داد بیداد ….پشاور کا عاشق پروفیسر عثمان علی

…………..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ ………..

کوئی ایسا اہل دل ہو کہ فسانہ محبت
میں اسے سنا کے رؤوں وہ مجھے سنا کے روئے
کالج آف ایجو کیشن گلگت کے سابق پرنسپل ،ماہر تعلیم ،ادیب اور دانشور پروفیسر عثمان علی 74 سال کی عمر میں وفات پا گئے مرحوم پشاور کے سچے عاشقوں میں سے تھا ان کی طالب علمی کا زمانہ پشاور میں گذرا تھا اُس دور کی یا دوں کو تازہ کر کے پشاور سے اپنی محبت کا اظہار کیا کر تے تھے کالج آف ایجوکیشن (IER) اور صاحبزادہ عبد القیوم ہاسٹل کو بہت یاد کرتے تھے وہ نہ صرف گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے درمیان پُل کا کام دیتے تھے بلکہ انہوں نے گلگت بلتستان کے اندر مختلف مسالک کے درمیان بھی پل کا کام دیا وہ دلوں کو جو ڑنے والے تھے توڑنے والے نہیں تھے پروفیسر عثمان علی سے میر ی پہلی ملاقات جو ن 1985ء میں ہوئی پانچویں کل پاکستان اہل قلم کانفرنس میں ہم دونوں مدعو تھے ہم نے سفید اونی ٹوپیوں کی مدد سے ایک دوسرے کو پہچانا انہوں نے شاکر حسین شمیم بلتستانی سے میرا تعارف کرایا میں نے سید تقویم الحق کا کاخیل خاطر غزنوی ،قلندر مو مند اور قاسم بنوی سے اُن کا تعارف کرایا اُن دنوں وہ اپنی کتا ب ’’شینا لوجی ‘‘پر کام کر رہے تھے اور مواد جمع کر رہے تھے 1988 ء میں ایک سیمینا ر میں شرکت کے لئے چترال تشریف لائے اس دورے میں سید محمد عباس ،عبدالخالق تاج ،امین ضیااور حسین شگری ان کے ہمر اہ تھے پھر گلگت اور اسلام آباد میں ان کی صحبتوں سے فیض یاب ہونے کے مواقع ملتے رہے گلگت میں سب لوگ انہیں ’’استاد عثمان علی ‘‘کہہ کر عزت سے نام لیتے تھے ہر ملاقاتی ان کا ہاتھ چومتا تھا کہا کرتے تھے اس ہاتھ چومنے والی عادت سے تنگ آگیا ہوں ہم عرض کرتے تھے مغل ہو ،اس پر خوش ہو جاؤ ،حکومت آپ کی اجداد کو ملی تھی ،حکومت سے بڑھ کر عزت آپ کو ملی ہے شا ہجہان نے زندان سے ایک بار اورنگ زیب کو خط لکھا کہ قیدیوں کو پڑھانے کی اجازت دو ،میرا وقت گزر جائے گا اورنگ زیب نے خط پڑھ کر کہا ’’ بو ڑھے کے سر میں اب بھی بادشاہت کا بھوت سوار ہے‘‘اورنگ زیب نے سچ کہا سبق پڑھانا بادشاہت سے کم نہیں اگر پروفیسر عثمان علی جیسا استاد ہو تو بادشاہت بھی اُس کے آگے ہیچ ہے پروفیسر عثمان علی 1943ء میں گلگت کے مجینی محلہ میں منشی محمد یوسف مغل کے ہاں آنکھ کھولی اُن کے والد گرامی فارسی کے ادیب فاضل اور ریاسی نظم و نسق میں منشی کے عہدے پر فائز تھے یہ عہدہ موجودہ زمانے کے سپر ٹنڈنٹ کے برابر تھا انہوں نے بیٹے کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی اور بیٹے نے بھی باپ کو مایوس نہیں کیا تعلیم سے فراغت کے بعد درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا ساتھ ساتھ قلم اور اہل قلم کے ساتھ رشتہ استوار رکھا شینالوجی ان کی پہلی کتا ب ہے جس میں انہوں نے گلگت بلتستان کی اساطیری تاریخ پر قلم اُٹھایا ہے ادب وثقافت کے پوشیدہ گوشوں کو وا کیا ہے اس کے بعد ان کی کتابوں کا سلسلہ شروع ہوا ، قراقرم کے قبائل میں انہوں نے گلگت بلتستان کی نسلیاتی تاریخ لکھی جلوہ قراقرم کے نام سے انہوں نے علاقائی تاریخ و ثقافت پر قلم اُٹھایا خطہ قراقرم کے عنوان سے انہوں نے خطے کی تہذیب و تمدن پر سیر حاسل بحث کی ان کی معرکتہ لا را کتا ب گلگت کا انقلاب ہے ا س میں کرنل حسن اور میجر بابر خان کی قیادت میں گلگت کی آزادی کی تحریک کا جائزہ لیا گیا ہے اور یہ علاقائی تاریخ پر مستند دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے گذشتہ چار سالوں سے وہ اپنی نئی کتاب کے لئے مواد جمع کر رہے تھے اس میں ذاتی یا داشتوں کے ساتھ علاقائی تاریخ کے اوراق پر نشان کو یکجا کرنے کا ارادہ تھا مجینی محلہ گلگت میں پروفیسر عثمان علی کا گھر کشروٹ میں واقع عبدالخالق تاج کے گھر سے زیادہ دور نہیں ہے مگر دونوں کے مزاج میں مشرق و مغرب کی دوری تھی عبدالخالق تاج شعلہ جوالہ کی حیثیت رکھتے ہیں تو پروفیسر عثمان علی ڈھلتی چھاؤ ں کی طرح تھے احباب کہا کرتے تھے کہ عثمان علی استا د بات کو بھی سونے کے ترازو میں تولتے ہیں ا ور جوہری کی طرح الفاظ کو پرکھتے تھے اس کے بعد بولنے اور لکھنے میں برتتے تھے پروفیسر عثمان علی کی وفات سے گلگت بلتستان ایک معتدل مزاج سماجی رہنما سے محروم ہوگیا ہے یہ خلا ایک عرصے تک پُر نہیں ہوسکیگا اُن کے پسماندگان میں چھ بیٹے ہیں بڑا بیٹا رئیس احمد عثمانی کتب خانہ چلاتا ہے اس کے بعدبر یگیڈ ئر مسعود احمد ،میجر عدیل احمد ،وسیم احمد ،ذولفقار احمد اور شکیل احمد اپنی اپنی جگہ کامیاب و کامران زندگی گزاررہے ہیں ۔
بدلا ہی نہیں دل میں تیر ی یاد کا موسم
تنہائی وہی درد وہی رات وہی ہے
سانسوں میں بسی رہتی ہے ایک یاد کی خوشبو
محسوس یہ ہوتا ہے میرے ساتھ وہی ہے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔