو سیاسی اور علاقائی مفادات کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہئے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے ڈیڑ ھ سال رہ گئے ہیں 2017 میں صوبائی حکومت کا بجٹ اس کے ترقیاتی وژن کا آئینہ دار ہوگا اس کے بعد انتخابی مہم شروع ہوگی اس لئے وقت کم ہے اور کام زیادہ ہے ملاکنڈ ڈویژن میں چار نئی یونیورسٹیاں بننے والی ہیں ان کے لئے موجودہ اور سابقہ وائس چانسلروں میں سے چار پراجیکٹ ڈائریکٹروں کا تقرر فروری 2017 تک ہونا چاہئے اس لئے HEC کا معیار موجود ہے کامیاب تجربہ کی مثالیں بھی موجود ہیں بلا شبہ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے درمیان سیاسی مقابلہ بھی ہے صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کے درمیان سیاسی رنجش بھی ہے لیکن قوم کے مستقبل کا تقاضا یہ ہے کہ ’’دو پارٹیوں میں یونیورسٹی حرام ‘‘نہ ہو یہ دو ملاوں میں مرغی حرام سے کئی گنا بڑا نقصان ہوگا

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔