پس وپیش سال نو:نوروز

…………..تحریر: اے ایم خان………

ہر ایک علاقہ ، ملک بلکہ اقوام عالم میں کچھ ایسے مواقع آجاتے ہیں جنھیں وہ نہایت جوش ، محبت اور ولولے کے ساتھ مناتے ہیں۔جس طرح ایک علاقے میں ایک تمدن کے تنوع کیلئے اُس علاقے میں بسنے والے لوگوں کا عقیدہ یعنی مذہب، آب وہوا اور ضروریات محرک بن جاتے ہیں بالکل اِسی طرح وہی محرکات رسومات، رسم ورواج ، عبادات اور روایات کو پنپنے میں کار فرما ہوتے ہیں۔اِس کالم میں اُن محرکات کے رسمی اور روایتی پہلوون کو مشرقی وسطی کے چند ممالک ،وسطی ایشیاء ، افعانستان اور پاکستان میں جشن نوروز کی تاریخی اور رسمی گونا گونی کو پیش نظر دیکھا جائے گا، جسے اقوام متحدہ کا جنرل اسمبلی ایک تاریخی تہوار قرار دے چُکی ہے۔
فارسی زبان سے ماخوذ لفظ نوروز کا معنی ’’نئا سال‘‘ ہے۔جشن نوروز ہر سال بہار(حمل) کی آمد سے 21مارچ کو منایا جاتا ہے۔ بہار کے ساتھ حمل (equinox) اُس وقت شروع ہوجاتا ہے جب سورج زمین کے مرکز(equator) کے اُوپر آجاتی ہے، تو زمیں میں نئی جان آجاتی ہے جسے دوسرے الفاظ میں فطرت کی زندگی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
رسم نوروز کی تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو ایک طرف اِسے زرتشت مذہب سے منسلک کیا جاتاہے تو دوسری طرف ایرانی روایات کے مطابق یہ ثقافتی رسم کے ذمرے میں آجاتی ہے۔رسم نوروز مشرق وسطی، وسط ایشیاء اور جنوبی ایشاء کے کئی ایک ممالک اور علاقوں میں جوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔ ایران میں یونیورسٹی کا ایک پروفیسر اِسے 8 ہزار سال پرانی ’’ایران میں نئے سال‘‘ کا تہوار قراردیتی ہے۔ایران میں اِس تہوار کو ’’جمشیدی نوروز‘‘بھی کہاجاتا ہے کیونکہ ایران کا بادشاہ جمشید نے اِسے سرکاری سطح پر منانا شروع کیاتھا ۔ ایران میں اِسے منانے کے انتظامات ایک ہفتے پہلے اور افعانستان میں دو ہفتے تک، او ر وسطی ایسشیائی ممالک میں دو یا تین دِن تک منائی جاتی ہے، اور پاکستان میں یوم نوروز کراچی، ملتان، ناردرن ایریاز اور چترال کے کچھ علاقوں میں منایا جاتا ہے۔
ہندوستان کی تاریخ میں نوروز کو بادشاہ اکبر کے زمانے میں سرکاری سرپرستی اور تیاری کے ساتھ منانے، اور اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں اُس پر پابندی لگانے کے مثالیں مل جاتے ہیں۔پاکستان بننے کے بعد انڈیا اور پاکستان میں نوروز منایا جاتا رہا، اب بھی منایا جاتا ہے لیکن جس جوش سے پہلے منایا جاتا تھا جوکہ ایک سال سے دوسرے سال میں مدھم ہونے کا فرق محسوس ہوتاآ رہا ہے۔
گزشتہ سال نوروز کے ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے پشاور میں افعانستان اور ایران کے قونسل جنرلز جلال الدین رومی کے حوالے سے اپنے آراء کا اظہارکرتے ہوئے یوم نوروز کو بحثیت ’’اِسلامی تہوار‘‘ منانے کی تاریخ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اِسلام کے دُشمنوں کو شکست دینے سے اِس کے آغاز ہونے کا ذکر کرچُکے تھے۔مقریضی بیان کرتے ہیں کہ رسم نوروز قحط اور بھوک ، اور قیروان سے غلہ لانے کی تاریخ سے منسلک ہے۔ اُس کے مطابق یہ تہوار اِسی نسبت سے منایا جاتا ہے۔ مصر میں 8 فاطمی خلفاء اِسی نسبت سے اِسے کسانون اور مزارع کا ایک تہوار کے طور پر مناتے رہے۔ افعانستان کے ایک قدیم روایت کے مطابق رسم نوروز کو ’’جشن دہقان‘‘ یعنی کسانون کا جشن کے نام سے بھی مناتے ہیں۔ جن علاقوں اور ممالک میں جشن نوروز منایا جاتا ہے وہاں کئی ایک علامتی رسومات اِس سے منسلک ہیں۔ ایران اور افعانستان میں ہفت میوہ ، ہفت سِن اور ہفت چِن، ہنزہ نگرمیں ’’چِی،چِٹ‘‘ اور چترال میں ’’پھتاک‘‘ مشہور ہے۔یاد رہے چترال میں جشن نوروز کو ’’پھتاک ‘‘ بھی کہاجاتا ہے ، اور وادی لٹکوہ میں پھتاک کے نام پر جشن نوروز کے علاوہ ایک دوسرا رسم بھی منایا جاتا ہے۔
جشن نوروز کو دیکھا جائے تو مشرقی وسطی کے چند ممالک، وسطی ایشیاء، افعانستان اور پاکستان کے چند علاقوں خصوصاً وہ لوگ جو شیعہ کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں ، اور جو علاقے اورلوگ ایرانی اور تُرکی کے تہذیب سے اثر انداز رہے، اِسے ایک تہوار کے طور پر مناتے ہیں۔
قرآن مجید میں سورہ یاسین(36) کے آیت 36-35 میں جس کا مفہوم کچھ یوں ہوتا ہے کہ یہ مردہ زمیں لوگوں کیلئے ہی ایک نشانی ہے کہ اللہ تعالی نے اِسے زندگی دی جو اُن کیلئے رزق کا ذریعہ بنا۔ یہی زمیں یعنی فطرت کا بہار کے ساتھ نئی زندگی کا پیغام اِنسانی زندگی اور رزق کی ضمانت ہے جس سے مختلیف رسومات، روایات اور طرز منسلک ہیں، اور منائے جاتے ہیں۔
ریاست چترال میں جشن نوروز سرکاری سرپرستی اور جوش کے ساتھ منایا جاتا رہا۔ جشن نوروز کا چترال میں منانے کی اپنی ایک تاریخ ہے جوکہ پاکستان ، افعانستان، وسطی ایشیاء اور مشرقی وسطی کے طرزاظہار سے مطابقت اور گوناگونی کا اظہار پیش کرتا ہے ۔ گوکہ یہ گونا گونی علاقائی اظہار کی علامت ہے جوکہ وقت کے ساتھ پنپتا رہا، لیکن اِن علاقوں کے ساتھ جشن نوروز منانے میں ہم اہنگی اور یکجہتی کا اظہار نظر آہی جاتا ہے۔ ریاست چترال میں عیدین کے بعدنوروز ایک اہم تہوار کے طور پر منایا جاتا رہا، اور ہر مہتر اپنے دور میں جشن نوروز کو چترال میں مناتا رہا۔ریاست چترال میں نوروز کا دِن کئی ایک کام ، تعمیرات اور اعلانات سے منسلک ہیں۔ چترال سٹیٹ گورنمنٹ گیسٹ ہاوس جس کا سنگ بنیاد 21 مارچ 1955ء کو یوم نوروز عالم افروز کو وزیر اعظم چترال فضیلت مآب سردار بہرام خان صاحب نے رکھاتھا،اب بھی جنگ بازار میں ڈی سی افس کے قریب موجو د ہے۔
جشن نوروز چترال میں اب قدیم روایات کے ساتھ منایا تونہیں جاتا ، اور اِس رسم سے منسلک وہ روایات بھی ختم ہوگئے ہیں۔
چترال میں پہلے نوروز کے رسومات دو دِن پہلے شروع ہوا کرتے تھے ۔اُس زمانے میں سب سے ضروری کام گھر کی صفائی (سوئیی دیک) ہوا کرتا تھا، اور گھرمیں سارے سامان اور برتن کی صفائی بھی کیاجاتاتھا۔ یوم نوروز کا شروغ ’’پھتاک‘‘سے شروع ہوتا تھا جو اب بھی روایتی اندازمیں چند گھروں میں ہو جاتی ہے ۔ گھر کا سربراہ آٹا لے کر اِسے گھر (راتھینی ختان) اور دوسرے کمروں اور گیٹ کے دروازے کے اُوپر ڈالتاتھا۔ یوم نوروز کے صج کا خصوصی آغاز نوروز کی خوشخبری سے ہوتا تھا۔ اُس زمانے میں گھر کا ایک بندہ باقاعدہ نوروز کی خوشخبری لایا کرتا تھا۔ کہا جاتا ہے گھر کا ایک بندہ گیٹ سے باہر جاتا تھا، اور دوسرا بندہ دروازہ بند کرتا تھا۔ باہر جو ہوتا تھا وہ کہتا تھا کہ میں نوروز کا خوشخبری لایا ہوں گھر کیلئے آٹا لایا ہوں (کاشا پیشیرو انگیتی اسوم)، بیٹے کیلئے بیوی لایا ہوں(ژاوتین بوک الاتم) ،اور بیٹی کیلئے شوہر لایا ہوں(ژورو تے موش الاتم)کہنے کے بعد دروازے کے اند ر جو ہوتا ہے اُس سے دروازہ کھول کر اندر آنے کی اجازت مانگتاتھا، اور وہ خوشخبری سُننے کے بعد اُسے اندر آنے دیتا تھا۔ ہر گھر میں نوروز کے دِن کھانے پکائے جاتے تھے اور گاؤن کے لوگ نئے سال کی مبارکبادی کیلئے آیاکرتے تھے، جو اِن دِنوں بھی کچھہ حد تک ہورہاہے۔ نوروز کے دِن تین یا چار لوگوں کا ایک گروپ آیا کرتا تھا جن کے پاس بوری (بُردوکی)ہوا کرتاتھااور وہ قدیم روایتی گھر (راتھینی ختان) کے اُوپر بنائے ہوئے سوراخ (کوماڑ) میں آتے تھے اور وہی بات دُھرایا کرتے تھے تو گھر میں اُسے آٹا (جس میں جوار، مکئی ،اور گندم کا آٹا جوکہ اُس زمانے میں کم ہوا کرتا تھا) دیاجاتاتھا جسے اُس زمانے میں ’’سانی ووئے‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہ لوگ یہ آٹا لے جاتے تھے اور ایک گھر میں رکھ دیتے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے اُس زمانے میں جس سال برف باری کا برف نوروز کے روز تک باقی رہ جاتا تھا تو برف کے گولے بناکر اُنہیں مارا جاتا تھا(ھیم بڑاچو دیاواستانی) جو کہ اُس زمانے کا کھیل ،خوشی اور روایتی اظہار ہوا کرتا تھا۔یہ لوگ سارے گاؤن سے آٹا جمع کرتے تھے اور ایک گھر میں رکھا کرتے تھے اور رات کے وقت اِس سے روایتی خوراک ’’شوشپ‘‘ تیار ہوتا تھا، اور ساتھ گاؤن کے لوگ یہ کھاتے تھے ،اور ساتھ موسیقی کا پروگرام ہوا کرتا تھا۔ نوروز کے دِن لوگ ہمسایوں اور رشتہ دارون کے ہاں ملنے ، نوروز کی مبارکبادی، کھیل اور سیروتفریح کیلئے آتے اور جایا کرتے تھے۔
چترال کے چند علاقوں جہاں خصوصاً اسماعیلیی کمیونٹی آباد ہے وہ یہ رسم مناتے ہیں، لیکن وہ قدیم روایتی رسومات موجودہ دور میں اِس جشن کے ساتھ منسلک نہیں۔ چترال کے اکثر علاقوں میں نوروز کے روز کھیل جن میں خصوصاً پولو میچیز ہوا کرتے تھے۔ خاندان لشٹ میں پولو بہت مشہور ہوا کرتا تھاجہاں ریشن سے آوی ، اور موڑکہو کے قریبی پولو پلیر اور لوگ کھیل کیلئے اور دیکھنے آیا کرتے تھے۔ اِس کے علاوہ چترال کے دوسرے علاقوں میں بھی نوروز کے روز کھیل کود اور تفریح کا انتظام ہوا کرتے تھے۔ اِن دنوں خاندان لشٹ میں وہ قدیم پولوگراونڈ موجود نہیں جہان وہ روایتی پولو کھیل نوروز کے روز ہوا کرتا تھا، اور وہ لوگ بھی موجود نہیں جو اِس کھیل کو کھیلا کرتے تھے۔
جشن نوروز نہ صرف چترال بلکہ وسطی ایشیاء، مشرقی وسطی،اور جنوبی ایشیاء میں منایا جاتا ہے، اِسی لئے اقوام متحدہ نے اِسے ایک تاریخی تہوار قرار دی ہے،جسے دُنیا کے چند ممالک کے ساتھ پاکستان کے چند علاقوں ، اور چترال میں منایا جاتا ہے۔اور یہ رسم محبت، خوشی، ہمدردی، گوناگونی، تکثیریت، کھیل کود، فطرت سے اِنسانی زندگی کے زیروبم کو ضم کرنے کا سلیقہ اور جشن بہاران ہے۔
اور اِس سال بھی دُنیا کے دوسرے ممالک کی طرح چترال کے چند علاقوں میں جشن نوروز گزشتہ سالوں کی طرح منایاجائیگا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔