صدا بصحرا………رواج ایکٹ

……….ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضیؔ ……….
وفاقی کا بینہ کی طرف سے رواج ایکٹ کی منظوری کے بعد ہفتہ گذر گیا مگر فاٹا میں ایف سی آر کے حامیوں کی طرف سے شور شرابہ اب بھی جاری ہے امریکہ ، بھارت اور افغانستان نہیں چاہتے کہ افغان سرحد کے ساتھ ملحق پاکستانی علاقوں کا 80 ہزار مربع کلو میٹر رقبہ اپنی ڈیڑھ کروڑ آبادی کے ساتھ پاکستانی قانون، عدالت ، پولیس رولز اور آئین کے دائر ے میں آجائے اس خطے پر فاٹا کا جو نام چسپان کیا گیا ہے وہ نام ختم ہوجائے اس خطے میں جرائم پیشہ افراد کو پوری دنیا سے لاکر جس طرح بسا یا جاتا ہے وہ سلسلہ رک جائے اس خطے میں منشیات کا جو دھندہ کیا جاتا ہے وہ ختم ہو اور اس خطے میں ایف سی آر کی چھتری کے نیچے کرپشن کا جو بازار گرم ہے اس کا خاتمہ ہو وفاقی کابینہ کی طرف سے ایف سی آر کے خاتمے کی منظوری خوش آئیند سہی مگر خیبر پختونخوا میں فاٹا کو ضم کر نے میں 5 سال کی تاخیر ناقابل برداشت ہے 5 سال بعد اگر امریکہ نواز اور بھارت نواز حکومت آگئی تو ایف سی آر کو دوبارہ نافذ کریگی اچھے کام میں 5 سال کی تاخیر کس کو خوش کرنے کے لئے کی جارہی ہے اس کا جائز ہ لینا ہوگا ایف سی آر کے قانون سے ڈیڑھ کروڑ کی آبادی میں 200 کرپٹ اور بدعنوان لوگوں کو فائد ہ پہنچتا تھا ڈیڑھ سوسال پہلے انگر یز اس خطے میں برطانیہ کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے آیا اُس نے دیکھا کہ خیبر ،مہمند ، باجوڑ، اورکزی ، کرم اور وزیرستان کے عوام اسلام کے ساتھ والہا نہ وابستگی رکھتے ہیں غیر مسلموں کے خلاف جہاد کے جذبے سے سرشار ہیں ملا پا وند ہ جیسے علما ء یہاں رہتے ہیں اس علاقے کے ساتھ افغانستان کی سرحد لگی ہوئی ہے اس لئے ان لوگوں کو شہری حقوق، آئینی حقوق، شخصی آزادی ، اظہار خیال کی آزادی جیسے حقوق دینا تاج برطانیہ کے مفاد میں نہیں ہوگا ان کو غلام بنا کر رکھنے کے لئے الگ قانون ہونا چاہیے جس کانام فرنیٹر کرائمز ریگو لیشن (FCR) ہوگا اس طرح بر طا نوی حکومت نے ایف سی آر نافذ کیا آزادی چھین لی ، شہر ی حقوق چھین لیے خیبر کا انگر یز پولیٹکل ایجنٹ جمر ود یا لنڈی کوتل نہیں جا سکتا تھا اسکا دفتر پشاور میں ہوتا تھا قیام پاکستان کے بعد ایف سی آر کو ختم کر کے پاکستا نی قوانین کا نفاذ ہونا چاہیے تھا مسلمان پولیٹکل ایجنٹ کو جمرود یا لنڈی کوتل میں دفتر لگا نا چاہیے تھا مگر گذشتہ 69 سالوں سے چند افراد کے فائد ے کے لئے انگریز کا قانون برقرار رکھا گیا ہے خیبر کا پولٹیکل ایجنٹ مسلمان ہوتا ہے پختون ہوتا ہے آفریدی یا شنو اری ہوتا ہے بنگشں،وزیر یا مہمند ہوتا ہے مگر وہ ڈر کے مارے جمرود یا لنڈی کوتل نہیں جاسکتا انگریز اور غیر مسلم کی طرح پشاور چھاونی کے اندر خفیہ دفتر میں بیٹھا ہے 69 سالوں سے حالت جوں کی توں ہے اس کو تبدیل نہیں کیا گیا موجودہ حکومت اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت ، پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اور دیگر سیاسی جماعتوں مثلاً عوامی نیشنل پارٹی ، قومی وطن پارٹی اور جماعت اسلامی کوبھی یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے کرپٹ اور بدعنواں عناصر کے مقابلے میں سینہ سپر ہوکر ایف سی آر کے خاتمے کی تحر یک کا ساتھ دیا فاٹا کے پار لیمنٹرنیز کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ایف سی آرکے خاتمے کے لئے اپنے پارلیمانی لیڈر شاہ جی گل آفریدی کی قیادت میں جر تمندانہ قدم اُٹھا یا اور بد عنوان عناصر کی طاقتور لابی کے سامنے اپنے موقف پر ثابت قدم رہے فاٹا کو ایف سی آر کی زنجیر وں سے آزاد کرنا قیام پاکستان کی طرح تاریخی کا رنامہ ہے 14 اگست 1947 کو بر صغیر کے مسلمانوں کو آزادی ملی 2 مارچ 2017 ؁ء کووفاقی کابینہ نے قبائلی عوام کوآزاد ی دینے کی اصولی منظوری دی اب قبائلی علاقوں میں پاکستا نی قانون نافذ ہوگا عدالتیں قائم ہونگی ، پولیس رولز نافذ ہوگی عوام کو شہری حقوق ملینگے اظہار رائے کی آزادی ملے گی ، جمرود ، وانا ، اور میران شاہ سے بھی اخبار شائع ہواکر ینگے لنڈی کوتل ، پاڑہ چنار، غلنئی ، خار اور رزمک میں بھی یونیورسٹیاں قائم ہونگی قبائلی نوجوانوں کواعلیٰ تعلیم کے مواقع ملینگے میرے دوست ڈاکٹر نصرت آفریدی کو شہری حقوق کے لئے آواز اُٹھا نے پر ایف سی آر کے تحت پکڑ کرجیل میں ڈالا گیا عدالت نہیں ،اپیل کی جگہ نہیں ضمانت کی سہولت نہیں ڈاکٹر نصرت آفریدی کا جرم کیا تھا ؟ اُس نے لکھا تھا FATA سے مراد Fatally Administered Terrible Area (FATA) ہے انہوں نے اس کا اردو ترجمہ بھی بہت خوبصورت کیا تھا وہ اسے ’’دہشت زدہ انتظام والا خوفناک علاقہ ‘‘کہا کرتا تھا اب قبائلی علاقوں کو اس نام سے نجات مل گئی ہے خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی نے ایک قرار داد کے ذریعے مطالبہ کیا ہے کہ 5 سال انتظا ر کے بجائے فاٹا کو اسی سال صوبے میں شامل کیا جائے اور وہاں بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں یہ اصولی مطالبہ ہے سردست فاٹا کو جو مراعات ملینگی وہ بھی کم نہیں پولیس فورس کے لئے لیویز کی 20 ہزار آسامیاں دی جائینگی این ایف سی ایوارڈ سے 321 ارب روپے کی اضافی گرانٹ ملیگی 2018 ؁ء کے الیکشن میں صوبائی اسمبلی اور صوبائی کا بینہ میں نمائیند گی ملے گی عدالتوں کا دائر ہ قبائلی علاقوں تک بڑ ھا یا جائیگا شہر ی حقوق دئیے جائینگے تعلیمی ادارے قائم کئے جائینگے ڈیڑھ کروڑ قبائلی عوام کی یہ خوشی امریکہ ، بھارت اور افغانستان کو ایک آنکھ نہیں بھاتی اس لئے اس کی مخالفت اب بھی ہو رہی ہے اور 5 سال کی تاخیر کا یہی مطلب ہے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔