مِشال خان کی موت اور مذہبی انتہاپسندی،، ایک جائزہ

…………..شیر جہان ساحلؔ………

مردان کی یونیورسٹی میں انتہائی بے دردی سے قتل ہونے والے مِشال خان صوابی کے ایک میڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں جرنلزم کا اسٹوڈنٹ تھا ۔ ان کا سیاسی وابستگی عوامی نیشنل پارٹی کی نظریاتی گروپ سے تھا ۔ چونکہ مِشال خان صحافت کا اسٹوڈنٹ تھا اور معاشرتی اور سیاسی ناانصافیوں کے خلاف آواز اُٹھانا اس کا وتِیرہ تھا ۔اور اکثر وہ ان مسائل کے خلاف آواز اٹھاتا رہتا تھا جن کا ہمیں معمول کا سامنا ہوتا ہے۔ ۱۳ اپریل کے دن لوگوں کا ایک ہجوم یونیورسٹی میں داخل ہوا اور شدید نعرہ بازی کرتے ہوئے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ پہنچ گئے اور چیرمین کے دفتر کے باہر ہجوم اکھٹا ہوا ۔ اس دوران ایک لیکچرار ان پاس آیا اور وہاں ہجوم جمع ہونے کی وجہ دریافت کی تو ہجوم میں سے جواب آیا کہ مشال خان نے مذہب کی گستاخی کی ہے اور اس کو باہر سے فنڈنگ بھی ہورہی ہے نجی ٹی وی کے ایک پروگرام میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ لیکچرار کے موبائل پر جب میسچ آیا کہ مشال ہاسٹل میں چھپا ہوا ہے اور اس نے کوئی گستاخی نہیں کیاہے اور جب یہ موبائل ہجوم کے ہاتھ لگا تو ہجوم اژدھام میں بدل گیا اور ہاسٹل پہنچ کر مشال خان کو باہر نکال کر گولی ماردی اورانتہائی بے دردی سے قتل کیے اور اس دوران کچھ لوگوں نے اس کی لاش کو بھی آگ لگانے کی کوشش کی تھی مگر ناکام رہے۔
یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے ایسے واقعات ہمارے معاشرے میں اکثر جنم لیتے رہتے ہیں ۔ گو کہ یہ واقعات انسانیت سوز ہیں مگر اس کے باوجود ہم کھل کر اس کی مذمت تک نہیں کر سکتے اور جو لوگ آواز اٹھا تے بھی ہیں (شوشل میڈیا کی حد تک) تو وہ مذہبی انتہا پسندوں کو ان واقعات کا ذمہ دار ٹہراتے ہیں اور تنقید بھی مذہبی جماعتوں اور مذہبی علماء پر کرتے ہیں ۔ مگر حقیقت میں یہ لوگ کم علم اور حقیقت سے ناآشنا ہوتے ہیں ایسے تنقید کرنے والوں کے لئے فارسی زبان میں ایک کہاوت ہے کہ ” نیم حاکیم خطرہ جان ، نیم مُلا خطرہ ایمان‘‘ ۔
ہمیں تنقید کرنے یا کسی کو ایسے واقعات کا ذمہ دار ٹہرانے سے پہلے حقائق کا مطالعہ کرنا چائیے ۔ اور جب حقائق کو اچھی طرح جان لیا جائیگا تو رائے دینے والا ایک معقول رائے دے سکے گا اور معاشرے پر اس کے واضح اثرات بھی مرتب ہونگے اور اصل ذمہ داروں کا تعین بھی ممکن ہوگا۔ مگر ہم بحیثیت قوم کبھی بھی ذمہ داری کا مظاہر ہ نہیں کرتے ، جسکی مجموعی قیمت ہمیں ادا کرنی پڑتی رہتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں رُونما ہونے والے ایسے واقعات کا ذمہ کس حد تک مذہبی انتہا پسندوں کے سر جاتا ہے۔ اور اگر مذہبی انتہا پسند ہی ایسے واقعات کے ذمہ دار ہیں تو کیوں اور کیسا؟ اور اگر واقع میں مذہبی انتہاپسند ہی ہمارے مسائل کا ذمہ دار ہیں تو روشن خیال(پڑھا لکھا طبقہ) طبقے کا کیا کردار ہے ۔ یہ جاننے کیلئے ہمیں تاریخ کا مطالعہ کرنا ہوگا کہ ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات کا ذمہ دار روشن خیال طبقہ (یعنی پڑھا لکھا) یا پھر مذہبی انتہا پسند ؟؟؟؟ ۔۔۔۔ یہ وہ حقیقت ہے جس پر غور کرنے کے بعد ہم اصل ذمہ داروں کا تعین بھی کر سکتے ہیں اور ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے اقدامات بھی۔ اور اس حقیقت سے پردہ اُٹھانے کے لئے ہمیں کوئی دوسو سالہ تاریخ کو نہیں پرکھنا پڑے گا بلکہ پچھلے تین دہائیوں کی تاریخ پر اگر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو حقیقت روشن ہوگی۔
ہم طالبانائزیشن سے شروع کرتے ہیں ۔ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مسٹر جنرل ضیاء الحق مرحوم نے طالبانائزیشن کا آغاز کیا اور اپنی بادشاہت قائم رکھنے کے لئے مذہب کو بے دریغ استعمال کیا اور روس کے خلاف میدان میں اُتر گیا اور انڈائریکٹ اس جنگ کا حصہ بن گیا ۔ چونکہ ضیاالحق کسی مدرسے کا فارغ التحصل نہیں تھا بلکہ یونیورسٹی آف دہلی کا گریجوٹ تھا ، مگر مذہب کے نام پرمعصوم لوگوں کو خوب ورغلایا۔ اور اس کے بعد کرنل امام جو کہ آئی ایس آئی کا ایک افیسر تھا اور جب کبھی اس کا نام آتا ہے ہم سب فخر محسوس کرتے ہیں ۔ کیونکہ کرنل امام ملا عمر کے استاد مانے جاتے ہیں ۔ مئی 2009 ء میں آئرلینڈ کا اخبار ” دی آئرش ٹائمز” نے ایک رپورٹ بعنوان ” Peace in ‘ the graveyard of empires’ ” یعنی کہ( سلطنتوں کے قبرستان میں امن )شائع کیا جسمیں انہوں نے کرنل امام کو طالبان کا بانی باپ اور ISI کا اہم رکن قرار دیتا ہے ۔یہ سب کو پتہ ہے کہ کرنل امام کسی مدرسے کا طالب نہیں تھا اور نہ ہی کسی مذہبی جماعت سے تعلق رکھتا ہے مگر انتہاپسندی کو خوب ہوا دیدی۔ اس کے بعد جتنے بھی فوجی جنرل ، بیوروکریٹس یا پھر سیاست دان جو طالبان کے حامی رہے یا انتہا پسندوں کو سپورٹ کئے، سب کے سب باہر ملکوں سے یا پھر پاکستان کے نامی گرامی ادروں سے فارغ التحصل ہیں اور ان کا سرے سے بھی کسی مدرسے سے تعلق نہیں ہے ۔ اور دوسری بات اگر دیکھا جائے کہ ان مدارس یا مذہبی لوگوں کو کیا مل رہاہے؟؟ تو یہ سب کو پتہ ہے کہ مذہبی لوگ یا پھر مدراس کے طالب علم اگر کسی جنگ میں حصہ لے بھی لیتے ہیں تو وہ صرف اور صرف شہادت اور جنت کی حصول کی خاظر!!! ۔۔ اس سے بڑھ کر ان کا اور کوئی مقصدقطعاً نہیں ہوتا ۔ ڈالر اور ریال کھانے والے تو کبھی بھی اس جنگ میں براہ راست حصہ نہیں لیتے ، وہ صرف حالات کو سازگار بناتے ہیں بس!!!۔۔۔۔۔
اب مشال خان کو لیجئے، وہ بھی تو یونیورسٹی کا اسٹوڈنٹ تھا اور مارنے والے بھی یونیورسٹی ہی کے اسٹوڈنٹ تھے۔ مگر ذمہ دار ہم مدارس کو ٹہراتے ہیں۔ جبکہ ہمیں معلوم ہے اس انتہاپسندی کو ہوا دینے والے مذہبی لوگ نہیں بلکہ روشن خیال ، پڑھا لکھا وہ طبقہ ہے جنہوں نے اپنی مفاد کے لئے ملک و قوم کو اس نہ بجھنے والی آگ میں دھکیل کر خود کو باری الذمہ اور اپنے کارتوتوں کو وقت کی ضرورت قرار دیکر سائیڈ ہوگئے اور سارا ملبہ مدارس پر ڈال دئیے ۔ مگر مدارس کے پاس اب بھی وقت باقی ہے۔ کیونکہ دہشت گرد مذہبی یا مدارس کا لبادہ اپنا کر اپنے گمراہ کن کاروائیاں کرتے ہیں اور اسلامی تاریخ میں بھی ہمیں اس بات کی ثبوت ملتی ہے کہ حضور ﷺ کے زمانے میں بھی مشرکین مکہ مسلمانون کو ڈسٹرپ کرنے کے لئے ان کی نقل کیا کرتے تھے۔شرو ع شروع میں نماز کیلئے یہ طئے تھا کہ نماز کے وقت ایک بندہ مسجد میں جا کر آواز دے گا اور مسلمان نماز کے لئے آجائیں گے مگر نماز پڑھ کر لوگ جب اپنے اپنے کام پر لگ جاتے تھے تو مشرکین وہاں آکر پھر آواز دیتے تھے اور لوگ کام کاج چھوڑ کر پھر مسجد میں جمع ہوتے تھے اور پتہ چلتا تھا کہ نماز کا وقت نہیں بلکہ یہ کفار کی شرارت ہے اس کے بعد کئی اور طریقے اپنائے مگر ناکام ہوئے آخر میں ایک اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اذان دیا جائے جسمیں محمدﷺ کا نام بطور رسول اللہ ﷺ شامل کیا جائے کیونکہ مشرکین مکہ حضور ﷺ کو تسلیم کرتے تھے اور ان کی کی صادق اور امین ہونے پر کسی کو بھی شک نہیں تھا مگر وہ رسول اللہؐ کہنے کو تیار نہیں تھے ۔ اسلئے یہ فیصلہ کیا گیا اور صحابی بلال ابن رباحؓ کو مو ذن مقرر کیا گیا اسطرح کفار سے چٹکارا پایا گیا۔ اور اب علماء کرام پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کفار کے لئے ایسا کوئی موقع ہر گز فراہم نہ کریں جسے وہ اپنا کر مسلمانوں کے لئے پریشانی پیدا کریں کیونکہ مدارس میں جومخصوص قسم کا لباس اپنایا جاتا ہے جسے دہشت گرد بآسانی آپناتے ہیں اور کوئی بھی انسانیت سوز کاروائی کرتے ہیں تو الزام براہ راست مسلمانو ں پر لگ جاتا ہے اور اس سے چٹکارہ لینے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم اپنی اصلاح کریں تاکہ کفار اپنے ناپاک کاروائیوں کے لئے ہمارا لبادہ اپنا کر اڑی ماری نہ کرسکیں۔ اسطرح ہم کم ازکم رسوائی سے بچ جائیں گے اور اس فصل کو کاٹنے سے بھی بچ جائیں گے جسے ہم کبھی بویا ہی نہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔