ناموس رسالتؐ کے پروانے

……………./تحریر: قاری جمال عبدالناصر

محمد ؐ کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اگر ہو اس میں کچھ خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے
ناموس رسالت ؐ کے پروانوں نے کسی منصوبہ بندی کے تحت تھانے پر پتھراؤ نہیں کئے بلکہ گستاخ رسولؐ اور جھوٹے مدعی نبوت اور منکر ختم نبوت کے گھناؤنے جرائم کے رد عمل میں فطری طور پر احتجاج کئے اور شمع رسالتؐ کے پروانے اپنے ایمانی جذبات کے پیش نظر اپنی جان کی قربانی پر تیار تھے کیونکہ رسول خد ا ﷺ کی ناموس کیلئے ہر جگہ کلمہ گو انسان خود کو ہر وقت قربانی کیلئے پیش کرنے میں دونوں جہاں کی کامیابی تصور کرتے ہیں۔ گستاخی رسولؐ کے ناروا اقدام کے بعد اگر ناموس رسالت ؐ کے علمبردار احتجاج نہ کرتے تو پورے چترال کے مسلمان عموماً اور اس علاقے کے مسلمان خصوصاً گناہ کے مرتکب ہوتے۔ چترال تھانے اور چترال پولیس کے ساتھ مسلمانوں کی کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی بلکہ انہیں علم تھا کہ عشق رسولؐ کے راستے پر چلتے ہوئے بسا اوقات کانٹوں سے بھی گزرنا پڑتا ہے، لیکن حقیقتاً یہ کانٹے عاشقان رسول ؐ اور فرزندان توحید کے لئے پھول ثابت ہوئے ہیں۔ اگر یہ نوجوان آواز حق بلند نہ کرتے تو آج اسیران ناموس رسالتؐ و فدایان ختم نبوت ؐ کا اعزاز حاصل نہ کرپاتے۔ کل بارگاہ رسالتؐ میں یہ چند نوجوان اپنے دعویٰ میں صادق ہو کر سرخرو ہو نگے کہ ہم وہ نوجوان ہیں جنہیں بیڑیاں پہنا کر ڈی آئی خان جیل لے جایا گیا ، ہم وہ جانثار ہیں کہ ہم نے اپنے خون سے یہ بات تحریر کرنے میں کامیاب ہوئے کہ ہماری موجودگی میں کسی گستاخ کو سر اٹھانے کی جرات نہیں ہو سکتی۔ جبکہ ہم ناموس رسالتؐ کی خاطر سر کٹانے کیلئے ہر مقام پر تیار ہیں۔ ایکسیڈنٹ کا مقام، ڈیرہ جیل ، تھانہ میں بھرپور اذیت کی برداشت ۔۔ یہ سب حقائق ان نوجوانوں کے مراتب کو اوج ثریا تک پہنچانے کے گواہ ہونگے۔ میں تو کہتا ہوں کہ ان پروانوں نے جس حد تک احتجاج کئے ہیں یا مصائب برداشت کئے ہیں، اپنے اپنے مراتب کے مطابق سرخرو ہوئے۔ ان کے والدین ، ان کے عزیز و اقارب بھی یہ کہنے میں بجا طور پر حق بجانب ہونگے کہ ہم تو ’’ اسیران ناموس رسالتؐ‘‘ و اسیران ختم نبوت ؐ کے رشتہ دار ہیں۔ مجھے بعض حضرات کے ان باتوں پر بے حد افسوس ہے جو اپنے بحث مباحثے یا تقریر و تحریر میں کسی نہ کسی طرح یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’’ گرفتار شدگان میں کچھ گنہگا ر ہیں اور کچھ بے گناہ‘‘۔ بصد احترام و ادب عرض ہے کہ ہم کون ہوتے ہیں گستاخ رسالتؐ اور ختم نبوتؐ کے اس حساس نوعیت کے معاملے پر بھی گستاخ ملعون کو پاگل اور عاشقان رسولؐ میں سے کسی کو بے گناہ اور کسی کو گنہگار تصور کریں۔ اگر کسی صاحب کی تحریر یا تقریر سے یہ الفاظ صادر ہو چکے ہیں تو وہ اس عظیم غلطی کیلئے بارگاہ ایزدی میں گڑ گڑا کر معامی مانگیں۔ بلکہ گنہگار تو ہم ہیں کہ ناموس رسالتؐ کیلئے آواز اٹھانے والوں میں سے کسی کو کم اور کسی کو زیادہ گنہگار ٹھرانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہمیں اس بات کا بھی جائزہ لینا چاہئے کہ گستاخ رسالتؐ کے خلاف نعرہ تکبیر کی صدا بلند کرنے اور احتجاج کرنے والوں کو گنہگار کہنے والے کہیں بذات خود ’’گستاخی‘‘ کے مرتکب تو نہیں ہوئے ؟؟
اس روز احتجاج کرنے والے کسی دنیاوی فائدے کے حصول کیلئے میدان میں نہیں آئے تھے بلکہ ایک ایسی مشن کے لئے آواز بلند کئے تھے جوکہ معاشرے کے ہر طبقہ فکر۔۔ چاہئے اسکا تعلق کسی بھی شعبہ زندگی سے ہو۔۔۔ سے تعلق رکھنے والے صاحب ایمان کا مشترکہ دینی فریضہ ہے ۔کوئی سول کپڑوں میں ملبوس ہو یا کسی ادارے کے وردی پہنا ہوا ہو، اعلیٰ اور ادنیٰ سب کے سب شمع رسالت ؐ کے پروانے اور وفادار ہیں۔ کیونکہ قیامت کے دن غازی علم الدین شہید عام لباس زیب تن کئے ہوئے شہیدناموس رسالتؐ کی حیثیت سے محشر میں ہونگے تو ممتاز قادری شہید پولیس کی وردی میں ملبوس ناموس رسالتؐ کے شہید کے طور پر صف میں حاضر ہونگے۔ لہذا ناموس رسالتؐ کے عظیم اور پاک مشن میں کسی بھی امت محمدی ؐ کو اپنے صف سے نکالنے کی کوشش نہ کیجائے اور نہ ہی ناموس رسالتؐ کو کسی مخصوص لباس سے جوڑنے کی کوشش کی جائے۔ ان سطور میں ان حضرات سے بھی گذارش کرناضروری سمجھتا ہوں جو کہ گستاخ کی گستاخی کو گستاخی کہنے کے بجائے صرف مدعی نبوت کی حیثیت سے دیکھتے ہیں، یاد رہے کہ آج کوئی شخص پولیس یا فوج کی وردی پہن کر چھاؤنی یا پولیس لائن میں جائے تو ضرور اسکے خلاف دھوکہ دہی اور جعل سازی کا مقدمہ بنے گا، یہ مقدمہ در اصل گستاخی کی وجہ سے بنتا ہے۔اسی طرح ایک شخص ختم نبوت کا باغی ، نبوت کا جھوٹا دعویدار ہے اور وہ بھی مسجد میں مسلمانوں کے اجتماع کے سامنے ۔۔۔تویہ توہین مذہب بھی ہے، انکار ختم نبوت بھی اور گستاخی رسالت ؐ بھی ہے ۔کیونکہ آئین پاکستان میں بھی انہی حرکات کو توہین مذہب اور گستاخی کہہ کر سزائے موت مقرر کیا گیا ہے ۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر رہے کہ بعض دوست احباب میڈیا کے ذریعے ملعون شخص کو پاگل قرار دینے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، خدارا اس گستاخ شخص (رشید) کو پاگل تصور کرتے ہوئے اس کے لئے صفائی کا گواہ بننے کی کوشش نہ کریں کیونکہ یہ شخص مجنون نہیں بلکہ دماغی لحاظ سے تندرست شخص ہے تب ہی تو اس نے جمعہ کے دن مسجد شریف کا انتخاب کیا اور مجمع میں کھڑا ہو کر اس گستاخی کا ارتکاب کیاہے ۔
کی محمد ؐسے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔