چترال کا حالیہ واقعہ ماضی کے آئینے میں

عبدالحق چترالی

اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حضور ﷺ کے زمانے سے آج تک گستاخان رسول ﷺ اورنبوت کے دعویدار ملعونین ومرتدیں پیدا ہوتے رہے ہیں اور امام مہدی اور دجال کے ظہور تک یہ سلسلہ جاری رہیگا ۔ فرق اتنا ہے کہ حضور ﷺ اور خلفائے راشدیں کے مبارک دور میں ایسے بدبختوں کو کسی مہلت اور لگے لپٹے بغیر جہنم رسید کیا جاتا تھا اور آج کل ان کو قانوں کے حوالے کر دینے میں عافیت سمجھی جاتی ہے ۔ اس دور کے کوئی اسطرح کے سولہ بدبختوں کی فہرست ہمیں مل جاتی ہے ۔جنہیں کیفر کردارتک پہنچایا گیا ۔ ان میں ایک ابی بن خلف جو حضوراقدس ﷺ کے مبارک ہاتھوں اور بشرنامی منافق حضرت عمرؓ کے ہاتھوں جہنم رسید ہوئے ۔ چار دشمنان خدا و رسول حضرت علیؓ کے ذریعے واصل جہنم ہوئے جبکہ دیگر کو مختلف صحابہ کرامؓ عنہم اجمعین نے آنجام بدتک پہنچادیئے ۔ اسطرح بعد کے دور میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے ریجی فالڈ نامی گستاخ رسول اور فرزند ابو عبدالرحمان اندلسی نے بولو جیئس نامی پادری گستاخ کو قتل کرکے غازی اور عاشق رسول ﷺ کا لقب اپنے نام کرلئے ۔یہ وہ سنہری دور تھا جب مسلمان آذاد اور صحیح معنوں میں اسلام پر عمل پیرا تھے اور ہر مسلمان اپنے آپ کو خدائی فوج کا سپاہی سمجھنے میں فخر محسوس کرتا تھا اور یہ دور اسلام کے عروج کا دور تھا یہی وجہ ہے کہ اس دور میں ان مجرمین کے ساتھ کوئی رو رعایت نہیں برتی گئی حتی کہ لونڈیوں اور خانہ کعبہ کے غلاف کے ساتھ لپٹنے والوں کو بھی حضور ﷺ کے حکم پر مردار کیا گیا ۔ اس کے بعد ماضی قریب پر ہم نظر دوڑائیں تو ان غازیوں کی ایک طویل فہرست ہمیں مل جاتی ہے جو گستاخ رسولﷺ اور جھوٹے نبوت کے دعویدارو ں کو جہنم رسید کرکے خود بھی شہادت کے اعلیٰ رتبے پر فائز ہوئے ۔ ان میں غازی علم الدین شہید،غازی عبدالقیوم شہید ، غازی مراد حسین شہید ،میاں محمد شہید ، غازی قاضی عبدالرشید شہید، صوفی عبد اللہ شہید، بابو معراج الدین شہید، حاجی محمد مانک شہید، بابوعبدالمناں شہید ، منظور حسین شہید ، غازی عامر عبدالرحمان چیمہ شہید ، ملک ممتازحسین قادری شہید ، اور علامہ خرم قادری عطاری شہید کے نام سر فہرست ہیں ۔
ماضی کے واقعات اور مسلمانوں کے رد عمل کے حوالے سے اگر چترال کے حالیہ واقعہ کو دیکھا جائے تو یہ ایک بالکل انوکھا اور مسلمانوں کو لرزا دینے والا منفرد واقعہ ہے کہ جسمیں ایک لعین ضلع کے دارالخلافہ اور مرکزی جامع مسجد میں عین خطبہ جمعہ کے موقع پر منبر رسول ﷺ میں علی الاعلان نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہے اور بحفاظت قانوں کے حوالے کیا جاتا ہے اور حفظ ماتقدم کے طور پر پاگل پن کا لاحقہ بھی ساتھ لگا دیا جاتا ہے ۔ واقعی کیا خطیب صاحب اور کیا صف اول کے مقتدی صاحبان سب حد سے زیادہ امن پسند اور حکمت و دانش کے سرخیل ثابت ہوئے اسلئے تو کافی سارے لوگ خطیب صاحب کو امن ایوارڈ سمیت دوسرے اعزازات سے نوازنے کے مطالبے کر رہے ہیں اب یہ بات بھی چھیڑدی گئی ہے کہ مذکورہ بدبخت توہین رسالت ﷺ کے مرتکب نہیں بلکہ جھوٹے نبوت کے دعویدار ہے چنانچہ توہین رسالت ناقابل معافی جبکہ دعویٰ نبوت کا جرم قابل معافی ہے ۔ تاہم یہ بات قابل غور ہے کہ اس مردود کا اپنے آپ کومسلمانوں کے مجمع میں نبوت کے طور پر پیش کرنا منصب نبوت کی توہین نہیں ہے ؟چونکہ میں نے اس تحریر کے ابتداء میں نبی پاک ﷺسے لیکر آج تک کے اکثر و بیشتر تو ہین رسالت ﷺکے مرتکبین اور جھوٹے نبوت کے دعویداروں کو غیرت مند مسلمانوں کی طرف سے آنجام بد تک پہنچانے کی پوری تفصیل لکھدی ہے ۔ جب تک مسلماں روبہ عروج تھے تو انہوں نے یہ کام کرکے غازی کہلائے اور جب مسلمان زوال پذیرہوئے اور حکمرانی کی باگ ڈورغلام گردشوں کے ہاتھ میں آئی تو بھی غیرت مند مسلمانوں کی کمی نہیں رہی اور وہ کسی کی پرواہ کئے بغیر توہین رسالت ﷺکے مرتکبین اور جھوٹے نبوت کے دعویداروں کو ٹھنڈے پیٹوں کبھی برداشت نہیں کیا ۔ ان کو جہنم رسید کرکے غازی بھی بنے اور شہادت کے اعلیٰ رتبے پر بھی فائز ہوئے ۔ اس حوالے سے غازیوں اور شہیدوں کی طویل فہرست جو غازی علم الدیں شہید سے لیکر قریبی تاریخوں میں غازی اور شہادت کے رتبے پر فائز ہونے والے علامہ خرم قادری عطاری شہید پر ختم نہیں ہو ا۔
بلکہ یہ تا ابد جاری رہیگا ۔ چترال کی شاہی جامع مسجد میں امن آشا کی آواز اگر چہ دور دور تک سنائی دی اور مخالفین بھی عش عش کرنے لگے۔ تا ہم عشق مصطفےٰ ﷺ کے چند سر پھیروں سے رہانہ گیا اور وہ اپنی ایمانی جذبے کا بھر پور مظاہرہ کیا مظاہریں کی طرف سے تھانہ پر پتھراؤ یا کسی گاڑی کو نقصان پہنچانے کا عمل کوئی بڑی بات نہیں ۔ ایسے حالات میں ناقابل تلافی نقصان اور بسا اوقات کئی انسانی جانوں کے ضیاع تک کا احتمال ہوتاہے۔ ایسے ہی موقع پر غازی علم الدین شہید ؒ کے کمرہ عدالت میں جج کے سامنے کہے ہوئے یہ الفاظ سنہری حروف سے لکھنے کے قابل اور سچے اہل ایمان اور عاشقان رسول ﷺ کیلئے ایک گائیڈلائن کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
’’ جج صاحب تم سے توہین عدالت برداشت نہیں ہوتا، ہم سے توہین رسالت ﷺ کس طرح برداشت ہو سکتا ہے ۔‘‘
بہر حال مدعی نبوت ﷺکے جھوٹے دعویدار ملعوں رشید کے خلاف توہین رسالتﷺ اور دہشت گردی ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج ہونے کے بعد لوگوں کے جذبات ٹھنڈے پڑگئے اور انہوں نے احتجاج ختم کرکے رات گئے دیر اپنے اپنے گھروں کی راہ لی لیکن یہ بات قابل توجہ ہے کہ اسکے بعد گھروں میں چھاپے مار مار کر سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کو گرفتارکرکے ہفتہ بھر حبس بے جا میں رکھنااور ان میں بیسوں افراد کو انتہائی تشدد اور پولیس گردی کا نشانہ بنا کر ان کے خلاف بھی وہی دفعات لاگو کرناجو ملعون رشید کے خلاف لاگوکئے گئے تھے کیا کوئی گہری سازش اور ملعون کو بچانے کی منصوبہ بندی تو نہیں ۔ آخران افراد پر اتنے سخت دفعات اور کراس ایف آئی آر کاٹنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟اور مخصوص پولیس اہل کا روں کے ذریعے ان بیچاروں پر تشدد کے کیامعنی ؟جبکہ ان کی ماضی کسی بھی ایسے شک و شبہے سے بالاتر ہے ۔ چترال کے عوام اور بالخصوص نوجوان طبقہ کسی بھی دوسرے پاکستانیوں سے زیادہ اسلام کا درد رکھنے والے محب وطن پاکستانی ہیں ان کے آباؤ اجدادنے پاکستان کیلئے بیش بہاقربانیاں دی ہیں اور کشمیر کے جہاد میں ان کا بڑا کردار ہے ۔اور آج بھی دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر چترال کا نوجوان ہے خواہ وہ پاک آرمی سے ہو ، چترال سکاؤٹس سے ہو یا چترال پولیس سے ۔آج کا فی حد تک KPKمیں امن بحال ہوا ہے لیکن پھر بھی ہفتے میں پاکستان کے چھپے چھپے کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان جاں آفریں کے سُپرد کرنے والے کسی جوان کی لاش پاکستانی پرچم میں لپٹے چترال پہنچ ہی جاتا ہے اور چترال کے اکثر و بیشتر دیہات میں پاکستانی پرچم تلے چبوترہ نما قبر یں چیخ چیخ کر پکار رہی ہیں کہ اس گلشن کی آبیاری میں ہم نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا ہے۔کیا یہ سب کچھ اس کا صلہ ہے کہ چترال کے نوجوانوں پر سرکاری سطح پر دہشت گردی کا ٹھپہ لگایا جائے کیا یہ دشمن کے ایجنڈے کی تکمیل کا حصہ تو نہیں؟ کیا یہ کلبھوشن جیسے واقعے سے جڑی کوئی شیطانی عمل تو نہیں ؟کیا ایس پی چترال کا کردار اس حوالے سے غیر جانبدار اور محب وطن پولیس افسر کی ہے یا چترال کے امن کو تباہ کرنے والے ایک تخریب کار کی ؟
یہ بہت سے سوالات اس وقت تک تشنہ طلب رہینگے جب تک اس حوالے سے نیک نام اور خداترس ججوں پرجو ڈیشل کمیٹی کے ذریعے مکمل طورپر انکوائری نہیں کی جاتی ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔