شاہی مسجد واقعہ  ،مذہبی جماعتیں اور ناقدین

 فدا محمد

21اپریل کو شاہی مسجدچترال میں پیش آنے والا واقعہ اپنے اندر بے شمار قباحتیں اور اذیتیں لیے وقوع پذیر ہوا تھا۔ کرنے والے نے تو اپنی طرف سے تباہی مچانے  اور چترال کے حسن کو گہنانے کا پورا سامان لیے  نکلا تھا۔ خدا نخواستہ وہ معلون مسجد میں قتل کیا جاتا  یا اس ضمن میں کوئی   دوسرا حادثہ پیش  آتا تو   نہ معلوم اس فتنہ کے بطن  سےمزید  کتنے حادثات  ِ فاجعات جنم لے لیتےاور نہ جانے  ہمیں کس کس رنگ کی تباہ کاریوں کا سامنا کرنا  پڑتا ۔ اس  واقعے کے رونما  ہونے   پر عوام کا برانگیختہ  ہونا عین فطری امر تھا، مگر چند ایک   لوگوں کے آپے سے باہر  آکر غیر قانونی حرکتوں پر  اتر آنے   اور انتظامیہ کی جانب سے ضرورت سے زیادہ درعمل  کی وجہ  سے   کچھ مشکلات اور قبائح ضرور  وقوع پذیر ہوئے جن  کا خمیازہ لوگوں  کوبھگتنا پڑ رہا ہے اور عرصہ تک  سہنا پڑے گا۔ بہرحال چترالی عوام نے بحیثیت مجموعی ایک سنجیدہ ، متین  اور قانون کا احترام کرنے والی قوم کے طور پر اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب  ہوگئے ہیں۔ اور چترال کے بجائے کسی اور علاقہ کی جامع مسجد  میں عین نماز جمعہ کے وقت یہ واقعہ رونما ہوتا ، تو اس کے نتائج یقینا بھیانک ہوتے۔ وقوعہ کے صادر ہونے کے بعد لوگوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کا کارگر نسخہ جو سوجھا گیا وہ یہ تھا کہ فوری طور پر  ملزم کے خلاف توہین رسالت  ایکٹ کے مطابق ایف آئی آر  درج کراکر  اس کا اعلان عام  کیا جائے۔ ڈسٹرکٹ ناظم نے حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے  علماء اور سیاسی قائدین پر مشتمل وفد کی ڈی سی چترال سے ملاقات  کے ذریعے اس امر کو یقینی بنانے کی کامیاب سعی فرمائی۔( ایف آئی آر  میں سقم کے حوالے سے جو باتیں گردش کررہی ہیں ، اس موضوع  کومناسب وقت تک کے لیے “محفوظ “رکھ کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔) ملزم کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کے بعد سب سے بڑا مسئلہ حالات کو معمول پر لانے اور   لوگوں کو پر امن رکھنے کا تھا۔ اس مقصد کے لیے ڈی سی صاحب کے دفتر سے نکلتے ہیں علمائے کرام کو ٹاؤن کی مساجد کی طرف روانہ کردیا گیا اور ناظم اعلیٰ  خود ایف ایم ریڈیو کے ذریعے عوام سے پرا من رہنے کی اپیل کرنےنکل کھڑے ہوئے۔ اگلے روز  حالات کا جائزہ لینے کے لیے جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام  کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا، جس میں عوام کو اشتعال سے روکنے کے حوالے سے  کئی امور زیر بحث آئے۔ بعد ازاں جی او سی ملاکنڈ اور ڈی آئی جی ملاکنڈ سے دونوں مذہبی جماعتوں کے قائدین کی ملاقات ہوئی، جس میں دیگر امور کے ساتھ ساتھ  بھر پور طریقے سےگرفتار شدگان کی فوری رہائی اور مزید گرفتاری سے گریز کی بات بھی سامنے رکھی گئی۔ اس روز  شام کو اسی نمائندہ وفد نے  ملزم کے خلاف قانونی کارروائی کو یقینی بنانے اور کسی قسم کی فروگزاشت  باقی نہ رہنے دینے   کے حوالے سے ڈی پی او سے بھی  ملاقات کی ۔  اس کے بعد  عدالت کے سامنے گواہوں کی گواہی کو قلم بند کرانے کا مسئلہ تھا،جس کو یقینی بنانے کے لیے ایک  کمیٹی تشکیل دیدی گئی اور نماز جمعہ کے روز صف ِ اول میں  موجود پانچ ثقہ افراد، جن میں خطیب شاہی مسجد، امام شاہی مسجد، مؤذن اور دو دیگر افراد کو مدعی ِ نبوت کے ملزم کے خلاف  گواہ کے طور پر عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔  اب اگلا مسئلہ گرفتار شدگان کی رہائی اور مزید گرفتای روکنے کا تھا، اس  سلسلے میں ڈی پی او  صاحب سے کئی بار کی ملاقاتوں کے علاوہ پریس کانفرنس کے ذریعے مقتدر حلقوں سے اپیلیں  کی گئیں۔ ڈی پی او   صاحب اور دیگر ذمہ داران نے  ہر بار گرفتار شدگان کی عافیت ، ان  کے خلاف  ایف آئی آر نہ کرنے اور آئندہ نماز جمعہ کے بعد حالات کے معمول پر آنے کی صورت میں سب کی رہائی کا  کا مژدہ  ہی سناتے  رہے۔  27 اپریل کو  چترال کے مذہبی قائدین نے اپنی کاوشوں میں دوسرے قائدین کو شریک کرنے  اور اپنی آواز میں قوت پیدا کرنے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ اور  جماعت اسلامی کی دعوت پر   اجلاس جماعت اسلامی کے دفتر میں منعقد ہوا۔ جس میں تقریبا تمام پارٹی نمائندوں نے شرکت کی۔ اجلاس میں اتفاق رائے سے گرفتار شدگان کی رہائی  اور مزید گرفتاریوں سے گریز کے سلسلے میں قرارداد منظور ہوئی، جس  میں کہا گیا تھا کہ” شاہی مسجد واقعہ  کے بعد احتجاج ایک فطر ی امر تھا، حکومت کو ضرورت سے زیادہ رد عمل دکھانے کی ضرورت نہ  تھی۔ احتجاج کرنے والوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاری سے  علاقے میں امن کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ اور وزیر اعلی سے مطالبہ کیا گیا  کہ حالات کو ابتری کی طرف  لے جانے سے بچانے کے لیے احتجاج کرنے والوں کے ساتھ نرمی کا سلوک  کرکے عام رہائی کا حکم جاری کیا جائے۔اسی اجلاس میں بعض سیاسی  قائدین کے مطالبہ پر ڈسٹرکٹ ناظم کے توسط سے ڈی سی چترال سے ملاقات کے لیے وقت لیا گیا۔ اور ساڑھے تین بجے  یہ ملاقات ڈی سی آفس میں شروع ہوئی۔   ماقبل منعقد ہونے والے اجلاس میں مسلم لیگ نون کی نمائندگی کوئی  اور صاحب کررہے تھے،جبکہ ڈی سی صاحب  کے ساتھ ملاقات میں سید احمد صاحب صدر مسلم لیگ نون بنفس نفیس شریک ہوئے۔  اجلاس میں پارٹی رہنماوں کے علاوہ کچھ دیگر مہمانان گرامی بھی شریک تھے، بات شروع ہوئی جماعت اسلامی کے امیر مولانا جمشید نے کہا کہ حکومت کی جانب سے غیر ضروری رد عمل سے حالات کے مزید خراب ہونے کا امکان ہے، اس لیے گرفتار شدگان کو عام معافی دی جائے، تاکہ امن کے ماحول کو برقرار رکھا جاسکے۔ اس بات کو میزبان کے ساتھ کچھ دیگر مہمانوں نے بھی برا منایا۔ جبکہ سید احمد صاحب    نے اپنی غیر متوقع رائے سے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ۔ انھوں نے نہ صرف کھل کر گرفتار شدگان کی رہائی کی مخالفت کی بلکہ  اپنی رائے سے پورے معاملے کو تلپٹ کرکے رکھ دیا  اور یہاں تک کہہ بیٹھے کہ “میرا بیٹا بھی ان میں شامل ہوتا ، تب بھی میں رہائی کی بات نہ کرتا۔”   یہ ان کا موقف تھا، اور ہر کسی کو اپنا موقف کھل کر بیان کرنے کا حق حاصل ہے۔ سید احمد صاحب ایک مقبول  عوامی لیڈر ہیں، اس لحاظ سے ان کا فرض بنتا تھا کہ کسی عوامی اجتماع  میں جاکر یا ریڈیو کے ذریعے اس عزم عالیشان اور قانون کی پاسداری  کا  سبق سب کو سکھانے کی کوشش کرتے، تاکہ لوگ  قانون کے احترام کا سبق یاد کرکے آرام سے گھر بیٹھ جاتے، یا کم از کم گرفتار شدگان کے “جرم عظیم ” سے آگاہ ہو کر ہمدردی سے رجوع کر لیتے۔ہم ان کے حق میں یہ دعا ضرور کریں گے کہ جس جوانمردی اور عزم بلند کا اظہار انھوں نے فرمایا ہے ، اللہ تعالیٰ اس اعلان ِعزیمت  اور پامردی و شجاعت کو عملی  جامہ پہناکر نام پیدا کرنے کا انھیں  جلد موقع دے۔ آمین!اس غیر متوقع  صورتحال  نے سب کی زبانیں گنگ کرکے رکھ دی اور جماعت اسلامی کی قیادت  کے علاوہ  باقی حضرات اپنا موقف بیان کرنے سے عاجز نظر آئے۔ظاہر  ہے  کہ سیاسی قائدن میں  اختلافِ رائے  کا فائدہ انتظامیہ نے اٹھانا ہی تھا، جو کہ بھر پور طریقے سے اٹھا یا گیا۔ اور یہ اجلاس جو کہ گرفتار شدگان کی رہائی کی کوششوں کے سلسلے میں منعقد ہوا تھا، ان کے خلاف چارج شیٹ بن کر اختتام پذیر ہوا۔  اس کے بعد کسی کوشش میں وہ زور باقی نہ رہا ، جس کے بارے میں  ابھی تک ہم  ایسے لوگ خوش فہمی کا شکار تھے۔   28 اپریل کو نماز جمعہ کے سلسلے میں غیر معمولی سیکورٹی کا انتظام کیا گیا تھا،  اللہ تعالی کے فضل سے کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما  ہوا نہ کسی نے چوں کی۔ یہ  دن و عدہ کے مطابق گرفتار شدگان کی رہائی کا   دن تھا، جب رابطہ کرنے پر  معلوم ہوا کہ بہت ساروں کے خلاف    وقوعہ کے دن ہی سے مختلف دفعات کے تحت ایف آئی آر کاٹا  گیا  ہے۔ اب ایف آئی آر درج ہونے کے بعد   اس سلسلے میں کوئی کارروائی اور جیل منتقلی سے روکنے کی کوشش بعینہ  احتجاجیوں کی طرف سے ملزم کی حوالگی  کے مطالبے کے مانند معاملہ ہوتا،جو کسی صورت سراہنے کے لائق بات نہیں ۔  البتہ جن گرفتار شدگان کے خلاف  قدرے نرم دفعات لگا کر ڈسٹرکٹ جیل چترال منتقل کیا گیا تھا ، اگلے روز ضمانت کے ذریعے ان کی رہائی کا بندوبست کرلیا گیا۔ اس کی سعادت بھی مذہبی جماعتوں ہی کے حصے میں آئی اور کسی بہادرناقد کو تگ و دو  تک کی توفیق  نصیب نہ ہوسکی۔ دھشت گردی ایکٹ کی زد میں آنے والے   قیدیوں کو ڈی آئی خان جیل لے جاتے ہوئے وین کو حادثہ پیش آیا۔  قیدی جیل کے بجائے ہتھکڑیوں اور بیڑیوں کی جکڑمیں ہسپتال منتقل ہوگئے۔ حادثہ کے واقعہ  نےنہلے پر دھلا کا کام دیا۔  لوگ  جو اپنے عزیزوں کی جیل منتقلی سے  پریشان تھے، مزید اذیت میں مبتلا ہوگئے۔ اس موقع پر چترال سے جے یو آئی کے قائدین تیمارداری کے لیے ورانہ ہوگئے اور عبدالاکبر چترالی پشاور سے فوراََ ڈی آئی خان کا رخ کیا،  زخمی قیدیوں  کے زخمی دل وجسم پر مرہم رکھنے کی کوشش کی اور یہ یاد دلایا کہ  ہم اپنی تمام تر کمزوری کے باوجود آپ لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔  مگر افسوس کہ ہمارے کرم فرماؤں کو  مذہبی قائدین کی طرف سے اپنے چترالی بھائیوں کے ساتھ یہ ہمدردی اور خیر سگالی کے جذبہ میں بھی ٹیڑھ  نظر آنے لگی۔ اوروہ  اس عمل کو “منافقت”  “سیاسی پوائنٹ اسکورنگ” وغیرہ جیسے اذیتناک الفاظ سے مزین کرکے اچھا ل کر  لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی کرنے  میں مصروف ہوگئے۔ معلوم نہیں،   اس ذہنیت کو   خبثِ باطن کے علاوہ  اور کیا نام دیا جائے گا ؟یعنی جو کام تجھ سے نہ ہوسکا ، وہ کوئی اور کرے تو منافقت ہی ٹھہرے۔۔   بھائی یا تو اپنے اندر مظلوموں اور بے بسوں کی دستگیری کی خو پیدا کرنے کی کوشش کریں یا پھر جو لوگ اپنی استطاعت کے مطابق حرکت کررہے ہیں ، انھیں اپنے کام کرنے دیں۔ خود  کسی کا غم نہ کھانا  اور اپنی ذات تک محدود رہنے کی عادت ایک برائی ہے،مگر خود کچھ نہ  کرنے کے ساتھ  دوسروں کی حرکتوں کو بھی  شک کی نظر سے دیکھنا  اور اپنی ذہنیت پر قیاس کرکے   منافقت  کے چوہے برآمد کرنے کی کوشش کرنا   بدترین قسم  کی برائی ہے۔ اس  کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ جس طرح ہم “آسودہ حال “ہیں، سب لوگ ایسا ہی زندہ درگور   ہو جیئے،کیونکہ مخالفین کی حرکت یا کسی سے ہمدردی جو ہم سے کسی صورت نہیں ہو پاتی، کسی اور سے بھی نہ ہو،تاکہ عوام الناس کی نظروں میں سب ایک ہی قبیل کے جانور متصور ہوں۔

سودا قمار عشق میں شرین سے کوہکن

بازی اگر لے نہ سکا ، سر تو کھو سکا

کس منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے  عشق باز

اے رو سیاہ!  تجھ سے تو  یہ بھی نہ ہو سکا

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔