صدا بصحرا ……..ایمر جنسی کے لئے

………..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ………
پنجاب میں ایک لطیفہ بہت مشہور ہے ایک فوجی افیسر جیپ میں سفر کر رہا تھا گن مین ساتھ تھا گاڑی کو سپاہی مان سنگھ چلا رہا تھا ایک جگہ گاڑی رک گئی ڈرائیور نے کہا سر پیٹرول ختم ہوگیا ہے آگے پمپ ہے پمپ تک دھکا لگانا پڑے گا آفیسر اور سپاہی نے دھکا دے کر آدھ گھنٹہ بعد جیپ کو پمپ تک پہنچادیا ڈرائیور تیل بھرنے لگا افیسر تھوڑے فاصلے پر کرسی لگا کے بیٹھ گیا جب ٹینکی فل ہوئی تو افیسر نے آواز لگائی مان سنگھ جیر ی کین بھی بھر دو مان سنگھ نے فوجی انداز میں سیلوٹ مارا ،پھر کہا سر !جیری کین فل ہے ایمر جنسی کے لئے رکھا ہے خیبر پختونخوا کی حکومت کے پاس ہیلی کاپٹر ہے ایوی ایشن اسٹاف ہے اس شعبے کا پورا محکمہ ہے اس کا بجٹ ہے سیلاب آتا ہے گزرتا ہے زلزلہ آتا ہے گزرتا جاتا ہے ،برف باری ہوتی ہے گزر جاتی ہے بر فانی توڈے گرتے ہیں 20سے زیادہ قیمتی جانیں ضایع ہوئی ہیں 30 کے قریب زخمیوں کو ہسپتا لوں میں لایا جاتا ہے صوبائی حکومت کا کوئی نمائندہ ،کوئی افیسر ،کوئی وزیر کوئی عہدیدار عوام کا حال پوچھنے نہیں جاتا ،غم زدہ خاندانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی نہیں کرتا گزشتہ سال حویلیاں کے قریب ہوئی جہاز کے حادثے میں 29 جنازے چترال پہنچائے گئے صوبائی حکومت کا کوئی نمائندہ یا فیسر نہیں آیا ہم نے گزارش کی ہنگامی حالات میں کسی کو آنا چاہئے تھا انہوں نے جواب دیا راستے بند ہیں ہم نے عرض کیا ،ہیلی کاپٹر کس لئے ہے ؟انہوں نے برجستہ کہا ’’ایمر جنسی کے لئے ہے ‘‘سردار مان سنگھ بہت یاد آئے مگر کیا کیا جائے مرزا غالب نے کہا ہے
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہوجائینگے ہم تم کو خبر ہونے تک
جب بھی ایمر جنسی ہوتی ہے بازار میں آگ ،مو سم گرما کا سیلاب ،خزان کا زلزلہ ،موسم بہارکے برفانی تودے ،موسم سرما کی بر ف باری غرض کوئی بھی ایمر جنسی ہو سول انتظامیہ کہیں نظر نہیں آتی ،مجسٹریٹ ،پولیس ،انتظامیہ کے لوگ ،عوامی نما ئند ے نظر نہیں آتے پہاڑی اضلاع میں لیویز مو جود ہیں مگر ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہے کیونکہ سول انتظامیہ کے پاس کن ٹن جتنی پلان نہیں ہے ایمر جنسی کے لئے تیاری کا کوئی میکنزم نہیں ہے سی ایند ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ کے پاس مشینری ہے مگر استعمال کے قابل نہیں ہے دیہاتوں سے ٹریکٹر بلیڈ کرایے پر حاصل کر نے کے لئے فنڈ نہیں ہے صوبائی حکومت نے پچھلے 6 مہینے سے نان سیلیری بجٹ کا ایک پیسہ ریلیز نہیں کیا پیٹرول پمپوں سے تیل کی سپلائی بند ہوگئی ہے فیس بک پر مفت تصویر اور ایف ایم ریڈیو پر مفت انٹر ویو کے سوا کچھ بھی ان کے ہاتھ میں نہیں ہے اور اس مقام پر آکر عوام فوج کی طرف دیکھتی ہے سٹیشن کمانڈر کی طرف دیکھتی ہے اب لوگ ایم پی اے ،ڈپٹی کمشنر ،ضلع ناطم ، تحصیل ناظم اور ایم این اے کو فون بھی نہیں کر تے ۔ وہ قریبی فوجی چھاونی یا قریبی فوجی چوکی کا نمبر ملا تے ہیں وہاں سے نہ صرف جواب آتا ہے۔ بلکہ امداد بھی آتی ہے۔ ہمدردی بھی ہو تی ہے۔ مسئلے کو حل کرنے کا راستہ بھی نکل آتا ہے۔ سب سے بڑی بے بسی یہ ہو تی ہے کہ جب عوام اپنے منتخب نمائندے کی بے بسی کو دیکھتے ہیں ۔ پولیس افیسر مجسٹریٹ اور ضلعی انتظامیہ کی بے بسی کو دیکھتے ہیں منتخب ضلعی حکومت کی بے بسی کو دیکھتے ہیں او ر مایوس ہو جا تے ہیں۔ ان کو مسیحا صرف فوجی وردی میں نظر آ تا ہے۔ یہ مایوسی جمہوری حکومت ، انسانی حقوق ، سویلین انتظامیہ کے حوالے سے کتابوں اور اخباروں میں پڑھے ہو ئے تمام مواد کو جھٹلا دیتا ہے۔3 فروری کو چترال میں تاریخ کی سب سے بڑی بر فباری ہوئی 7 تاریخ تک بازار، ہسپتال اور ڈاک خانہ جانے کا راستہ صاف نہ ہو سکا ۔2 کلو میٹر راستے سے برف ہٹانے کاکام کسی نے نہیں کیا۔ تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ سی اینڈ ڈبلیو کسی کے ماتحت نہیں ہے۔ ٹی ایم اے کے پاس وسائل نہیں ہیں۔ ضلعی حکومت اور ضلعی انتظامیہ نے نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کو رپورٹ بھیجی ہے۔وہاں سے جواب آنے میں مہینہ یا ڈیڑھ مہینہ لگے گا۔ اصول اور قواعد کے تحت این ڈی ایم اے سے کاغذ کا بے معنی ٹکڑا پی ڈی ایم اے کو بھیجا جا ئے گا۔پی ڈی ایم اے کی طرف کاغذ کا فضول ورق واپس این ڈی ایم اے کو بھیجا جا ئے گا۔ اس اثناء میں برف کے نیچے دبے ہو ئے لوگ مر جائینگے، اگر فوجیوں نے موقع پر آکرزخمیوں کو نکالا ، ہسپتال تک پہنچایا ۔ لاشوں کی تجہیز و تد فین میں مدد کی تو یہ ان کی مہربانی ہو گی۔ فوجی نہ آئے تو سول انتظامیہ دروازہ بند کرکے بیٹھی رہے گی۔این ڈی ایم اے کو بھیجے گئے خط کا جواب آنے تک انتظار کرے گی۔ سی آئی اے کی حالیہ رپورٹ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ بھارت کی فوجی کمان نے 1965 ؁ء میں ملک کا انتظام اپنے ہاتھ میں لینے پر غور کیا تھا۔ مگر سول حکومت کی پھرتی ، مستعدی اور منتخب نمائند وں کی ذہانت اور ہو شیاری کی وجہ سے بھارتی فوج کی طرف سے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہو ئی۔ ہماری صوبائی حکومت کے پاس ہیلی کاپٹر ہے۔ مگر ایمزجنسی کے لئے ہے۔ ہم چترال میں ہیں ایمر جنسی کس چڑیا کا نام ہے۔ مزاح گو شاعر نسیم سحر نے علامہ اقبال کے غزل کی بیروڈی میں چند اشعار کہے تھے۔ایک شعر ہیلی کاپٹر پر صادق آتا ہے۔ جو کسی ایمر جنسی میں حکومت کے کام نہیں آتا ۔
تلاش کر کوئی سٹاپ درمیاں کے لئے
نہ تو زمین کے لئے نہ آسماں کے لئے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔