وفاق سمیت چاروں صوبوں میں تحریک انصاف حکومت بنائے گی وقت آگیا ہے کہ اب کرپشن اور پاکستان مذید نہیں چل سکتے ہیں۔وزیر اعلیٰ کا محب بانڈہ میں بڑے جلسوں سے خطاب

پشاور(چترال ایکسپریس)وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے کہا ہے کہ کرپٹ سیاست دانوں نے کرپشن کے ذ ریعے اپنی تجوریاں بھریں اور ملک کی بنیادوں کو کھوکھلاکیا۔ مستر د شدہ سیاستدان ایک بار پھر نئے نعروں کے ساتھ میدان میں اتر رہے ہیں تاہم اب عوام باشعور ہیں اس ملک کو ایماندار قیادت کی ضرورت ہے۔ 2018 کے انتخابات میں عوام ایک بار پھر کرپٹ سیاست دانوں کو چلتا کریں گے اور تحریک انصاف کا بول بالا ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور عوام کے ووٹوں سے عمران خان ہی اس ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوں گےImage may contain: 6 people, people standing, crowd and wedding اور وفاق سمیت چاروں صوبوں میں تحریک انصاف حکومت بنائے گی وقت آگیا ہے کہ اب کرپشن اور پاکستان مذید نہیں چل سکتے ہیں عوام نے نظام کی تبدیلی کے ایک نکاتی ایجنڈے کے تحت پی ٹی آئی کو ووٹ دیا۔ کرپٹ سیاستدانوں کامنشور کرپشن او رلوٹ کھسوٹ ہے جنہوں نے ہمیشہ غریب عوام کا خون چوسا۔ اور غریبوں کے سر پر اقتدار کی کرسی حاصل کی اور پھر غریبوں کو بھول گئے جبکہ عمران خان کا ایک ہی ایجنڈا ہے۔ کہ صوبے کے تمام وسائل غریب عوام پر خرچ کیے جائیں۔ اور عوام پر سرمایہ کاری کی جائے۔ان سیاست دانوں کوپرویز خٹک کا پتہ نہیں 2018 کے انتخابات میں ان مفاد پرسیاست دانوں کو ایسا سبق سیکھائیں گے کہ ان کوچھٹی کا دودھ یاد آجائے گا۔و ہ ڈھیری میاں اسحاق اور محب بانڈہ میں ڈسٹرکٹ کونسلر قیصر خان کی رہائش گاہ پر بڑے جلسوں سے خطاب کررہے تھے اس موقع پر اے این پی اور پی پی پی سے حاجی فاروق احمد، عنایت اللہ، عابد علی، اورنگ زیب، اشفاق، ضیا اللہ، ساحر، عبدالعزیز، حشمت، فیاض مقصود اللہ، حاجی برکت اللہ نے اپنے تیس ساتھیوں اور خاندانوں سمیت مستعفی ہوکر پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کااعلان کیا۔ اس موقع پرایم این اے ڈاکٹرعمران خٹک، ضلعی نائب ناظم اشفاق احمد خان، وزیر اعلیٰ کے صاحبزادے اسحق خٹک، ضلعی کونسلر قیصر خان، تحصیل کونسلر امجد اعظم عرف قائد اعظم ، ملک ابرار اور دیگر نے خطاب کیا۔Image may contain: 13 people وزیر اعلیٰ نے نئے شامل ہونے والوں کو پی ٹی آئی کی ٹوپیاں پہناکر خیر مقدم کیا۔وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے کہا ہے کہ غریب عوام کے مسائل اُن کا شروع سے مطمع نظر رہے ہیں۔اُنہیں وزیراعلیٰ بننے کا کوئی شوق نہیں تھابلکہ عوام سے نظام کی تبدیلی کا وعدہ کیا تھا اور عوام نے بھی اسی مقصد کیلئے ووٹ دیا تھا۔وہ ماضی کے سیاست زدہ نظام سے نااُمید ہو چکے تھے ۔ عمران خان کی سوچ اور ویژن کو دیکھتے ہوئے استعفیٰ دے کر تحریک انصاف کے کاروان میں شامل ہوئے کیونکہ ملک کو ایک ایماندارلیڈ ر ہی ٹھیک کر سکتا ہے۔بے ایمان اور لٹیرے ملک کو ٹھیک نہیں کرسکتے ۔ماضی میں بڑی بے شرمی سے لوٹ مار کی گئی اگر اوپر کی قیادت لوٹ مار میں مصروف ہو تو نیچے نظام کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔دُنیا ترقی میں بہت آگے نکل چکی ہے جبکہ پاکستان عوام کے بنیادی مسائل بھی حل نہیں کر سکا۔ تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں کی سوچ اور کاموں میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔سیاسی مجرموں نے کبھی مستقبل کی فکر نہ کی اور کسی نے بھی غریب عوام کا نہیں سوچا جب تک نظام ٹھیک نہ ہو اور ادارے با اختیار نہ ہوں ہم آئندہ سو سال میں بھی پریشانی سے نہیں نکل سکتے ۔دُنیا کے پاس بھی ہماری طرح وسائل اور دماغ ہے مگر اُن کے ادارے ٹھیک اور قیادت ایماندار تھی جس کی وجہ سے ترقی میں آگے نکل گئے ۔نوشہرہ کے عوام کی سب سے بڑی آفت سیلاب کی تباہ کاریاں تھیں جس پر کبھی نہیں سوچا گیا۔انہوں نے زرداری اور حیدر ہوتی کو بھی سیلاب کے خطرات سے آگاہ کیا مگر اُنہوں نے کبھی کان نہیں دھرے ۔وادی پشاور کو سیلاب سے محفوظ کرنے کیلئے 13 ارب روپے کی لاگت سے کام شروع ہے۔ عوام کے جان و مال اور جائیداد کو ایک دائمی خطرے سے محفوظ بنا دیا گیا ہے۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ 2013 کے عام انتخابات میں صوبے کے عوام خصوصاً نوشہرہ کے باسیوں نے تحریک انصاف کو ووٹ دے کر تاریخی فیصلہ کیا انہوں نے تحریک انصاف کو سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر کیلئے نہیں بلکہ قوم کی تقدیر بدلنے کیلئے ووٹ دیا۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ ترقیاتی کام اپنی جگہ جاری ہیں۔وہ حکومت کا فرض ہے یہ عوام پر احسان نہیں ہے ۔عوام کو سوچنا چاہیے کہ انہوں نے ووٹ کس لئے لئے دیا تھا ۔ تحریک انصاف کیوں وجود میں آئی۔ عمران خان کی سوچ کیا ہے جب تک تبدیلی کی حقیقت اور اُس کی ضرورت سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے تو نظام کی اصلاح میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکیں گے۔ہمارا بنیادی مقصد تباہ شدہ نظام کو ٹھیک کرنا ، عوام کے حقوق کا تحفظ کرنا، رشوت، سفارش کلچر کا خاتمہ ، امیر اور غریب کو ترقی کے ایک جیسے مواقع فراہم کرنا اور غریب لوگوں کو اداروں میں عزت و مقام دلانا تھا اس مقصد کیلئے ہم نے تین سال مسلسل محنت کی ۔اداروں میں آزاد بورڈز اور اتھارٹیاں بنائیں ۔ بیوروکریسی کے اختیارات اداروں کو منتقل کئے ۔ اب عوام کو بنیادی خدمات کے حصول کے سلسلے میں رشوت نہیں دینی پڑتی ۔ منتیں ، سما جیتیں کرنے کی ضرورت نہیں رہی ۔ اب ادارے جوابدہ ہیں۔ اگر کوئی ادارہ یا ذمہ دار ڈیلیور نہیں کرے گا تو قانون اُس سے پوچھا گا۔ ہم نے جزا و سزا کا ایک نظام وضع کردیا ہے۔حکومت کی تعلیمی اصلاحات کا حوالہ دیتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہاکہ طبقاتی نظام تعلیم کی وجہ سے غریب کا مستقبل تباہ ہو رہا تھا۔خان کے بچے کو بہترین ماحول اور انگلش میڈیم کے ذریعے تعلیم کی سہولت میسر تھی جبکہ غریب کو سکولوں میں بیٹھنے کیلئے کرسی دستیاب نہ تھی ۔ سکولوں میں اساتذہ موجود نہ تھے ۔صوبے کے 28 ہزار پرائمری سکولوں میں ہر سہولت میں کمی تھی ۔ انگریز کے دیئے گئے اس فسادی نظام کی وجہ سے خان ہمیشہ خان رہا اور غریب اُس کا غلام ۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ اُن کی حکومت نے غریب کے بچے کو امیر کے مقابلے میں لانے کیلئے سکولوں میں بنیاد کو ٹھیک کرنے پر کام شروع کیا کیونکہ اُنہیں اس قوم کے مستقبل کی فکر ہے۔پرائمری کی سطح پر انگریزی زبان میں تعلیم وتدریس کا سلسلہ شروع ہے۔28 ہزار سکولوں میں سے 15 ہزار سے زائد سکولوں میں سہولیات کی فراہمی یقینی بنا دی گئی ہے۔سکولوں میں پیرنٹس ٹیچر کونسل بنائی گئی ہیں تاکہ ترقیاتی کام شفاف طریقے سے کیا جاسکے۔محکمہ صحت کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے کہاکہ غریب عوام کے ساتھ ایک سنگین ظلم یہ کیا گیا کہ صوبے کے کسی ہسپتال میں ڈاکٹر پورے نہیں تھے ۔صفائی کا کوئی نظام نہیں تھا اور نہ دوائی دستیاب تھی ۔ ہسپتالوں میں ایک کاروبار چل رہا تھا ۔ غریب عوام کو ایک چٹ دے کر پرائیوٹ لیبارٹریوں اور فارمیسی پر بھیج دیا جاتا۔اس نظام سے امیر کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ اُس کو سارے وسائل دستیاب تھے جبکہ غریب علاج معالجے کیلئے ٹھوکریں کھا رہا تھا ۔ہسپتالوں میں موجود تمام مشینری خراب تھی جو سابقہ حکمرانوں کی سیاسی مداخلت اور مفاد پرستی کا نتیجہ ہے۔انہیں صرف اپنے مفادات سے غرض تھی ۔ صوبائی حکومت 70 سالہ تباہ شدہ ہسپتالوں کو ٹھیک کر رہی ہے جس کیلئے کروڑوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں ایم ٹی آئی کا قانون پاس کرکے پہلی مرتبہ ہسپتالوں کو خود مختاری دی گئی ۔ اب پورے صوبے میں سو فیصد ڈاکٹرز اور متعلقہ سٹاف موجود ہے۔ڈاکٹروں کی تنخواہیں 45 ہزار سے بڑھا کر ڈیڑھ لاکھ کر دی گئی ہے۔ اب پنجاب سے بھی ڈاکٹر صوبے کو آنے کیلئے تیار ہیں جبکہ پہلے صوبے کے ڈاکٹر بھی پشاور اور ایبٹ آباد کے علاوہ کسی دوسرے ضلع میں جانے کیلئے تیار نہیں تھے۔ صحت انصاف کارڈ کے ذریعے غریب عوام کو سالانہ 3 سے 5 لاکھ روپے تک علاج معالجے کی مفت سہولت دی جارہی ہے۔ 18 لاکھ مستحق خاندان اس سے مستفید ہورہے ہیں۔ جو آبادی کا 51 فیصد بنتا ہے۔ اُن کی کوشش ہے کہ پورے صوبے کو صحت انصاف کارڈ فراہم کئے جائیں۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ ماضی کی پولیس خان کو سلام کرتی تھی اور غریب کی بے عزتی کرتی تھی اُن کی حکومت نے پولیس کو اختیارات دیے اور ایک چیک اینڈ بیلنس کا نظام وضع کیا اب پولیس کے غریب کے ساتھ رویے میں کافی تبدیلی آچکی ہے۔وہ غریب کے ساتھ بد تمیزی ، زیادتی اور نا انصافی کسی صورت برداشت نہیں کریں گے ۔پٹواری غریب عوام کو ذاتی جائیداد سمجھ کر لوٹ رہے تھے۔ رشوت اور لوٹ مار کا ایک بازار گرم تھا ۔اب پٹوار خانوں میں رشوت نہیں چلے گی ۔وزیراعلیٰ نے عوام سے کہاکہ وہ اپنی جائز خدمات کیلئے قطعاً رشوت نہ دیں ۔خدمات کی فراہمی ، پٹواریوں اور تحصیلیداروں کا فرض ہے اگر کوئی رشوت طلب کرے تو ثبوت کے ساتھ آگاہ کریں ۔ سسٹم حرام خوروں کو نشان عبرت بنائے گا ۔ حرام خوری کے خلاف جہاد سب کا فرض ہے۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ اُن کے گھر میں کبھی حرام کا پیسہ نہیں آیا تب ہی وہ حرام خوروں کے خلاف میدان میں نکلے ہیں اُنہیں اپنی کوئی فکر نہیں کیونکہ اُن کا دامن صاف ہے۔ عوام خود بھی حرام خوری سے بچیں اور حرام خوری کے خاتمے کیلئے حکومت کی معاونت کریں۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ اُن کی حکومت نے سفارش کے خاتمے اور میرٹ کی بالادستی کیلئے قابل عمل اصلاحات کیں۔سفارشی لوگ ہر فائل میں نوٹ تلاش کرتے ہیں۔ اُن کا خدمات کی فراہمی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اسلئے صوبائی حکومت میرٹ پر تقرریوں کے ذریعے قابل اور اہل لوگوں کو آگے لارہی ہے ۔پرویز خٹک نے کہاکہ عوام کو گیس کی فراہمی کیلئے وفاقی حکومت سے دو سال تک بات چیت چلتی رہی ۔ گیس کے کنکشن پرپابندی تھی ۔ بڑی جدوجہد کے بعد وفاق سے اس کی اجازت لی اور اپنے حصے کے وسائل فراہم کردیئے ہیں ۔ عوام کو گیس کی فراہمی کا سلسلہ جلد شروع ہو جائے گا۔امیر مقام گیس کی فراہمی کیلئے ہماری کاوشوں پر اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ صحت ، تعلیم ، انصاف ، رشوت کا خاتمہ ، میرٹ کی بالادستی ، غریب کو حق دینا اور غریب کی عزت کی بحالی اُن کی حکومت کے میگا پراجیکٹس ہیں۔گزشتہ تین سال سے اسی جدوجہد میں مصروف ہیں اور اس مقصد کیلئے ریکارڈ قانون سازی کی گئی ہے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔