ہشاش بشاش استاد کی دائمی نیند

تحریر: فراز خان فراز چرون

رب العزت کا واضح ارشادہےکہ دنیا کی زندگی  محض کھیل کود کے ہیں اور آخرت کی زندگی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہےکاش آپ نہیں جانتے۔اکثر لوگ دنیا کی زندگی  کوسب کچھ سمجھتے ہوئے دولت جمع کرنے کی فکر میں ہوتے ہیں اوراس دولت  کو اپنی ذات پر خرچ کرنے کو بھول جاتے ہیں اور ایک دن ایسا آجاتا ہے کہ ملک الموت فرشتہ اپنی ڈیوٹی  پر حاضر ہوجا تاہےاور دنیا کی ساری لذت ہم سے چھیں لیتا ہے۔ کاش ہم فانی دنیا میں محو ہونے کی بجائےاس کی اصلیت کو سمجھتے ہوئے مادیت پرستی کو اپنا شیوہ نہ بنا لیتے  اور دو روزہ زندگی کو دین اسلام کے مطابق بسر کر لیتے  اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شاعر نے یوں  کہا ہے

دین آخرت کا  واعظ دنیا  ہوس کی بانی

جھگڑے میں پڑھ گئی ہے انسان کی زندگانی

بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں  جو دنیا کی زندگی کی اصلیت کو جانتے ہوئے  اس فانی اوردو روزہ زندگی کو اور اللہ تعالی کی  دی ہوئی مہربانیوں کو درست اورہشاش بشاش طریقے سے استعمال کرتے ہوئے دینا کی زندگی سے  لطف اٹھاتے ہوئے  اس مقام کو ہمیشہ کے لئے الوداع کرتے ہیں۔آج  میں جس ہشاش بشاش انسان کے بارے میں   چند جملے لکھنے  جارہاہوں  وہ  آج سے تقریبا ۷۱ سال قبل     چترال  کے  زئیت نامی نگری میں آنکھ  کھولی اپنے والدین کا اکلوتا  بیٹا  ہونے کے سبب پرورش بھی   لا ڈ پیار سے ہوتا رہا کیونکہ جس گھرانے  سے تعلق تھا  وہ    گھر بھی  ہر حوالے سےخوشحال اور گھر کا سربراہ بھی اپنی  خوش مزاجی کیوجہ سےلوگوں کی توجہ کا مرکز تھا  شرافت کی ہنسی مزاح اس بیٹے  کے باپ     کامشغلہ تھا اس وجہ سےآپ کے  گھر میں آنےوالے لوگوں سے ہر وقت اس کا واسطہ پڑتا رہتا تھا۔جو بھی  اس کےگھر آتےدل بہلانے کے لئے آتے نہ کہ غیبت کے لیے  ایسے ماحول میں پرورش پانے والا  بچہ جب ہوش سنبھالتاہے تو اپنی  ذمہ داری اٹھانے اور  حب الوطنی کو اپنا شعار بنانے کی خاطرپیشہ وارنہ زندگی کاآغاز چترال اسکاوٹ سے کیا اور۱۸ سال باعزت زندگی گزارنے کے بعدملازمت سے سبکدوش ہوگئے اوردوبارہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا خیال آیا  اوردرس وتدریس کے مقدس پیشے کو  اختیار کیا اورساٹھ سال کی عمر میں اس پیشے کو بھی خیر آباد کہا دوران ملاز متچترال کے مختلف کے سرکاری سکولوں میں ڈیوٹی انجام دیتے رہے اور کھبی  بھی  شکایت کا موقع نہ  دیا  ۔ اس کے علاوہ  مذ ہبی  ،سماجی اور اعزازی  خدمات  بھی  انجام دیتے رہے۔بحثیت استاد جن سکولوں میں  ڈیوٹی  سرانجام  دیتے رہےان میں گورنمنٹ  ہائی سکول چترال ، گورنمنٹ  ہائی  سکول    چو نج اور گورنمنٹ  ہائی سکول بانگ خاص طور پر قابل زکر ہیں ۔ گورنمنٹ ہائی سکول بانگ اور چونج میں زیادہ عرصہ رہے اور وہ دونوں سکولوں کی بات کرکےفخرمحسوس کرتے  تھے اور کہتے تھے کہ میرے  بے شمار   ہونہارشاگرد ہیں تاہمان میں  سے ڈپٹی کمشنر فضل خالق      ، گل بہار وائس  پریذیڈنٹ  حبیب بنک پاکستان اور ڈپٹی  کمشنرعبدوالسلام میرے     تربیت    کے بہتریں  حوالے  ہیں۔اور اپنی ہشاش بشاش  زندگی کا راز  بھی یہی بتایا کرتے تھے اور  یہ جملہ باربار دہراتے تھے کہ میرے بے شمار  شاگرد ہیں    اس  لیے میں کھبی بھی بوڑھا نہیں ہوتا ۔اس قول کو  پورا کرنے والا یہ استاد  ایک ذمہ دارباپ کا حق بھی پورہ کرنے کی غرض سےاپنے سب سے چھوٹے  بیٹے کی شادی کی رسم چند ماہ قبل ادا کردی تھی۔یہ عظیم استاداور مشفق باپ مرحوم محمود الحسن چند دن پہلے چکر کی غرض سے گھر والوں کو  اکیلاچھوڑ کرپشاور جانے کا فیصلہ ہر گزاس مقصد کے لئے نہیں کیا  تھا بلکہ ایک  ا چھا  باپ  ہونےکا حق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بڑے بیٹے کوگھر کی سرپرستی حوالہ کر  کے یہ پیغام دینا چاہتا تھا کہ میں  نےاپنا کام تمام کر دیا اب گھر کی ذمہ داری آپ  کی لہذا  آپ اپنا کام سنبھا لو     ںاور مجھے آزاد چھوڑ دو ۔اظہار اشاروں کی زبان سے کرتے ہوئےاپنا گھر بیٹے کے حوالے کرکےپشاور کی طرف منہ  کرتا ہے  بہت جلد موت کا فرشتہ آجاتا ہے بہانہ  دل کا اچانک دورہ        ہوتا ہے  اور موت کی خبر پھیل جاتی ہے  اور جاننے والے  سب جدائی پر اشکبارہوتے ہیں اور  سب   چاہنےوالےکہتے ہیں۔اللہ آپ کی روح کو دائمی سکون نصیب کرے۔(آمین)

                                                                                            اے دل تو بھی خاموش ہو جانا                             آغوش میں غم کو لے  کےسو جانا

 

 

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔