داد بیداد ……..موبائل فون ،کمپیوٹر اور ہمارا دشمن

………ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ …..

قانون کی زبان میں کمپیوٹر کے ذریعے جرم کرنے کو سائبر کرائم (Cyber Crime) کہا جاتا ہے سنگا پور،ہانگ کانگ ،امریکہ یا فرانس میں بیٹھا ہو ا شخص کمپیوٹر کے ذریعے پا کستان میں آگ لگا دیتا ہے ،کرک ،لکی مروت ،مانسہرہ یا سیالکوٹ میں گھومنے والا آدمی کمپیوٹر کے ذریعے دیر ،سوات اور چترال میں بد امنی کی ترغیب دیتا ہے موبائل فون کا شارٹ مسیج سروس (SMS) بھی ان کاموں کیلئے استعمال ہوتا ہے ہمارا دشمن صرف لائن آف کنٹرول پر گولہ باری نہیں کرتا ہماری مارکیٹوں اور مسجدوں پر حملوں کے لئے خود کش بمبار ہی نہیں بھیجتا ہمارا دشمن کمپیوٹر اور موبائل فون کے ذریعے آن لا ئن بھی پاکستان کی سلامتی ،قومی یک جہتی اور ملک کی سا لمیت کے خلاف مختلف داؤ اور حربے آزماتا ہے دشمن کی طرف سے ٹوئیٹر ،فیس بک اور ای میل کے ذریعے نفرت انگیز پیغامات آتے ہیں دشمن موبائل کے ایس ایم ایس کو استعمال کر کے بدامنی اور فساد پر نو جوانوں کو اُکساتا ہے غیرت ایمانی کو للکارکر دوسروں پر حملے کی ترغیب دیتا ہے 22اپریل کو خفیہ ایجنسیوں نے ایک ایس ایم ایس پکڑلیا اس میں 20دفتروں ،50گھروں ،100دکانوں کو جلانے ،200گاڑیوں کو آگ لگانے اور 18بندوں کو قتل کرنے کی ترغیب دی گئی تھی موبائل کمپنی سے معلومات حاصل کی گئیں تو میسج کرنے والا خیبر پختونخوا کا باشندہ نکلا اس کے لئے مشین کے ذریعے ’’ٹریکر ‘‘ (Tracker) لگایا گیا تو معلو م ہوا کہ وہ کراچی میں رہتا ہے مو بائل سِم کراچی سے استعمال ہو رہا ہے ایک ہفتہ بعد معلومات حاصل کی گئیں تو معلوم ہو اکہ 6دنوں میں 5بار بلوچستان اور دوبارہ حیدر آباد گیا ایک بار اس نے ملتان کا سفر کیا مشین سے پوچھا گیا کہ اس وقت وہ کہاں ہے ؟ مشین نے ہوٹل کا نام اور کمرہ نمبر بتادیا قریبی پولیس اسٹیشن کو اطلاع دی گئی ملزم گرفتار ہوا تو پتہ چلا کہ وہ کالعدم تنظیم کا عہدیدار ہے پڑوسی ملک کیلئے کام کرتا ہے اُس کے پاس موبائل کی 6کمپنیوں کی 18سمیں رکھی ہوئی ہیں ہر مشن کیلئے الگ الگ سم استعمال کرتا ہے اُس نے پڑوسی ملک ے دہشت گردی کی تربیت بھی حاصل کی ہے دس بار دوبئی ،پانچ بار امرتسر اور 2بار امریکہ جا چکا ہے اس کے پاس تین پاسپورٹ ہیں افغانستان کا بھی ہے پاکستان کا بھی ہے امریکہ کا بھی ہے اگرچہ موبائل سموں کی بائیومیٹرک تصدیق کے بعد ایسے لوگوں کو پکڑنا آسان ہو گیا ہے تاہم اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے پاکستانی معاشرے میں موبائل فون اور کمپیوٹر کے بارے میں آگاہی اور بیداری پیدا نہیں ہوئی لوگ اپنا موبائل فون اور موبائل سِم کسی اور کے ہاتھوں میں دینا جرم نہیں سمجھتے لوگ موبائل پر فون کرتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ میر ی بات ریکارڈ ہورہی ہے لوگ موبائل ہاتھ میں لیکر ایک شہر سے دوسرے شہر جاتے وقت اس بات کا خیال نہیں رکھتے کہ میر ی حرکات وسکنات کسی اور کی میز پر دکھائی جارہی ہیں کسی کو میسج کرتے وقت ،کسی کا میسج آگے بھیجتے وقت خیال نہیں کرتے کہ میر ا میسج ایک مشین سے گذر تا ہے مشین اس میسج کو پڑھ کر آگے بھیج دیتا ہے اس میسج کے ذریعے مجھے گرفتا ر کیا جا سکتا ہے یہ باتیں موبائل فون اور موبائل سم استعمال کرنے والوں کو معلوم نہیں یہ سائبر کرائم ہے ہمارا دشمن اس قت پاکستان کے خلاف سائبر کرائم کا ہتھیار کامیابی کے ساتھ استعمال کر رہا ہے ایک بھارتی افسر کوہاٹ میں ڈیرہ ڈالتا ہے اُس کے 10کارندے بنوں ،ڈی آئی خان ،ایبٹ آباد ،مردان ،دیر اور چترال میں کام کرتے ہیں بھارتی افسر اپنا موبائل سم استعمال نہیں کرتا وہ اپنے پاکستانی کارندوں کے سِم استعمال کرتا ہے اور ان کو پیسے دیتا ہے پاکستانی شہری دو ٹکوں کے لئے دشمن کے کام آتا ہے اور پاکستان کی سلامتی کے خلاف کاروائیاں کرتا پھرتا ہے پانامہ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد دشمن نے کمپیوٹر کے ذریعے بھی ،موبائل کے ایس ایم ایس کی وساطت سے بھی پاکستان کی حکومت ،پاکستان کی عدلیہ اور دیگر اداروں کے خلاف نفرت انگیز اور زہر آلود مواد کی ترسیل کا کام ملک کے اندر کام کرنے والی کالعدم تنظیموں سے لیا اب حکو مت کی طرف سے ایسے پیغامات آنا شروع ہو گئے ہیں کہ کوئی نفرت انگیز فتنہ انگیز اور فساد برپا کرنے والا میسج آگے نہ بھیجیں ایسا میسج آجائے تو میسج لکھنے اور بھیجنے والے کانام اور پتہ معلوم کرنے کے لئے خفیہ اداروں سے رجو ع کریں اس کے بعد میسج کو ضائع کریں گذشتہ دو ہفتوں کے اندر اس طرح کے نفرت انگیز فسادی مواد پر مشتمل 720میسج پکڑلے گئے ہیں فیس بک اور ٹوئیٹر پر وطن دشمن مو اد پکڑ ا گیا ہے اور بعض گرفتاریاں بھی عمل میں آئی ہیں اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو بہت جلد اس محاذ پر بھی دشمن کو شکست دی جائیگی سائبر کرائم میں ابھی تک کسی کو سزا نہیں ہوئی اب وقت آگیا ہے کہ سائبر کرائم کے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیج کر ملزموں کو تختہ دار پر لٹکایا جائے تاکہ آئیندہ کسی کو دشمن کا آلہ کار بننے کی جراء ت نہ ہو ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔