چترال یونیورسٹی کا قیام اور تقاضے

………….تحریر: محمد نقیب اللہ رازیؔ ………
اللہ اللہ کرکے چترال یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا ۔اور یہ ایک ایسے وقت میں ممکن ہوا کہ جس کو اللہ کا کرم اور چترال کے سادہ لوح عوام کی دعاؤں کا نتیجہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔کیونکہ مرکزی اور صوبائی حکومت کے مابین واضح اختلافات اور ایک دوسرے کو گرانے کے منصوبوں کے باوجود دونوں حکومتوں نے چترال یونیورسٹی کے قیام کا اعلان بھی کیا اور جلد کام شروع کرنے کے احکامات بھی صادر کئے۔
تاہم چترال یونیورسٹی کے حوالے سے اندرونی طور پر کچھ غیر مفید باتیں بھی سنی جاتی ہیں،ایسی باتوں سے یونیورسٹی بننا تودرکنار ،بلکہ بنی بنائی یونیورسٹی بھی ڈھائی جاسکتی ہے۔ایسی بے تُکی باتیں کرنے والے جوبھی ہوں، وہ چترال کے عوام کے خیرخواہ نہیں ہوسکتے ۔اسی قسم کی باتوں سے اب تک چترال میں کوئی مستقل یونیورسٹی نہیں بن سکی تھی۔ اس حوالے سے چند باتیں ہم سب کے لئے قابلِ غور ہیں ۔اس لئے کہ اکثرعوامی سطح کے لوگوں اور بعض اچھے خاصے تعلیم یافتہ حضرات کو بھی یہ معلوم نہیں کہ یونیورسٹی کس طرح قائم کی جاسکتی ہے؟ اور کن کن مشکلات سے گذرنا پڑتا ہے؟۔کیونکہ اکثر لوگ یونیورسٹی کے قیام اور سکول یا کالج بنانے کے درمیان کوئی فرق نہیں سمجھتے۔ان کے خیال میں بس سرکاری اعلان کے ساتھ یونیورسٹی قائم ہوتی ہے۔حالانکہ ایسا نہیں ہے،اِس کے لئے بہت کچھ پاپڑ بیلناپڑتا ہے۔خاص کر مرکز اور صوبے کے درمیان اس پر اتفاق رائے نہ پایا جاتا،تو یہ کام اتنا آسان نہیں ہوتا۔چترال یونیورسٹی کے قیام کو ہم اہلِ چترال کے لئے کرامت سے کم نہیں سمجھتے کہ اس حوالے سے دونوں حکومتوں میں اتفاقِ رائے موجود ہے۔ہمارے لئے سب سے زیادہ خوش آئند بات یہی ہے۔ اس لئے ہم تمام اہالیانِ چترال کی طر ف سے دونوں حکومتوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
چترال یونیورسٹی کا قیام ایسے وقت میں ہوا جب فینانشل بجٹ ختم ہونے کے صرف تین ماہ باقی تھے۔اور حکومت کی طرف سے اس کے لئے آٹھ کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں اور اس منصوبے کوADPمیں بھی رکھا گیا ہے۔یہ رقم آنے والے جون سے پہلے اسی مد میں خرچ ہونی ہے۔اس کے لئے پراجیکٹ ڈائریکٹر کی تعیانی بھی ہوچکی ہے۔جودن رات اس کے لئے کوششیں کررہے ہیں۔اس کے باوجود تین قسم کی باتیں عموماً سننے میں آتی رہتی ہیں،جن کی مختصر وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔
پہلی بات چترال یونیورسٹی کے پراجیکٹ ڈائریکٹر کے حوالے سے بعض کم ضرف حلقوں میں بھی سنی جاتی ہے ،اور اسی سے ملتی جلتی باتیںآپ نے بھی ایف ایم ریڈیومیں بھی سنی ہوگی ۔کہ پراجیکٹ ڈائریکٹر کیسا ہونا چاہئے؟ اور اس میں کونسی قابلتیں درکار ہوسکتی ہیں؟۔چنانچہ بیشتر لوگ یونیورسٹی کے PDاور سی اینڈ ڈبلیو کے کلاس ون ٹھیکہ دار میں فرق نہیں کرپاتے۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بس اب PDصاحب بلیچہ اور کدال مزدوروں کوتھماکر کام میں لگادیں گے۔حالانکہ ایسی بات نہیں ،پی ڈی کے بیسیوں کام اس کے علاوہ بھی ہیں۔چنانچہ ایف ایم ریڈیومیں بھی ایک صاحب نے اس قسم کا بے جا سوال داغا تھا۔اس نے تو سوال میں بھی حد کر دیاکہ PDسے کہاکہ آپ تو ایک لکچرر ہیں پراجیکٹ سے آپ کا کیا تعلق ہے؟۔سوال کرنے والا ایک ماسٹر ڈگری والا ہے۔آپ خود انصاف کیجئے کہ اس نے PDکو ٹھیکیدار ہی سمجھا ہوگا؟تو عام لوگوں کا پھر کیا کہنا؟۔
چترال یونیورسٹی کے لئے جو پراجیکٹ ڈائریکٹر متعین ہوئے ہیں ،ان کی شخصیت سے کون واقف نہیں۔یہ ٹھیک ہے کہ پی ڈی پروفیسر ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری نے اپنے کیرئیر کا آغاز بحیثیت لکچرر کیا تھا،وہ بھی صوبے کی سب سے عظیم مادر علمی پشاور یونیورسٹی سے۔اور یہی ان کی قابلیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ قلیل عرصے میں پروفیسر اور ڈاکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔اسی مادر علمی میں انھوں نے ایڈمنسٹریشن،ڈویلپمنٹ اور ایکزامینیشن وغیرہ کے کلیدی عہدوں پر فائز ہوکرقابلِ قدر کام بھی کرچکے ہیں۔اور ان کا بخوبی تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ہمارے صوبے میں قابل لوگوں کی کوئی کمی تو نہیں ہے لیکن چترال کا کوئی فرزند کم عرصے میں اتنے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونا سارے چترال کے لئے اعزاز کی بات ہے۔ ورنہ بقول غالبؔ ’’مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دورِ جام‘‘یہ کسی چترالی بندے کے بس کی بات نہیں تھی۔ پھر یہ کہ انھوں نے 70سے زائد ممالک کے دورے بھی کئے ہوں ،وہاں کے تعلیمی اور ترقیاتی منصوبوں کا خوب جائزہ بھی لیا ہو،اور فی الوقت اکیس گریڈکے اعلی آفیسر ہو،ان سے یہ کہنا کہ تم تو ہمارے بچپن میں لکچرر تھا؟خود اپنی ہتک،اپنی علمی کم مایگی کا اقرار اور اپنی ڈگری کی بے ہستی نہیں اور کیا ہے؟ماسٹر ڈگری والوں کا یہ حال ہو ،تو عوام سے ہم کیا توقع رکھیں گے؟
پی ڈی کے حوالے سے کم ازکم اتنا تواطمینان ہونا چاہئے کہ وہ جس کے لئے متعین ہوئے ہیں اس کا وہ خوب تجربہ رکھتے ہیں،چترال کا اپنا فرزند ہے ،یونیورسٹی کے قیام کے حوالے سے مخلص ہیں ،دیانت دار ہیں۔ہمارے خیال میں ڈاکٹر احسان علی اور ڈاکٹر ناصرعلی کے بعد سب زیادہ موزون شخص پروفیسر ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری ہی ہیں۔
دوسری بات بھی PDہی کی ذمہ داریوں کے حوالے سے ہے۔موجودہ وقت میں چترال یونیورسٹی کے پی ڈی کا کام صرف چترال یونیورسٹی بنانا ہی نہیں ،یہ کام توکوئی دوسرا آدمی بھی کرسکتا ہے۔ یہاں چترال میں دویونیورسٹیاں پہلے سے بھی قائم ہیں ،کا م بھی کررہی ہیں۔ان کے قیام کے لئے کسی پی ڈی کی ضرورت نہیں ہوئی تھی۔اب جو ضرورت پڑگئی ہے تو لازماً ان کے سپرد اس کے علاوہ کوئی کام بھی ضرور ہوں گے۔چنانچہ ان دونوں قائم شدہ یونیورسٹیوں کو ضم کرکے ایک یونیورسٹی ’’چترال یونیورسٹی ‘‘ بنانا،ان کے فیکلیٹیز اور دیگر عملے کے مسائل حل کرنا،یونیورسٹی کے لئے موزون جگہ کا تعین کرنا،اس کے لئے فیڈز وصول کرنا،آئندہ بجٹ میں اس کے لئے فنڈز مختص کروانا،ان تمام کاموں کے لئے الگ الگ سے پلانینگ پیپر تیار کرنا،نئی سیٹ اپ بناناوغیرہ شامل ہیں۔اور ظاہر ہے کہ یہ کام ہرکسی کے بس کی بات نہیں ۔ان کے لئے تعلقات کی ضرورت ہے،قابلیت اور تجربہ درکار ہے۔اور تنِ تنہا یہ سارے کام انجام دینا ہے ۔ کیونکہ ابھی تک صرف ایک پراجیکٹ ڈائریکٹر تعینات ہوئے ہیں ،اس کے ساتھ کوئی عملہ ہے ہی نہیں،نہ کوئی آفس ہے نہ کلاس فور ہے۔ بادشاہ منیر بخاری صاحب فی الوقت کلاس فور کا کام بھی خود کرتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں،کوئی اور آدمی ہوتا تو ضرور اپنی انا کا مسئلہ ضرور کھڑاکردیتا ۔PDچترال یونیورسٹی کی حیثیت سے بادشاہ منیر بخاری چوبیس گھنٹے متعلقہ لوگوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔پھرتی اور منصوبہ بندی سے کام شروع کرچکے ہیں ۔لہذا ایسے وقت میں ان کے ساتھ اختلاف کئے بغیر ان کا ساتھ دینا چترال سے وفاداری کا ثبوت ہوگا۔اور دانشمندی بھی یہی ہے کہ ان کی ذات اور عہدے کو اپنے لئے انا کا مسئلہ بنائے بغیر چترال کے مستقبل کے مفادمیں کام کرنا چاہیئے۔اگرخدانخواستہ کسی کی طرف سے اس کام میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی گئی اور جس کے نتیجے میں چترال یونیورسٹی کے قیام کا مسئلہ رک گیا،تو یہ سارے چترال کے ساتھ ناانصافی اور بے وفائی کا مترادف ہوگا۔اور پھرسے اس مرحلے تک پہنچنے میں دس سال مزید لگیں گے۔بلکہ اس کی تلافی بھی شاید ممکن نہیں ہوگی۔
تیسری اور آخری بات یہ ہے کہ فی الحال PDچترال یونیورسٹی کو مختلف محاذوں میں کام کرنا ہے ،امید ہے وہ اپنے تجربات سے کام لیتے ہوئے اہم ترین کاموں کو ترجیح دیتے رہیں گے۔تاہم عوامی سطح کا سب سے اہم مسئلہ چترال یونیورسٹی کے نام سے نئی عمارت پر کام جلد ازجلدشروع کرنا ہے ۔ تاکہ جون سے پہلے آٹھ کروڑ مختص رقم کو صحیح مصرف میں خرچ کیا جاسکے۔ اور یہ عوامی رائے کو اپنے موافق بنانے کے لئے ایک مؤثر پیش رفت بھی ثابت ہوسکتاہے۔کیونکہ ان کے خیال میں دویونیورسٹیاں پہلے سے قائم ہیں ان کو ضم کرنے سے بھی اُن کے خیال میں کوئی نئی تبدیلی نہیں نظرآئے گی ۔اس کے مقابلے میں اگر دس کمروں پر ہی پرمشتمل کوئی عمارت چترال یونیورسٹی کے نام سے شروع ہوجائے تو عوامی اعتماد کے شروعات کا موسم ہوگا۔
PDچترال یونیورسٹی اگر چہ اس سلسلے میں بھی کا فی سرگرمی سے کام لیتے رہے ہیں،مگر ہمارے خیال کے مطابق یونیورسٹی کے لئے کوئی نئی جگہ تلاش کرنے میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔اس لئے کہ گذشتہ پانچ سالوں سے SBBUشیرینگل اور عبدالولی خان یونیورسٹی کے متعلقہ حضرات اور چترال کے مقتدر اور علمی اور سیاسی شخصیات نے مختلف اوقات میں چترال کے مختلف مقامات کا جائزہ لیتے رہے ہیں۔اور انھوں نے مختلف وجوہات کی بناپر سید آباد کے علاقے میں کچھ قطعہ زمین منتخب کی ہیں۔PDچترال یونیورسٹی اگر موزون سمجھیں تو دونوں یونیورسٹیوں کے سائن بورڈ جون کے بعد اتارکر وہان چترال یونیورسٹی کا سائن بورڈ لگادیں،اور نئی عمارت بنے تک وہ اپنے اپنے پرانے کیمپسز میں کام جاری رکھیں۔ایک سال کے عرصے میں نئی عمارت تیار ہوسکے گی۔اور تب تک سیدآباد کے علاقے میں دونوں یونیورسٹیوں میں جاری ڈیپارٹمنٹز کے لئے ضروری عمارت تیار ہوجائے گی،تو وہاں منتقل ہوکر باقی کام کرنے میں آسانی رہے گی۔اس طرح ایک طرف تو لاکھوں روپے کرایا میں دینے سے بھی بچ جائیں گے اور دوسری طرف چترالی طلبا کے لئے بنایا گیا ٹیکنیکل کالج بھی واگذار ہوکر اپنا کا م شروع کرے گا۔ اور آئندہ یہی سمجھا جائے گا کہ PDچترال یونیورسٹی نے ایک یونیورسٹی اور ایک ٹیکنیکل کالج چترال کے لوگوں کو عنایت کی ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔