داد بیداد…….قصاص، دہشت گردی اور سیاست

……….ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی……….

اخبارات میں وزیر اعظم کی زیر صدارت اعلٰی سطحی اجلاس کی خبریں لگی ہوئی ہیں ۔ یہ اجلاس ملک میں دہشت گردی کی نئی لہر کو رو کنے کے لئے منعقد ہو ا تھا ۔ اخبارات میں اجلاس کی جو خبر آئی ہے وہ حقیقت میں کوئی خبر ہی نہیں ۔ دہشت گر دی کے واقعات کی مذمت ،لا ہو ر، کو ئٹہ ، مہمند ، سیہون شریف اور پشاور میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے شہداکے لئے فا تحہ خوانی ، لوا حقین کے لئے صبر جمیل کی دعا اور افغان صدر اشرف غنی سے امن کی بھیک ما نگنے کا فیصلہ کوئی نئی بات نہیں ۔ ان با تون کے لئے اعلٰی سطحی اجلاس کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اگر اجلاس “سطحی”نہیں وا قعتا”اعلٰی سطحی “تھا تو اس میں چار بڑے فیصلے ہو نے چا ہئے تھے۔ پہلا یہ کہ جن 800دہشت گردوں کو فو جی عدالتوں سے پھا نسی کی سزا ہوئی ہے ان سزاوں پر فوری عملدر آمد کیا جا ئے گا 18فروری کے بعدروزانہ10پھا نسیاں شروع ہو جا ئینگی۔ دوسرا یہ کہ فوجی عدالتوں کو 18فروری سے دوبارہ اختیارات دیدے جا ئینگے۔ تا کہ جن 3ہزار دہشت گردوں کے مقدمات مختلف مرا حل میں ہیں۔ اگلے دو سالوں میں فوجی عدالتوں کے ذریعے سب کو پھانسی دی جا سگے گی۔ تیسرا یہ کہ ضرب عضب کو مزید تیز کر کے پنجاب کے شہروں میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کو پکڑا جا ئے گا ، لا ہور گو جرانوالہ ، مرید کے ، وہاڑی، فیصل آباد ، ملتان اور اٹک میں سرچ اپریشن کیا جا ئے گا خیبر پختونخوا کے اندر مردان، نو شہرہ، بنوں اور پشاور میں سرچ اپریشن کیا جا ئے گا ۔ چو تھا یہ کہ بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف فوج کو مزید اختیارات دید یے جا ئیں گے یہ چار اقدامات فوری تو جہ کے متقاضی تھے۔ ایک ہفتہ پہلے اطلاع آئی تھی کہ دشمن نے 12سالہ لڑکوں کو خود کش حملوں کے لئے وزیر ستان اور مہمند کے راستے پاکستان میں داخل کیا ہے۔ دہشت گردی کے چاروں اندوہناک وا قعات اس رپورٹ کے ہفتہ بعد رونما ہوئے اہم تا ریخوں پر غور کریں سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نو مبر کے مہینے میں ریٹائر ہوئے۔ ان کی جگہ جنرل قمر جا وید با جوہ نے پاک فوج کی کمان سنبھالی 16جنوری کو فوجی عدالتوں کی مدت پوری ہو گئی حکومت نے تین سیاسی جما عتوں کے کہنے پر فو جی عدالتوں کے قانون میں تو سیع سے انکار کیا ۔ ایک ما ہ بھی نہیں گزر ا تھا کہ لا ہور ، کو ئٹہ ، مہمند اور پشاور میں دہشت گردوں نے بڑے بڑے حملے کئے۔ اور پا کستانی قوم کو ایک بار پھر ہلا کر رکھ دیا ان اندو ہناک وا قعات کے بعد فوری اقدامات کی ضرورت تھی اور اقدامات کے لئے کسی اجلاس یا غور و فکر کی چنداں ضرورت نہیں تھی ۔ غور و فکر اور اجلاس کی ضرورت وہاں ہو تی ہے جہاں کو ئی نیا مسئلہ پیش آئے۔ دہشت گردی پرانا مسئلہ ہے۔ اپریل 1978ء میں افغان انقلاب کے ساتھ پاکستان دہشت گردی کی زد میں آگیا تھا ۔ 40سالوں سے یہ سلسلہ جاری ہے سامنے دو دشمن ہیں افغا نستان اور بھارت ، پس پردہ امریکہ اور امریکہ کے اتحادی ممالک ہیں نیٹو کا دہشت گردی میں اہم کردار ہے یہ پُرانی باتیں سب کو معلوم ہیں شاعر نے بڑی با ت کہی ہے ۔
پتا، پتا بو ٹا بوٹا حال ہمارا جا نے ہے
جا نے نہ جا نے گل ہی نہ جا نے ، با غ تو سا را جا نے ہے
اس کا علاج 16دسمبر2014کو آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کے بعد دریافت کیا گیاتھا 17دسمبر 2014کو پشاورمیں آل پار ٹیز کا نفرنس منعقد ہوئی اس کے بعد نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی گئی پارلیمنٹ سے فو جی عدالتوں کا قانون منظور کروایا گیا قانون پر عمل درآمد کے لئے ملک بھر میں فوجی عدالتیں قائم کی گئی سزائے موت کے قانون کو بحال کیا گیا 1997سے 2014تک جتنے مجروموں کی سزائے موت معطل کی گئی تھی ان کو سزائے موت دے دی گئی فوجی عدالتوں نے دہشت گردی کے گھناونے جرائم میں ملوث مجرموں کو سزائے موت سنائی بھارت اور افغانستان کے اندر دہشت گردی کی تربیت حاصل کر کے پا کستان آنے والوں پر خوف اور دہشت طاری ہو گیا غلام خان بار ڈر ، طو رخم یا چمن بارڈر اور دیگر سر حدوں سے دہشت گر دوں کو پشاور لا ہور اور کرا چی تک لے جا نے والے سہو لت کا روں کا پورا نیٹ ورک ٹوٹ گیا ۔ ایک دہشت گرد کم از کم 28دیگر افراد کی مدد سے کسی مقام پر دھما کہ یا خود کش حملہ کر تا ہے ایک حملے کے نتیجے میں کم از کم 29افراد کو سزائے موت ہو نی چا ہئیے ۔ اور یہ کام فو جی عدا لتوں کے بغیر ممکن نہیں تھی ۔ اب بھی فوجی عدالتوں کے بغیر ممکن نہیں قصاص قر آن کا حکم ہے شر یعت کی اصطلا ح میں اس حکم کو “نص”کہا جا تا ہے فو جی عدا لتوں کے مخالفین شریعت کے قرآنی حکم کو اور “نص”کو نہیں ما نتے اب حکومت کو سیاست میں مصلحت کا شکار نہیں ہو نا چا ہئیے۔ سیاست کا ملک ،وطن اور قوم کے ساتھ دوستی کا رشتہ ہو تا ہے دشمنی کا رشتہ نہیں ہو تا اس لئے طا ہر القادری نے چھہ سال پہلے نعرہ لگا یا تھا “سیاست نہیں مُلک بچاؤ “اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے حکمران اپنی قوم ، وطن اور ملک پر سیا سی مفادات کو قر با ن کریں ۔ اگر سیا ست دان یہ کام نہیں کر سکتے تو آرمی چیف جنرل قمر جا وید با جوہ کو آگے بڑھنا چا ہئیے ۔ اور دہشت گر دی کے خلاف پا ک فوج کی قر با نیوں کو را ئیگا نی سے بچا نے کے لئے اپنا وہی کر دار ادا کر نا چا ہئیے جو ان کے پیشرو جنرل را حیل شریف نے ادا کیا تھا ۔ اُمید کی آخری کرن جی ایچ کیو ہے قصاص وا حد ذریعہ ہے جو دہشت گر دی کو رو کنے میں معاون ثا بت ہو تا ہے اگلے دو ہفتوں میں سزائے موت کا قا نون پھر بحال ہو نا چا ہئیے اور فو جی عدا لتوں کو دوبارہ اپنا کام شروع کرنا چا ہئیے تا کہ دشمن کو دند ان شکن جواب دیا جا سکے ۔ کابل حکومت یا بھا رت سے امن کی بھیک ما نگنا بے معنی ہے ۔ہماری حکومت کو دسمبر 2014کی طرح پورے عزم کے ساتھ دشمن کے خلاف اپنا کام پھر سے جاری کرنا چاہیئے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔