صوبائی حکومت دستیاب وسائل کے مطابق تعلیمی اداروں کو بھر پور سہولیات دے رہی ہے۔وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ پرویز خٹک

پشاور(نمائندہ چترال ایکسپریس)وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے کہا ہے کہ سی پیک کے تناظر میں اس خطے کے عوام خصوصاً نوجوانوں اور نئی نسل کا مستقبل بڑا درخشاں ہے۔ مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر نوجوانوں کی تعلیم و تربیت ناگزیر ہے۔ ان کی حکومت صوبے بھر کے تعلیمی اداروں میں کوالٹی ایجوکیشن کے لئے کوشاں ہے۔ ضلع کی سطح پر یونیورسٹی کمپیس اور کالجز کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔ حکومت دستیاب وسائل کے مطابق تعلیمی اداروں کو بھر پور سہولیات دے رہی ہے۔ اب اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ صوبے میں مستقبل کی ضروریات اور جدید چیلنجز سے ہم آہنگ طلباء کی تعلیم و تربیت یقینی بنائیں۔ وہ وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ پشاور میں پشاور یونیورسٹی اور اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلرز اور مختلف وفود سے گفتگو کر رہے تھے۔ صوبائی وزیر میاں جمشید الد ین کاکا خیل، وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات و اعلیٰ تعلیم مشتاق غنی اور دیگر اعلیٰ حکام بھی اس موقع پر موجود تھے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ انکی حکومت شروع دن سے کوالٹی ایجوکیشن پر خصوصی توجہ دے رہی ہے ۔ صوبے کے عوام کو تعلیم و ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنا ان کا منشور اور وژن ہے۔ وہ انسانیت کی فلاح و کامیابی پر وسائل خرچ کرنے کو سب سے بڑا اور اہم ترین منصوبہ سمجھتے ہیں کیونکہ وہ ایک قوم پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ جو اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکے۔ ایک ایسی قوم جس میں صلاحیت ہو کہ وہ اپنی تری خود پلان کر سکے۔ جو اپنے مستقبل کی فیصلہ سازی میں بطور سٹیک ہولڈر شریک ہو سکے۔ وزیر اعلیٰ نے اس امر پرافسوس کا اظہار کیا کہ بے شمار قدرتی وسائل، بہترین جغرافیائی لوکیشن، بہترین موسم اور اعلیٰ ترین دماغ کے حامل نوجوانوں کے ہوتے ہوئے بھی یہ خطہ ترقی نہ کر سکا۔ جو سابق حکمرانوں کی نا اہلی ، سسٹم کی کمزوری اور اداروں کی بدحالی کا نتیجہ ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہمارے پاس وسائل بے شمار ہیں۔ ہر ضلع اتنے قدرتی وسائل رکھتا ہے جو اس کی ترقی کے لئے کافی ہیں۔ ہمارے ہاں متنوع موسم ہیں۔ جغرافیائی حیثیت سے یہ صوبہ پورے خطے بشمول وسطی ایشیائی ممالک کو باہم مربوط کر سکتا ہے۔ اگر ہم قدرت کی عطا کردہ ان نعمتوں کی قدر کرتے تو بہت آگے نکل چکے ہوتے۔ سی پیک نے صوبے کے قدرتی وسائل کی برتری اور اس خطے کی جغرافیائی اہمیت کو دوبالا کر دیا ہے۔ ہمیں اس منصوبے سے کما حقہ استفادہ کرنے کے لئے خود کو تیار کرنا ہے۔ مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر افرادی قوت تیار کرنی ہے۔ صوبائی حکومت نے مستقبل کے خدوخال وضع کر دئیے ہیں۔ سی پیک کے تناظر میں اپنے اہداف کا تعین کر لیا ہے۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ انکی حکومت ایک مربوط سسٹم کے تحت بتدریج آگے بڑھ رہی ہے۔ سرمایہ کاری کے فروغ اور معاشی ترقی کی سمت کا تعین کر لیا گیا ہے۔ سرمایہ کاری کے لئے موزوں حالات بنا دیئے ہیں۔ سرمایہ کاروں کو صوبائی صنعتی پالیسی کے تحت پرکشش مراعات دے رہے ہیں۔ ماضی کی کرپشن ، بدامنی اور لوٹ مار سے بیزار سرمایہ کار جو صوبے سے بھاگ رہے تھے اب واپس آ رہے ہیں۔ صوبے کے مختلف شعبوں میں اربوں ڈالر کے منصوبوں پر معاہدے ہو رہے ہیں جو بلا شبہ ایک روشن مستقبل کی نوید ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے واضح کیا کہ ترقی اور خوشحالی کے اس مجموعی پلان میں تعلیم و تربیت کا کلیدی کردار ہے۔ مستقبل تعلیم یافتہ اور ہنرمند جوانوں کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انکی حکومت صوبے میں کوالٹی ایجوکیشن کا نیٹ ورک بچھا رہی ہے۔ صوبے بھر کے سکولوں کو سہولیات دینے اور اعلیٰ تعلیم کا معیار بلند کرنے کیلئے اربوں روپے خرچ کئے جا رہے ہیں۔ ان کی حکومت اعلیٰ تعلیمی اداروں کو خود مختاری دینے کے لئے بھی سوچ رہی ہے۔ پیشہ ورانہ اور فنی تربیت کے لئے ٹیوٹا کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ صوبہ بھر میں فنی تربیت کے مراکز قائم کر رہے ہیں۔ فنی تربیتی مراکز ایف ڈبلیو او اور ائر فورس کو دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد نوجوانوں کو تربیت دیکر ایسی افرادی فورس تیار کرنا ہے جو صوبے کو آگے لیکر جا سکے۔ جو اس صوبے کے وسائل سے قومی ترقی کے لئے استفادہ کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ قومی ترقی و خوشحالی کے لئے حکومت کی اس مجموعی منصوبہ بندی میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کا بنیادی رول بنتا ہے۔ تعلیمی ادارے جدید خطوط پر طلباء کی معیاری تربیت کا اہتمام کریں حکومت وسائل کی کمی کو آڑے نہیںآنے دے گی۔ صوبائی حکومت نے شفاف نظام بہترین طرز حکمرانی اور معاشی استحکام کی بنیادیں رکھ دی ہیں۔ ہم اس اصلاحاتی عمل کو کل وقتی دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ نوجوان نسل کے شعور کی پختگی ، معیاری تعلیم اور جدید نہج پر تربیت کے بغیر ممکن نہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔