پس وپیش              …………    فاٹا کی بات 

        ……………. تحریر: اے ایم خان………

سرکاری اعدادو شمار کے مطابق چھ ایجنسیوں پر مشتمل فاٹا کی آبادی3.17  ملین اور غیرسرکاری اندازے کےمطابق 7 ملین آبادی یعنی ستر لاکھ پر مشتمل ہے. فاٹا میں ایک شخص کا آمدن   250ڈالر جوکہ قومی فی کس آمد ن  550 ڈالر کا نصف ہوتا ہے۔ فاٹا پر نافذ قانون ‘‘ ایف سی آر’’ یعنی (فرنٹیر کرایمز ریگولیشن) کی تاریخ برطانوی کالونیل دور    1846سے ہے جب برطانوی حکومت بلکہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے شمال مغربی اضلاع (موجودہ خیبر پختونخوا) اور پنجاب صوبے کیلئے پولٹیکل ایجنٹ نامزد کی۔بسا اوقات ایف سی آر کا یہ کالا قانو ن معمولی تبدیلی کے ساتھ نافذ العمل رہا۔ اُس زمانے کا وائشرائے لارڈ کرزن شمال مغربی اضلاع کو پنجاب سے 1901 کو الگ کی ، اور اسے ایک الگ صوبے کی حیثیت دے دی، لیکن یہ قانون فاٹا پر نافذ رہا۔

 ایف سی آر کا بنیادی مقصد اُس زمانے میں پشتون کی مخالفت کو کنٹرول کرنا اور برطانوی انتظامیہ کو اِس علاقےمیں مضبوط کرنا مقصود تھا۔ اِس قانون کے مطابق قبائیلی علاقوں میں انتطامی امور کو چلانے کا کام پولیٹکل اور اسسٹنٹ پولٹیکل ایجنٹ کو دی گئ۔ یعنی علاقے میں ہر سیاہ و سفید کا مالک اور ذمہ داری پولیٹکل ایجنٹ کے دائرہ اختیار میں دی گئی۔ شروغ میں برطانوی حکومت، اور بعد میں پولیٹیکل ایجنٹ اور قبائیلی الیٹ انتظامی اور عدالتی امور روایتی ‘‘جرگہ’’ کے ذریعے نمٹانے اور سنبھالنے کی ذمہ داری ادا کرتا رہا۔ قبائیلی علاقہ جات میں جرگہ کی اہمیت اور فیصلہ جات کے حوالے سے بہت کچھہ لکھا جا چُکا ہے، اِس وجہ سے اِس پر ایک الگ بحث ہو سکتی ہے۔

برطانوی حکومت مقامی الیٹ کو زمیں اور الاونس دے کر اور لے کر علاقے پر اپنے سیاسی اور انتظامی کنٹرول کو برقرار رکھتا رہا، اور اپنے سیاسی اور معاشی مقاصد کے حصول کیلئے پشتون ثقافتی اقدار ‘‘پختونولی ’’ کوڈ کی وقتا فوقتا خلاف ورزی اور استحصال کرتی رہی۔ ایک تحقیقی مقالے کے مطابق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ برطانوی حکومت گوکہ قبائیلی علاقہ جات کو روس کے زار کے خلاف ایک ‘‘بفرزون’’ استعمال کرتا رہا جسمیں افعانستان کے بادشاہ امان اللہ خان کے خلاف ایک بغاوت کو ہوا  اِس وجہ سے دی تاکہ وہ سرحد  پار افعانستان کے علاقے کی ترقی کیلئے کام شروغ کیا ،صرف اِس خوف سے کہ قبائیلی علاقے یعنی فاٹا کے لوگ بھی ایسے ہی ترقی کیلئے اقدامات کا مطالبہ شروغ نہ کر دیں!

 1947 کو ہندوستان کی تقسیم کے بعد قبائیلی علاقہ جات میں چار دہائی سے زیادہ عرصے تک نافذالعمل ایف سی آر معمولی تبدیلی کے ساتھ نافذ رہا، اور آج تک ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے قبائیلی علاقوں سے متعلق وزارت ‘‘سیفران’’ بنا  دی اور اِسے گورنر جنرل کے دائر ہ اختیار میں لے آئ ۔ 1956  کے آئین میں قبائیلی علاقہ جات کو ‘‘اسپیشل ایریاز’’ 1962 اور  کے آئیں میں ‘‘ٹرائیبل ایریاز ’’ یعنی قبائیلی علاقہ جات سے عبارت کی گئی۔ 1972 کے عبوری آئین کے تحت اِن علاقون کو ‘‘پاٹا’’ جس میں چترال بھی شامل ہوتا ہے، اور ‘‘کاٹا’’ بنا دی گئی ، اور اِن علاقوں کی انتظامی ذمہ داری ریاست پاکستان کے سربراہ مملکت کے دائرہ اختیار میں رکھ دی گئی، جسے خیبر پختونخوا کا گورنر بحیثیت مرکز کا نمائندہ استعمال کرتا رہا۔ پاکستان کے سابق صدر فاروق آحمد خان لغاری نے پہلی دفعہ فاٹا میں 1996 کو اظہار رائے دہی کا حق دیا ، اور علاقے کے لوگ اپنے رائے کا اظہار اپنے ووٹ کے ذریعے کئے۔

قبائیلی علاقہ جات میں ایف سی آر  کو پاکستان کے آئین کے تناظر اور اطلاق کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ قانو ن پاکستان کے آئین سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ قانون آئین میں موجود بنیادی حقوق، عورتوں کے حقوق، آزادی اظہار    سے تضاد اور بنیادی اِنسانی بنیادی حقوق کے معیار کو پورا نہیں کرتا۔4, 8,10,13, 14, 24, 25  اورآرٹیکل

ایک رپورٹ کے مطابق فاٹا میں لڑکوں کی  شرح تعلیم17.42  ، اور لڑکیون کا صرف 3 فیصدہے۔ اِس علاقے میں ریگولر، کمیونٹی اور مسجد سکولون کی تعداد 5589 ہیں جس میں  4480کام کررہے ہیں۔ اِس میں اُستاد اور طالب علم کا تناسب لڑکون کا 1:28 اور لڑکیون کا  1:31ے۔ پرائمیری لیول میں لڑکوں کا ڈراپ اوٹ ریٹ ۵۳ اور لڑکیون کا ۷۳ جبکہ سیکنڈری لیول میں یہ تناسب ۵۳ اور ۵۸ فیصدہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی اپنے دور حکومت میں فاٹا اور ایف سی آر کے حوالے سے اقدامات اُٹھانے کے حوالے سے اُس زمانے کے وزیرا عظم یوسف رضا گیلانی نے پارلیمنٹ میں فاٹا میں اصلاحات لانے اور ایف سی آر کو ختم کرنے کے اعلان پر علاقے کے لوگوں اور نمائندگان نے اِس فیصلے سراہا۔ بعد میں  2016کو فاٹا سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے ممبران نے پارلیمنٹ میں فاٹا کی انتظامی حیثیت کو ختم کرنے اوراِسے خیبر پختونخوا صوبے سے ضم کرنے پر پارلیمنٹ میں ایک بل کی تجویز دی۔ اور2016  کو فاٹا نظام عدل ایکٹ جس کے تحت ریاست فاٹا کے لوگون کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری لے لی، ساتھ  موجودہ حکومت فاٹا اصلاحات جوکہ اُس علاقے کے لوگوں کے خواہشات کے مطابق کروانے کے حوالے سے سرتاج عزیر کی نگرانی میں ایک کمیشن بنادی تاکہ علاقے میں اصلاحات کے حوالے سے سفارشات پیش کرے۔

 گوکہ چند سال سے فاٹا اصلاحات کو آگے لے جانا خصوصاً ‘‘ضرب عضب ’’ جوکہ وزیرستان اور قبائیلی علاقوں میں چل رہا ہے، سست روی کا شکارہے، اور اِس عمل میں کئی ایک پیچیدگیاں بھی ہیں۔ فاٹا میں کئی ایک عناصر فاٹا کو ریاست پاکستان کے آئینی اور قانونی دائرے میں لانے سے پریشان ہیں کیونکہ یہ اُن لوگوں کے ذاتی اور اجتماعی مفادات کے لئے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ ملک میں چند سیاسی رہنما اِسےسیاست کا شکار کرنےکی کوشش بھی کررہے ہیں تاکہ یہ عمل مزید چپقلش، پیچدگی اور سست روی کا شکار ہو۔ اُن سیاستدانون کے مطابق فاٹا کو ایک الگ صوبہ، قبائیلی روایات کو محفوظ کرنے کا معاملہ، اور ریفرنڈم کروانے کے تجویز سامنے آچُکا ہے جوکہ کم ازکم علاقے اور قانونی ضروریات کو پورا نہیں کرتا، اور یہ مطالبات جعرافیائی، اور منطقی لحاظ سے جگہ لے نہیں رہے ہیں۔ ایک دوسرے رپورٹ کے مطابق فاٹا کیلئے ڈیویزیبل پول کمیٹی نے3  فیصد بچت علاقے کی ترقی کیلئے مختص کرنے کی سفارش کی ہے ، بھی اختلاف کا باعث بن چُکا ہے۔

فاٹا کے حوالے سے صوبے کے سابق وزیراعلی امیر حیدر خان ہوتی اور پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان کے بیانات آئے ہیں ، بھی فاٹا کو صوبے سے ضم کرنے کی تجویز کی حمایت کررہے ہیں۔

فاٹا کی ترقی کا خواب اُس وقت تک تعبیر نہیں  ہوسکتا  جب تک یہ علاقہ ریاست پاکستان کے آئینی اور قانونی دائرہ اختیار میں نہیں لایا جائے ، اور یہاں لوگ حکومت میں شامل ہوجائیں۔ یہاں کے باسی اپنے رائے کا اظہار اپنے ووٹ کے ذریعے، تنازغات پاکستانی عدالتون میں، ترقیاتی فنڈز کا مطالبہ مرکزی اور صوبائی حکومت سے، تعلیم ،صحت اور دوسرے بنیادی حقوق کا مطالبہ قانونی اور جمہوری طریقے سے نہ کرلیں۔ اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت کے اِس کلچر کو آگے لے جانے کیلئے جمہوری عمل اِس علاقے میں لانے کی ضرورت ہے تاکہ فاٹا کے لوگ اِسے تجربہ کرکے اِس سے فائدہ حاصل کریں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔