دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔۔۔۔۔۔چیرمین بی ائی ایس ای پشاور کا دورہ چترال

…………………محمد جاوید حیات …………..

چترال اپنی جعرایائی لحاظ سے ملک کا دورا فتادہ اور پسماندہ ترین ضلع تھا ۔۔چھ مہینے ملک کے دوسرے حصوں سے منقطع رہتا ۔۔زمینی رسائی نہ ہوتی موسم کی خرابی کی وجہ سے فلائیٹیں نہ ہوتیں اور علاقے کے باشندے ہر لحاظ سے پھنسے ہوئے ہوتے ۔۔خاص کر وہ لوگ جو تعلیم حاصل کرنے کا خواب دیکھا کرتے ۔۔اداروں میں وہ اساتذہ جوبچوں کی انرولمنٹ،داخلے وغیرہ تعلیمی عمل کے ذمہ دار ہوتے ۔۔وہ کتنے دکھ اور اذیت کا شکار ہوتے ۔۔بچوں کا داخلہ وقت پہ نہ ہوتا تو ان کا وقت ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ۔۔امتحانات سخت موسمی حالات میں ہوتے ۔۔دور دور سٹیشنوں میں امتحانات منعقد کرانا محال تھا۔۔ سلام ہو ان محنتی کارکنوں کو کہ انھوں نے قوم کے نونہالوں کا قیمتی وقت ضائع ہونے نہ دیا ۔۔آج وہ لوگ اس مشکل دور میں تعلیم حاصل کی زمہ دار عہدوں پر ہیں ۔۔۔پشاور اس وقت سے چترال کا محسن رہا ہے ۔۔پشاور بورڈکے اہلکاروں نے چترال کی پسماندگی کو خوب محسوس کیا اور چترالیوں کی خدمت کی۔۔ جہاں تک میراتجربہ رہا۔۔ توانہوں نے خدمت کی ہے ۔۔ہر ڈیپارٹمنٹ میں مافیا کے ہاتھوں مجبوری ہے اگر ایسا کبھی ہوا تو ہوا ہوگا ۔۔سن دوہزار تیرہ کو مختلف سٹیک ہولڈرزکی کوششوں سے چترال میں پشاور بورڈ کا کمپس کھولا گیا ۔۔اور بہت سارے کام اس چھوٹے سے کمپس میں انجام پانے لگے ۔۔ان میں دیم سیز کی ویریفیکیشن ،اغلاط کی درستگی ، مایگریشن ،رول نمبروں کی ترسیل ، امتحانی عملوں کی تعیناتی ،دور دراز سنٹروں میں امتحانی سامان کی بر وقت ترسیل اورآسان رابطے شروع ہوئے ۔۔ابتدا میں اس عملے کوبہت سے آزمائیشوں کا سامنا تھا بورڈ کا کوارڈنیٹر فاروق خان ان لمحات کو یاد کرتے ہیں ۔۔مخالفت اکثروں کی فطرت ہوتی ہے ۔۔اس وقت بھی مخالفت ہوتی تھی اب بھی ہوتی ہے ۔۔مگر خلوص سے جس کام کاآغاز ہو وہی خلوص اس کام میں ہتھیار کا کام کرتا ہے ۔۔چاہئے کہ محکمہ تعلیم کے سارے ذمہ دار اس کام میں بورڈ کا ہاتھ بٹائیں اگر بورڈ کا عملہ ان کو اگنور کرے تو یہ ان کی نااہلی ہے ۔۔حال ہی میں پشاور بورڈ کے چیرمین ڈاکٹر فضل الرحمن نے چترال کا دورہ کیا ۔۔آپ نے ٹاون چترال میں ایف اے ایف ایس سی کے پانچ زنانہ اور چھ مردانہ امتحانی سنٹروں کا دورہ کیا ۔۔سنٹروں میں امتحانی عمل پہ اطمنان کا اظہار کیا ۔۔انہوں نے دل کھول کر اس پسماندہ علاقے میں امتحانی سہولیات مہیا کرنے کا وعدہ کیا ۔۔انہوں نے امتحانی سنٹروں میں سی سی ٹی وی کیمرہ لگانے کا وعدہ کیا ۔۔امتحانی عملے کی تعیناتی میں میرٹ پہ سختی سے عمل کرنے پہ زور دیا اور بورڈ کوارڈینیٹر فاورق کو ہدایت کی کہ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کے ان اساتذہ کے نام نکالیں جو امتحانی ڈیوٹیوں سے محروم رہتے ہیں ۔۔انہوں نے اس بات کو معیار قرار دیا کہ اداروں کے سربراہ اور محکمہ تعلیم کی اجازت اور مشاورت کے بغیر ڈیٹیوں کی تقسیم نہ کی جائے ۔۔ڈاکٹر فضل الرحمن ایک مخلص اور اپنے کام سے کام رکھنے والے افیسر ہیں ان کو’’نان پروٹوکول افیسر‘‘ کہنا بجا ہوگا ۔۔ملک خداداد میں آٖفیسر شاہی کا ایک اپنا انداز ہے ۔۔ایسے آفیسر کم کم ملتے ہیں۔ جن کو اپنے عہدوں کی نہیں اپنے فرایض کی پرواہ ہوتی ہے ۔۔یہ کسی قوم کے سرمائے ہوتے ہیں ۔۔ڈاکٹر صاحب نے اپنے بورڈ کوارڈینیٹر فاروق کی گاڑی میں علاقے کا دورہ کیا۔۔ اللہ بھلا کرے ۔۔ڈاکٹر صاحب کا مسلمانوں کا وہ ابتدائی دور یاد دلائے۔۔ جب ذمہ داروں کواپنی نہیں اپنے رعایا کی فکر ہوتی تھی ۔۔ڈاکٹر صاحب نے بمبوریت کا دورہ کیا وہاں پر شیر جہان استاد ہائی سکول بمبوریت کے گھر چائے پی لی اور اپنی بڑائی اور اپنائیت کا ثبوت دیا کہ میں تم میں سے ہوں اور تم میرے دست و بازو ہو ۔۔ڈاکٹر صاحب کا چترال کا دورہ کرنا چترالیوں کے لئے ایک اُمید کی کرن ہے آپ نے خود بورڈ کیمپس کی کارکردگی بھی دیکھی اور علاقے کی پسماندگی بھی دیکھی ۔۔موسمی حالات کا بھی اور آمدورفت کی مجبوریوں کا بھی آپ کو اندازہ ہوا ۔اس لئے چترال کو پیریارٹری میں رکھنا یقیناًآپ کو اپنے آپ سے وعدہ ہوگا کہ آپ اس کیمپس کو سہولیات سے بھر کے چھوڑیں گے ۔انشا اللہ چترال کا یہ کیمپس باقاعدہ بورڈ بنے گا ۔۔اس کے لئے باقاعدہ ز مین خریدی جائے گی۔۔عمارت بنے گی اور یہ عمارت چترال بورڈ کے نام سے پہچانا جائے گا ۔۔ عزت مآب چیرمین کے دورے کا سہرہ بورڈ کوارڈنیٹر فاروق احمد اور اس کے عملے کے سر جاتا ہے ۔۔یہ ان کی محنت کا نتیجہ ہے کہ چترال فور پرنٹ پہ ہوتا ہے ۔۔ان کی جرات مندانہ قدم اور فعالیت کا ثبوت پچھلے سال ایس ایس سی کے امتحان میں سوسوم میں برفانی تودہ گرنے سے بچوں کی ہلاکت اور پھر اس سنٹر میں ہنگامی بنیادوں میں امتحانی عمل کا جاری رکھنا ایک بڑی آزمائیش تھی ۔۔اس سال اکیس اپریل کا واقعہ کہ چترال میں امرجنسی نافذ تھی مگر فاروق احمد اپنی ذمہ داری میں اس دن کا پرچہ کرا کر ثابت کردیا کہ ہمت سے آگے بڑھنے سے اللہ کی مدد ہوتی ہے ۔۔ہم اپنے نوجوانوں سے یہی توقع رکھتے ہیں ہمیں اُمید ہیں کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ چترال کے امتحانات مثالی ہونگے اور دوسرے لو گ اس پسماندہ ضلعے کی مثالیں دیا کریں گے ۔۔ڈیوٹی سے محروم اساتذہ کے علاوہ ان مخلص اساتذہ کوڈھونڈا جائے گا کہ وہ واقعی امتحان کو امتحان سمجھیں ۔۔اور امتحانی سنٹروں کو ہر برُائی سے پاک رکھیں ۔۔ہمیں نہ کسی کی کوتاہیوں سے پردہ پوشی کرنی چاہیے نہ اچھائیوں کو چھپانا چاہئے ۔۔یہ زندہ قوموں کے اُصول ہو تے ہیں ۔۔ ًً

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔