دوائے دل ایک روشن کردار

………. محمد شفیع چترالی……………
ہمارے ضلع چترال کی مرکزی شاہی جامع مسجد میں گزشتہ جمعے کے روز ایک واقعہ پیش آیا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ملک گیر شہرت اختیار کر لی۔ شاہی مسجد چترال کے خطیب مولانا خلیق الزمان صاحب ہمارے مہربان دوست ہیں۔ راقم نے ان سے اس واقعے کی تفصیل جاننا چاہی تو انہوں نے بتایا کہ جمعے کی تقریر کے بعد تیسری صف میں بیٹھا ایک شخص کھڑا ہوگیا اورکہا کہ وہ ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہے۔ میں نے یہ سمجھ کر یہ کوئی چندے والا ہوگا ، یہ کہہ کر اس کو بات کرنے سے روکنا چاہا کہ آپ کو جو بھی اعلان کرنا ہے نماز کے بعد باہر جاکر کریں۔ مگر اس شخص نے بات جاری رکھتے ہوئے کہاکہ اسماعیلی مذہب کے پچاسویں امام کا ظہور ہوچکا ہے اوروہ میں ہوں۔ میں سنیوں اور اسماعلیوں دونوں کے لیے بھیجا گیا ہوں اور (نعوذ باللہ) مجھ پر وحی آتی ہے۔ خطیب صاحب کہتے ہیں میں یہ سن کر لپک کر منبر سے نیچے اترا اور اس شخص کو چپ کرادیا۔ مجھے ایسا لگا کہ یہ شخص مخبوط الحواس ہے، اس کا لہجہ واضح نہیں تھا، اس لیے زیادہ تر لوگوں کو پتا نہیں چلا کہ اس نے کیا کہا۔ خطبے کے بعد اقامت و نماز ہوئی اور بیشتر نمازی نماز پڑھ کر چلے گئے جبکہ کچھ افراد نے نماز کے بعد اس شخص کو گھیر کر اس سے پوچھ گچھ شروع کردی۔ اس کی بہکی بہکی باتوں سے ایسا لگا کہ اس کا ذہنی توازن درست نہیں ہے، اس لیے میں نے ضروری جانا کہ اس کو پولیس کے حوالے کردیا جائے تاکہ معاملہ کوئی سنگین رخ اختیار نہ کر جائے۔ پولیس کچھ ہی دیر میں آئی اور اس کو ساتھ لے گئی۔ اس دوران شہر میں یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ شاہی مسجد میں ایک شخص نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا ہے، چنانچہ تھوڑی ہی دیر میں سینکڑوں افراد مسجد کے باہر جمع ہوگئے اور جب انہیں بتایا گیا کہ ملزم کو پولیس کے حوالے کردیا گیا ہے تو انہوں نے تھانے پر دھاوا بول کر مطالبہ کرنا شروع کیاکہ ملزم ان کے حوالے کردیا جائے۔ پولیس نے مجمع کو منتشر کرنے کے لیے شیلنگ، لاٹھی چارج اور پکڑ دھکڑ کا روایتی طریقہ اختیار کیا جو کہ چترال میں انہونی کے مترادف ہے۔ اس سے اشتعال بڑھا اور مشتعل مظاہرین نے شاہی مسجد کے احاطے میں کھڑی خطیب صاحب کی گاڑی پر غصہ نکالا کہ انہوں نے ملزم کو پولیس کے حوالے کیوں کیا۔ اگلے روز چترال کی دیگر تحصیلوں میں بھی کئی مقامات پر احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور حالات کشیدہ دکھائی ہوتے دینے لگے۔ اس معاملے کا حساس پہلو یہ تھا کہ ملزم کا تعلق چونکہ ایک دوسرے فرقے سے تھا، اس لیے کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ معاملے کو فرقہ وارانہ کشیدگی کی طرف لے جاکرچترال جیسے پر امن ضلع کے امن کو تہ وبالا کرسکتا تھا تاہم اس موقع پرضلعی انتظامیہ (چترال پاکستان کا واحد ضلع ہے جہاں اس وقت بھی ”متحدہ مجلس عمل“ کی حکومت قائم ہے، ضلعی ناظم ہمارے مہربان جماعت اسلامی کے حاجی مغفرت شاہ اور نائب ناظم جے یو آئی کے ہمارے ساتھی مولانا عبد الشکور ہیں) چترال سکاوٹس، پاک آرمی اور سب سے بڑھ کر علماءکرام نے انتہائی ذمہ دارانہ کردار ادا کرتے ہوئے حالات کو نہ صرف سنبھالا دیا، بلکہ امن پسندی، حسن تدبیر اور رواداری کے حوالے سے پورے ملک کے سامنے ایک عمدہ مثال قائم کردی۔ اس حوالے سے سب سے نمایاں اور روشن کردار مولانا خلیق الزمان کا ہے۔ یہاں مناسب معلوم ہوتا کہ مولانا کا کچھ خاندانی پس منظر بھی بیان کیا جائے تاکہ قارئین کو اندازہ ہوکہ لہجوں میں تحمل اور رویوں میں تدبر ویسے نہیں آتا بلکہ اس کے پیچھے بسا اوقات پوی ایک تاریخ ہوتی ہے۔ مولانا خلیق الزمان چترال میں” خطیب صاحب“ کے لقب سے معروف ہیں اور یہ لقب دراصل ان کے والد گرامی اور چترال کے نامور عالم دین اور بزرگ شخصیت مولانا صاحب زمان سے انہیں ورثے میں ملا ہے۔ مولانا صاحب زمان ازہر الہند دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے اور شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے ممتاز شاگرد تھے۔ ان کی فراغت 1946ءکی ہے۔ طالب علمی زندگی میں حضرت مدنی کے خدمت گزار تھے، فراغت کے بعد 1946ءتا 1947ءتک حضرت کی خدمت میں رہے ۔وہ حضرت کے صاحبزادوں مولانا اسعد مدنیؒ اور مولانا ارشد مدنی کو گھر میں فقہ کی مشہور کتاب ہدایہ کی دوہرائی کراتے تھے۔ تقسیم کے بعد حضرت مدنی ؒکے حکم پر پاکستان آئے۔ یہاں آکرسابق ریاست چترال کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی تحریک شروع کی اور اس تحریک کی وجہ سے انہیں مختلف آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ 1949ءمیں ریاست چترال کا الحاق پاکستان سے کردیا گیا۔ اس وقت سے وہ شاہی مسجد کے شاہی خطیب رہے۔ خطیب صاحب نے بھرپور زندگی گزاری، نصف صدی تک چترال کے لوگوں کو دین حق کی تعلیم دی، مختلف رسومات اور بدعات کا خاتمہ کیا اور چترال میں جمعیت علماءاسلام کے پلیٹ فارم سے بھرپورعملی زندگی گزاری۔ آپ کو چترال میں مولانا مفتی محمود، مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا سید گل بادشاہ، مولانا ایوب جان بنوری، مولانا عبدالمجید شاہ رحمہم اللہ اور دیگر علماءکی میزبانی کا شرف حاصل رہا۔ خطیب صاحب مرحوم نے حضرت مدنیؒ کے اوصاف حلم، بردباری اور قوت برداشت اور صبروتحمل میں کافی حصہ پایا تھا، وان کے صاحب زادے مولانا خلیق الزمان میں موجود ہے۔ مولاناچترال میں رفاہی و ملی خدمات میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ وہ ہمارے مخدوم مولانا قاری فیض اللہ چترالی صاحب کی رفاہی خدمات کے نگران اور منتظم ہیں۔ حالیہ عرصے میں چترال میں قدرتی آفات اور زلزلوں کے بعد وہاں 3کروڑ سے زائد کی امداد ان کی نگرانی میں تقسیم ہوئی۔ وہ علماءکے قدردان، تمام کے خدمت گزار ہیں اور موجودہ حالات میں انہوں نے جس صبر وتحمل اور قانون پاسداری کا ثبوت پیش کیا ہے وہ ہر لحاظ سے قابل تعریف ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ ایک بڑے فتنے کو ٹالنے کے ان کے اس روشن کردار کو قومی سطح پر سراہا جائے اوران کے نقصان کا ازالہ کیا جائے۔ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ملزم سے متعلق ضروری تفتیش جلد مکمل کرکے حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں اوراگر اس نے یہ جرم بقائمی ہوش وحواس کیا ہے تواسے آئین و قانون کے مطابق سزا دی جائے تاکہ یہ بھی ایک مثال بن جائے اور آیندہ لوگوں کو قانون ہاتھ لینے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔
⁠⁠⁠⁠
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔