صدا بصحرا….انکشافات

………..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ ………..
کچھ باتیں اخبارات میں آتی ہیں وہ خبر کہلاتی ہیں مگر بعض باتیں اخبارات کی زینت نہیں بنتیں۔ کلاسیفائیڈ کہلاتی ہیں سرکاری فائلوں میں ہوتی ہیں ایسی باتیں ڈی کلاسیفائی ہوکر منظر عام پر آجائیں تو انکشافات کا درجہ اختیار کرتی ہیں کیا یہ انکشاف نہیں کہ سی آئی اے کی خفیہ رپورٹوں میں 40سال پہلے کے کاغذات سامنے آنے کے بعد یہ بات اخبارات میں آگئی ہے کہ اگست 1975ء میں واشنگٹن کو سی آئی اے حکام نے بھٹو کے قتل اور مارشل لاء کی رپورٹ بھیجی تھی ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ بھٹو حکومت مزید دو سال رہے گی چنانچہ جولائی 1977ء میں مارشل لاء آیا اپریل 1979ء میں بھٹوکو پھانسی دیدی گئی سی آئی اے نے دو سال پہلے بھٹو کی جگہ ضیاء الحق کواقتدار میں لانے پر کام کیا تھا کیونکہ 24اپریل 1978ء کو کابل میں کمیونسٹ لیڈر امیر خیبر کے قتل اور اس قتل کے نتیجے میں 27اپریل1978ء کو انقلاب ثور کی تاریخ پہلے سے طے شدہ تھی انقلابِ ثور کے وقت پاکستان میں بھٹو جیسا لیڈر حکومت میں ہوتا تو امریکہ کو کابل میں قدم رکھنے اور افغانستان کو امریکیوں کا فوجی اڈہ بنانے کی جرأت کبھی نہ ہوتی اس لئے ضیاء الحق کو پاکستان کی حکومت دے دی گئی سعودی عرب میں شاہ فیصل کا قتل بھی اس منصوبے کا حصہ تھا اب یہ انکشافات کا درجہ رکھتے ہیں اسی طرح مصر میں حسنی مبارک کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے عرب بہارکے منصوبے پر سی آئی اے نے پیسہ لگایا مگر نتیجہ برعکس نکل آیا تو دوبارہ پیسہ لگا کر محمد مرسی کو اقتدار سے ہٹانا پڑاعبدالفتاح السیسی کو حکومت دینے کی فوری ضرورت پیش آئی آج کل شام کے صدر بشارلاسد کی جگہ اپنے مطلب کا آدمی برسر اقتدار لانے کی انتھک کوشش ہو رہی ہے اس کوشش میں ساڑھے تین لاکھ بے گناہ شہریوں کو قتل کیا گیا ہے عالمی طاقتوں کی سکیم یہ ہے کہ 10لاکھ آدمی مارے جائیں 80لاکھ یا ایک کروڑ بے گھر ہو کر دربدر ہوجائیں تب بھی مشن کو مکمل کرنا ہوگا بشارالاسد کی جگہ ایسا آدمی لانا پڑے گا جو عبدالفتاح السیسی کی طرح اسرائیل کا پسندیدہ اور یہودیوں کا قابل اعتماد ہو شام کی زرعی پیداوار، شام کا تیل اور شام کی سرحدیں ہر حال میں اسرائیل کے پاس ہونی چاہیں اس عظیم مقصد کے لئے دس بارہ لاکھ لوگوں کا، خاص کر عرب مسلمانوں کا مرنا اور 80لاکھ یا ایک کروڑ کا بے گھر ہونا کوئی مسئلہ نہیں” اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں” شام کا واقعہ حالاتِ حاضرہ کے زمرے میں آتا ہے 2010ء سے پہلے وائٹ ہاؤں اور پنٹاگان میں اس کی منصوبہ بندی ہوئی تھی 2045میں سی آئی اے کا ریکارڈ پھر ڈی کلاسیفائیڈ ہوکر کامنے آئے گا تو پتہ لگ جائے گاکہ امریکی صدر باراک اوبامہ نے سعودی بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے ساتھ مل کر کتنی میٹنگوں میں شام کی خانہ جنگی کا منصوبہ تیار کیا تھا۔ تل ابیب ، ریاض اور واشنگٹن کے درمیاں کتنے خطوط کا تبادلہ ہوا ؟ 1521ستمبر 2012ء کی تاریخ کیوں موخر کی گئی ؟مئی 2014ء کا حملہ کیوں ناکام ہوا؟ یہ ساری باتیں 2045ء میں منظر عام پر آجائیں گی۔2008ء میں سابق جاسوس جارج فریڈ مین کی خود نوشت منظر عام آگئی تھی اپنی کتاب میں سابق جاسوس نے احمد شاہ مسعود کے قتل کا پس منظر تفصیل کے ساتھ لکھا ہے جارج فریڈ مین لکھتا ہے اگست 2000ء میں چند اہلکاروں کو ٹاسک دیا گیا کہ1 1ستمبر2001ء کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر گرائے جانے کے بعد افغانستان پر حملے میں مدد دینے کے لئے افغان مجاہدین کی قیادت کو اعتماد میں لیا جائے برہان الدین ربانی ، گلبدالدین حکمت یار ، صبغت اللہ مجددی ، احمد شاہ گیلانی اور عبدالرشید دوستم نے اتفاق کر لیا ساتھ دینے کا عہد کیا احمد شاہ مسعود اس پر راضی نہ ہوا اس نے ہر آفر کو ٹھکرادیا اپریل2001ء میں اوپر سے حکم آیا کہ 9ستمبر 2001کے دن اس کو قتل کیا جائے تاکہ دو دنوں کے بعد ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا حادثہ ہوجائے اور کسی کو بیرونی طاقت پر شک کرنے کا موقع نہ ملے افغانستان میں مقیم سٹیشن چیف کو ٹاسک دیا گیا کہ ملا عمر اور احمد شاہ مسعود کے درمیان لڑائی کا ماحول پیدا کیا جائے اس پر کام شروع ہوا ملا عمر کے کیمپ پر بڑا حملہ ہوا چالیس بندے مارے گئے فارسی بولنے والے لوگ حملہ آور کے طور پر گرفتار ہوئے انہوں نے اقرار کیا کہ احمد شاہ مسعود نے بھیجا تھاایک ماہ بعد سی آئی اے نے خود احمد شاہ مسعود کے کیمپ پر حملہ کروایا پشتو بولنے والا حملہ آور زخمی حالت میں گرفتار ہوا اس نے اقرار کیا کہ حملہ ملا عمر نے کروایا تھا 20دن بعد احمد شاہ مسعود مارا گیا تو لازمی طور سب نے طالبان اور ملا عمر پر الزام لگایا امریکہ کا نام کہیں نہ آیا جارج فریڈ مین نے اخبار نویس کے لبادے میں حملہ آور تیار کرنے ، ٹیپ ریکارڈر کے اندر بم نصب کرنے اور دیگر فنی و تکنیکی تفصیلات سے بھی پردہ اُٹھایا ہے جارج فریڈ مین کی کتاب اس قابل ہے کہ اردو، پشتو اور فارسی میں اس کا ترجمہ کرکے لاکھوں کی تعداد میں مارکیٹ کے اندر لایا جائے تاکہ ہمارے عوام اور خواص کو پوری طرح پتہ لگ جائے کہ حکومتوں کے خلاف تحریکیں کون چلاتا ہے؟ سرمایہ کون فراہم کرتا ہے؟ اور کیا مقاصد حاصل کرتا ہے؟ 1977ء سے اب تک تمام احتجاجی تحریکوں کا کچاچٹھا سامنے آئے گا دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوگا سی آئی اے کے خفیہ رپورٹوں کے تازہ ترین انکشافات بے حد اہمیت کے حامل ہیں بقولِ شاعر”اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں کے بعد”
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔