گزشتہ سے پیوستہ 

……….مفتی غیاث الدین………

چترال جیسے پر امن اور حساس نوعیت کے حامل شہر میں اچانک ایک آدمی کی طرف سے نبوت کا دعویٰ کرنا، اور وہ بھی شاہی مسجد چترال میں جمعہ کے دن عین خطبہ کے بعد، یہ واقعہ بہت ساری جہتوں سے کھلی سازش دکھائی دیتا ہے،اس لئے مذکورہ ملزم کو پاگل قرار دے کر اس واقعہ کو انہونی قرار نہیں دیا جاسکتا۔کیونکہ عام طورپر اعلانات نمازِ جمعہ کے بعد ہوتے ہیں لیکن اس (مصنوعی پاگل)نے اپنے اعلانِ نبوت کے لئے وقت بھی ایسا چنا کہ جب مسجد میں پوری طرح خاموشی ہوتی ہے اور سارے نمازی آذان سننے کے لئے تیار ہوتے ہیں،ایسے میں۔۔۔۔۔اس کے علاوہ کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں دکھایا جاسکتا کہ کسی پاگل نے مسجد میں آ کر نبوت کا اعلان کیا ہو۔۔۔یہ بھی عجیب بات ہے کہ پاگل اپنے گھر سے سودا سلف لینے بازار آتاہے ،نماز کے وقت وضو ء کرکے مسجد میں آگے کی صفوں میں سکون سے بیٹھ کر پوری تقریر سنتا ہے کوئی شور شرابا نہیں کرتا ،پھر جمعہ کی نماز بھی سکون سے پڑھتا ہے،اس سارے عرصے میں پاگل پنی کی کوئی ایک علامت بھی ظاہر نہیں ہوتی۔یعنی اعلانِ نبوت سے پہلے بھی صحیح سالم اور تندرست اور اعلان نبوت کے بعد بھی ،لیکن اعلان سے چند سیکنڈ پہلے پاگل بن جاتا ہے۔اس کے علاوہ قومی اوربین الاقوامی تناظر میں بھی اگر اس واقعہ کا جائزہ لیا جائے تو اس کے سازش ہونے کی مزید توثیق ہوتی ہے، مشال خان کے واقعہ کے بعد قومی اور خصوصاًبین الاقوامی طور پر توہینِ رسالت کے آرڈیننس میں ترمیم کی باتیں ہو رہی ہیں ،کہا جا رہا ہے کہ اس آرڈیننس کو لوگ غلط استعمال کرتے ہیں لہذا س پر از سرِ نو غور کرنے کی ضرورت ہے،تو ایسے حالات میں مذکورہ ملزم ہزاروں افراد کے مجمعہ میں پہلے خطیب صاحب سے وقت مانگتا ہے ،پھر اس نازک ٹائم میں بڑے سنجیدہ انداز میں اپنے نبی ہونے کا اعلان کرتا ہے۔اس ساری صورتِ حال کو ذہن میں رکھ کر اگر اس واقعہ پر غور کیا جائے تو سازش ہونے کے علاوہ کوئی دوسری بات حاشیہ خیال میں جگہ نہیں بناتی۔بلا شبہ مذکورہ واقعہ ایک انتہائی حساس نوعیت کا تھا، خصوصاً مشال خان اور دوسرے واقعات کے بعد لوگوں کو سنبھالنا علما ء کرام کے لئے بہت بڑا چیلنج تھا، ملزم کو قتل کرنے کے سوا کوئی بھی بات سننے کے لئے عوام تیارنہیں تھی،ایسے میں علما ء کرام نے نہایت خوش اسلوبی سے اپنی ذمہ داری نبھائی،مساجد میں لوگوں کو پر امن رہنے کی ترغیب دینے کے علاوہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی تقاریر اور تحریرات کے ذریعہ مشتعل عوام کو کنٹرول میں رکھا،اس طرح چترال ایک بہت بڑے تصادم سے محفوظ رہا،بلا شبہ علماء ’’ان العلماء ورثۃ الانبیا ء ‘‘کے عملی مصداق کے طور پر سامنے آئے۔ چترال کے پرُ امن فضا ء کو تباہی سے بچانے میں جہاں علماء کرام کا کردار رہا وہیں چترال سکاوٹ ،پولیس اور لوکل گورنمنٹ نے بھی بڑاچھا رول ادا کیا ۔
یقیناچترالی عوام نے قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لے کر ایک مخلص اور محبِ وطن پاکستا نی قوم ہونے کا ثبوت دیا۔اب حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملزم کو قرآن و سنت اور آئینِ پاکستان کے مطابق بلا رعایت ایسی سزا دے کہ باقی لوگوں کے لئے یہ اہم سبق بن جائے اور آئیندہ کوئی دوسرا پاگل ایسی جرأت نہ کرے۔لیکن اگر حکومت نے اس موقع پر ملزم کیساتھ رعایت کا معاملہ کیاتو یہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہو گا،کیونکہ اگلی بار یقیناًایسے ’’پاگلوں‘‘ کی سزا کا فیصلہ کورٹ میں نہیں بلکہ چوراہوں پر ہوگا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔