خودشناسی کا فقدان

…………..تحریر : اقبال حیات آف برغذی ………….

یہ دنیا ایک ا سٹیج ہے اور یہاں آنے والا ہر فرد اس اسٹیج کا کردار ہے اور اپنا رول ادا کر کے غائب ہو تا ہے ۔ ہر ایک کے کردار کی نوعیت مختلف ہو تی ہے ۔ کوئی اپنے اچھے کردار کی بنیاد پر امر ہو جا تاہے ۔ اور کوئی بدکرداری کی وجہ سے قیامت تک نفرت کی آغوش میں چلا جا تا ہے اور اس کا نام سنتے ہی دل کی دنیا متعفن ہو تی ہے ۔ بحر حال یہ نصیب کی بات ہے کہ کو ن کس قسم کا کردار ادا کر تا ہے ۔ ہر اچھے کام کو سراہتے اور بر ے کام سے نفر ت انسانی فطرت کا حصہ ہو نے کی وجہ سے ہر قسم کے کردار کے بارے میں رائے قائم کیا جا تا ہے ۔ یوں آج صدیا ں بیتنے کے باوجود کو ئی فرعون اور نمرودکے ناموں سے اپنے بچوں کو منسوب کر نے کو تیار نہ ہو گا ۔ اور بلال نام کو عزت و تکریم کی نشانی کے طور پراپنا یا جائے گا ۔
اس کائنات میں انسانی خدمت کے اعتبار سے پہلا نام میرے عظیم پیغمبر محمد مصطفےﷺ کا اسم گرامی آتا ہے ۔ جن کے احسانات سے تا قیامت پوری انسانیت فیضیاب ہو تی رہے گی ۔ اس کے علاوہ مختلف اوقات میں مختلف افراد مختلف اقوام اور معاشروں کے اندر نمایاں کر دار ادا کر تے ہیں جنکی بنیاد پر وہ ان معاشروں میں تعظیم و تکریم کے حقدار ٹھیرائے جا تے ہیں ۔ زندہ قوموں کے اندر نہ صرف ایسے افراد کو بلکہ ان کی اولاد کو بھی قدر و عزت سے نوازا جا تاہے ۔ اور اس میں کوتاہی کو بے حسی سے تعبیر کیا جا تا ہے ۔
بد قسمتی سے ہم چترال کے باسی من حیث القوم جہاں اپنوں کی قدردانی کی صفت سے عاری ہیں اور گھر کی مرغی دال برابر کے مصداق کسی شعبے میں با صلاحیت چترالی کے احترام کو عار محسوس کر تے ہیں اور غیر مقامی نا اہل افراد کے لئے ادب واحترام کے ہاتھ سینے پر سجائے رکھتے ہیں وہاں اس علاقے کے لئے مختلف شعبوں میں کا ر ہائے نمایاں انجام دینے والے مشاھیر کو بھی بھول کر یاد نہیں کر تے ان کے اعزاز میں نہ کوئی دن منا یا جا تا ہے اور نہ کسی تقریب کا اہتمام کیا جا تا ہے ۔ ایسے نابعہ روز گار شخصیات میں
مو لانا نور شاھدین آف چمرکن اور مولا نا محمد مستجاب خان المعروف اویر ومولانا شامل ہیں ۔ اول الذکر شخصیت کی اس علاقے کے عوام کو غلامی کے زنجیروں سے آزاد کر نے کے سلسلے میں دی جا نے والی قربانیوں کی بنیاد پر اگرمحسن چترال قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔ اور موء خرالذکر حضرت کے چترال کے اندر دینی خدمات کو فراموش کر نا احسان فراموشی ہو گی جو بدقسمتی سے آج ہم اس کیفیت سے دوچار ہیں ۔ ان کی خدمات کی قدردانی کا تذکرہ تو دور کی بات علاقے کے اندر کسی شاہراہ ، اداروں یا عوامی جگہوں کو بھی ان کے نام سے منسوب کر نے کی حس بھی نہیں رکھتے ۔ مادہ پرستی کے اس پر آشوب دور میں جبکہ انسان تفکرات اور پریشانیوں کے ہنوز میں ہاتھ پاؤں مار رہا ہو تا ہے کسی کے لئے مسکرانے کے مواقع فراہم کر نا بیش قیمتی تحفے سے مماثلت رکھتاہے
ہمارے علاقے کے اندر مسکراہٹیں بکھیرنے والے فنکار بھی ہماری نا قدری کے شکار ہیں ۔ نہ معاشرے کی طر ف سے ان کی حوصلہ افزائی ہو تی ہے اور نہ حکومتی سطح پر انھیں پزیرائی ملتی ہے ۔ منور شاہ رنگین، آفسر علی، غلام محی الدین ، عبدلجبار اورساتھیوں کو اپنے فن کے اعتبار سے دنیائے ظرافت کے آسمان پر جگمگاتے ستارے کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔ مگر افسوس انکی فنکارانہ صلاحیتوں سے استفادہ کر نے کے لئے نہ معقول پلیٹ فارم ہے اور نہ سراہنے کاجذبہ ۔ ان حقائق کی روشنی میں اپنی ٹوپی سے بے پناہ محبت کر نے والے کی حیثیت سے اپنے ضلع کے جوانسال ڈسٹرکٹ ناظم صاحب سے گذارش کر نے کاا ستحقاق رکھتا ہو ں کہ ہماری ثقافت کے ان اثاثوں کی حوصلہ افزائی کے لئے سرکاری سطح ہر اقدامت کر کے ہماری معاشرتی بے حسی کا مداوا کریں ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔